’بائیو فلاک‘: وہ نوجوان جو جدید طریقے سے کم جگہ پر لاکھوں کلوگرام مچھلی پال کر لاکھوں کما رہے ہیں

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو لاہور


پلانٹ
کم جگہ اور کم حرچ میں زیادہ مچھلیاں پالی جا سکتی ہیں
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر موقع ملے تو ہر شخص اپنا کاروبار کرنا چاہے گا اور کاروبار بھی ایسا جس میں خرچ کم اور آمدن زیادہ ہو۔ کاروبار کے روایتی طریقوں میں مچھلی پالنے کو ایسا ہی ایک منافع بخش طریقہ تصور کیا جاتا ہے۔

ایک کلو وزن کی مچھلی کو پالنے پر اگر فارمر کا سو روپے خرچ آتا ہے تو اسے سو روپے کا منافع بھی با آسانی مل جاتا ہے۔ یعنی اگر آپ ایک لاکھ روپے خرچ کریں تو آپ دو لاکھ آرام سے کما سکتے ہیں۔

لیکن مشکل یہ ہے کہ مچھلی پالنے کا یہ کاروبار ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ مچھلی پالنے کے لیے سب سے پہلے آپ کے پاس وسیع و عریض قطعہ اراضی ہونا چاہیے۔ ایکڑوں پر پھیلی اس زمین پر تالاب بنتے ہیں جن میں بڑی مقدار میں پانی بھرا جاتا ہے۔ اس پانی کو نکاس اور صفائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن پاکستان کے شہر لاہور کے ایک نوجوان نے مچھلی پالنے ہی کے کاروبار کا انتخاب کیا اور محض چند مرلے زمین پر مچھلیاں پال کر ماہانہ لاکھوں روپے کمائے۔ اس کے لیے انھیں صرف مچھلی پالنے کے روایتی طریقے کو ترک کر کے جدید طریقہ اختیار کرنا پڑا۔

اس جدید طریقے میں نہ صرف یہ کہ سعد یوسف کو زیادہ زمین کی ضرورت نہیں تھی بلکہ مچھلی کی خوراک پر بھی ان کا خرچ روایتی طریقے کی نسبتاً آدھا آتا ہے۔

سعد یوسف کا خیال ہے کہ نوجوان اگر کاروبار کے مواقع تلاش کر رہے ہوں تو ان کے لیے ’بائیو فلاک‘ نامی اس طریقے سے مچھلی پالنے میں کاروبار کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ ’یہ کام کسی بھی قسم کی چھوٹی سی جگہ سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے اور اس میں منافعے کی اوسط صد فیصد ہے۔‘

فش فارمنگ

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سعد یوسف نے بتایا کہ بائیو فلاک طریقے سے مچھلی پالنے میں فی کلو مچھلی پالنے پر ان کا خرچ 110 روپے آتا ہے تو وہ فی کلو مچھلی تقریباً 220 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔

لگ بھگ دو سال قبل انھوں نے محض چند مرلے زمین پر پانی کے ٹینک بنا کر دس سے 15 ہزار کلو گرام مچھلی پالی، فروخت کی اور لاکھوں روپے کمائے۔ اپنے اس بائیو فلاک منصوبے کی ویڈیوز وہ یوٹیوب پر اپ لوڈ کرتے رہے ہیں۔

اس طرح چھوٹی سی جگہ پر ہزاروں کلو گرام مچھلی پالنے کے ان کے اس منصوبے نے یوٹیوب کے ذریعے ممکنہ سرمایہ کاروں کی توجہ بھی حاصل کی۔ جلد ہی سعد یوسف کو ضلع قصور کے ایک بڑے زرعی فارم کی جانب سے ان کے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کی پیشکش ہوئی جو انھوں نے قبول کر لی۔

ہردو محمد میں واقع پنجاب ایگری فارم نے ابتدائی طور پر انھیں ایک کروڑ روپے کی سرمایہ کاری فراہم کی۔ اس رقم کی مدد سے سعد یوسف نے محض چھ کنال زمین پر چھ ٹینک تعمیر کر کے کامیابی سے مچھلی پالی اور فروخت کی۔

اب وہ پنجاب ایگری فارم پر بائیو فلاک طریقے سے مچھلیاں پالنے کے اس پراجیکٹ کے ہیڈ یعنی سربراہ ہیں اور موجودہ منصونے کو بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’جتنی زمین اور پانی ہمیں 36 ایکڑ کے سسٹم کے لیے چاہیے ہوتا ہے اس سے کئی گنا کم یعنی صرف چھ کنال زمین پر ہم لگ بھگ ایک لاکھ کلو گرام مچھلی پالنے کا نظام چلا رہے ہیں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ رواں سال کے آخر تک ہم اس کو ایک لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ تک لے جائیں۔‘

روایتی طریقے سے کاروبار میں کتنا منافع ہے؟

پلانٹ

چھلی پالنے کا یہ طریقہ ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور انڈیا سمیت دوسرے کئی ممالک میں استعمال ہو رہا ہے

دوسری جانب ملک صفدر اعوان ضلع سرگودھا کے علاقے بھلوال کے ایک گاؤں چک 18 میں روایتی طریقے سے مچھلی پالنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کا فش فارم لگ بھگ دو سو ایکڑ پر قائم ہے۔

تاہم ملک صفدر کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں حالیہ اضافے کے بعد مچھلی کی خوراک، بجلی اور خام مال کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ اس کے بعد روایتی طریقے سے مچھلی کے اس کاروبار میں منافعے کی شرح کئی گنا کم ہو گئی ہے۔

’پہلے اگر ایک ایکڑ پر ہم لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ کر کے ڈیڑھ، دو لاکھ روپے کما لیتے تھے تو آج اسی ایک ایکڑ پر تین لاکھ خرچ کر کے بمشکل 50 ہزار روپے منافع بچتا ہے۔‘

تو سوال یہ ہے کہ کیا بائیو فلاک ٹیکنالوجی جسے سعد یوسف نے کامیابی سے پاکستان میں اپنایا ہے وہ ملک صفدر جیسے روایتی کسانوں کی مشکل کو حل کو سکتی ہے؟

اور اس میں ایسے افراد کے لیے کتنے مواقع ہیں جو سرے سے اس کاروبار کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے تاہم اسے اپنانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

بائیو فلاک طریقہ کیا ہے؟

فش

سعد یوسف بھی تین سال قبل روایتی طریقے سے مچھلی پالنے کے کاروبار کے لیے تحقیق کر رہے تھے جب انھیں پہلی بار بائیو فلاک کے بارے میں علم ہوا۔ مچھلی پالنے کا یہ طریقہ ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور انڈیا سمیت دوسرے کئی ممالک میں استعمال ہو رہا تھا۔

اس طریقے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سعد یوسف نے بتایا کہ آسان الفاظ میں بنیادی طور پر اس طریقے میں ایک خاص قسم کا بیکٹیریا مچھلی کے فضلے کو کھا کر افزائشِ نسل کرتا ہے اور پھر اس صحت افزا بیکٹیریا کو مچھلی خوراک کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

’یوں یہ اچھے بیکٹیریا کی پیداوار اور مچھلی کی خوراک کے طور پر کام کرنے کا سائیکل چلتا رہتا ہے۔ اس لیے اسے بائیو فلاک ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔‘

سعد یوسف کے مطابق بیکٹیریا کی افزائش نسل اور مچھلی کو مرنے سے بچانے کے لیے انھیں پانی میں کیمیات اور دیگر عوامل کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ یہ تمام کام باآسانی سر انجام دیے جا سکتے ہیں۔

بائیو فلاک کیسے کام کرتا ہے؟

پلانٹ

ضروری ہے کہ پانی میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہو تا کہ مچھلی مرے نہیں

ماہرین کے مطابق بائیو فلاک طریقے میں پروبائیوٹک یا پری بائیوٹک یعنی صحت افزا بیکٹیریا مچھلی کے فضلے کے ساتھ ساتھ افزائشِ نسل کے لیے اس اضافی خوراک کو بھی استعمال کرتا ہے جو مچھلی چھوڑ دیتی ہے۔ یعنی وہ خوراک جو عموماً ضائع ہو جاتی ہے۔

لاکھوں کی تعداد میں بننے والے بیکٹیریا کے نