امریکی صدر, سعودی شہزادے اور 9 / 11 کے چند راز


نوٹ: May 6، 2022 کو Law and Disorderکے انٹرنیٹ پروگرام میں مائیکل سمتھ نے مشہور جرنلسٹ پول جے سے تفصیلی انٹرویو لیا جس میں پول جے نے امریکی صدر جارج بش ’سعودی شہزادے بن خالد السعود بندر اور Sep 11  2001 کے سانحے کے چند راز فاش کیے۔ اس طویل انٹرویو کا ترجمہ اور تلخیص حاضر ہے۔

مائیکل سمتھ: پول جے پچھلے بیس برس سے 9 / 11 کے حادثے کے بارے میں تفاصیل جمع کر رہے ہیں اور اس سانحے کے پس پردہ جو محرکات تھے اسے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج وہ اس حادثے کے بارے میں اپنی معلومات ہمیں بتائیں گے تا کہ ہم بھی ان خفیہ رازوں کو جان سکیں۔ آپ اس انٹرویو کو انٹرنیٹ کی the Analysis۔ news پر سن سکتے ہیں۔

پول جے ہمارے پروگرام کی دعوت قبول کرنے کا شکریہ ہم آپ کا اس پروگرام میں خیر مقدم کرتے ہیں۔
پول جے : مجھے دعوت دینے کا شکریہ
مائیکل سمتھ: گیارہ ستمبر کے سانحے میں امریکی اور سعودی حکومت کا کیا کردار تھا؟
پول جے : امریکی حکومت نے بہت سی جنگوں میں بہت سے جھوٹ بولے اور

گیارہ ستمبر کا سانحہ اور عراق سے جنگ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اب جبکہ بہت سا پانی پل کے نیچے سے بہہ گیا ہے اور بہت سے کاغذات شائع ہو چکے ہیں اس لیے بہت سے راز فاش ہو گئے ہیں۔ ان کاغذات سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ حملے سے پہلے امریکی اور سعودی حکومت کو اس حملے کا پتہ تھا۔ سعودی حکومت کے دو نمائندے عمر البییومی اور اسامہ بسان اس میں درپردہ ملوث تھے۔ اس پلاننگ میں سعودی شہزادہ بن خالد السعود بندر بھی ملوث تھا۔ سعودی شہزادے کی بیگم خفیہ نمائندے کی بیگم کو ہر ماہ تین ہزار ڈالر بھیجتی تھی جو بینک کی رسیدوں سے ثابت ہو چکا ہے۔

مائیکل ستھ: پول آپنے امریکی سینیٹر بوب گراہم کا بھی انٹرویو لیا تھا۔ انہوں نے سعودی حکومت کے بارے میں کیا بتایا؟

پول جے : امریکی سینیٹر بوب گراہم ایک معتبر شخصیت ہیں کیونکہ وہ حکومت کی طرف سے گیارہ ستمبر کی تحقیق کرنے والے گروپ کا حصہ تھے۔ وہ ایک سال کی تفصیلی تحقیق میں شامل تھے وہ تحقیق جس پر امریکی حکومت نے لاکھوں ڈالر خرچ کیے تھے۔

سینیٹر بوب گراہم اس تحقیق سے اتنے بددل ہوئے کہ انہوں نے باقی سینیٹرز کو مشورہ دیا کہ صدر جارج بش کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلائی جائے اور انہیں صدر کے عہدے سے ہٹایا جائے اپمیچ کیا جائے لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے۔

سینیٹر بوب گراہم نے مجھے بتایا کہ صدر جارج بش اور نائب صدر ڈک چینی نے جان بوجھ کر نہ صرف خفیہ اداروں کی رپورٹوں کو خرد برد کیا بلکہ امریکی زمین پر بیرونی حملے کے لیے زمین ہموار بھی کی۔ اس سلسلے میں سی آئی اے کے رہنما جارج ٹینٹ اور دہشت گردی کی روک تھام کے ذمہ دار رچرڈ کلارک کے بیانات اہم ہیں۔ انہوں نے سیکرٹری آف سٹیٹ کونڈولیزا رائس کو بھی آنے والے خطرات سے آگاہ کیا تھا لیکن اس نے بھی ان خبروں کو نظر انداز کیا۔

گراہم نے مجھے بتایا کہ جارج بش اور کونڈولیزا رائس کو خبر دی گئی کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ امریکہ پر حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

ایسی خبر ملنے پر کوئی اور صدر ہوتا تو وہ تمام ہوائی اڈوں کو سعودیوں کے بارے میں خبردار کرتا۔
لیکن صدر بش نے الٹا کیا۔ اس نے کہا کہ کسی سعودی کو امریکہ آنے سے نہ روکا جائے۔

ایک اور اہم بات۔ گیارہ ستمبر کے سانحے کے بعد صدر بش نے بن لادن کے خاندان کے بہت سے افراد کو امریکہ سے فرار ہونے میں مدد کی۔

مائیکل سمتھ: آپ کی نگاہ میں امریکی حکومت اور صدر بش نے ایسا کیوں کیا؟

پول جے : یہ سب ایک بڑے پلان کا حصہ تھا اور وہ پلان عراق پر حملے کے لیے زمین ہموار کرنا تھا اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنا تھا۔

اس پلان کا حصہ امریکی فوج کو مضبوط کرنا بھی تھا۔
اور عراق پر حملہ ایک اس سے بھی بڑے پلان کا حصہ تھا۔

اس بڑے پلان کی معراج ایران پر حملہ کر کے اس کی حکومت کو بدلنا تھا اور اس پلان میں امریکی اور سعودی حکومت آپس میں مل گئے تھے۔ اس پلان میں

پہلے صدام حسین کو ہٹانا تھا
پھر شام میں بشر صدر کر برطرف کرنا تھا اور
پھر ایران کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سعودی حکومت اور امریکی حکومت سیاسی طور پر گلے مل چکے تھے۔

امریکی خفیہ اداروں نے وہ فون کالز بھی ریکارڈ کی تھیں جو یمن سے القاعدہ کے ایک خفیہ گھر سے کی گئی تھیں جن میں امریکہ پر حملے کی تفاصیل بتائی گئی تھیں۔

اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی خبروں کا صدر بش اور نائب صدر چینی پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ خاموش رہے بلکہ پس پردہ اس کی مدد کرتے رہے۔

مائیکل سمتھ: عراق کی جنگ میں جو کردار کولن پاول نے ادا کیا اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

پول جے : کولن پاول نے اقوام متحدہ میں جو تقریر کی اس کی عمارت جھوٹ کی بنیادوں پر استوار کی گئی تھی۔ بعد میں پاول نے اعتراف کیا کہ اسے اس تقریر سے پہلے مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔

وہ امریکی جو محب وطن ہیں اور انصاف اور انسانی حقوق کا احترام کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بش ’چینی‘ رمز فیلڈ اور پاول پر مقدمہ چلنا چاہیے کیونکہ وہ ایک بے مقصد جنگ میں سینکڑوں اور ہزاروں معصوم مردوں اور عورتوں اور بچوں کے قتل کے ذمے دار ہیں۔

عراق کی جنگ کا ایک اہم پہلو معاشی ہے۔

امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی کا تعلق ہیلی برٹن ادارے سے تھا۔ وہ اس ادارے کا سی ای او تھا۔ اور اس ادارے کو عراق پر حملہ کرنے سے چند دن پہلے عراق کی تیل کی فیکٹریوں کی تعمیر نو کا سات بلین ڈالر کا کنٹریکٹ ملا تھا۔

مائیکل سمتھ: کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ گیارہ ستمبر کا سانحہ امریکی سیاست کا ایک اہم موڑ تھا؟
پول جے : بالکل تھا۔ اس حملے کے بعد
فوج کو مزید مضبوط کیا گیا
امریکی شہریوں کے حقوق سلب کیے گئے
افغانستان اور عراق میں ہزاروں معصوم لوگ مارے گئے
اور عوام سے بہت سے جھوٹ بولے گئے۔
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail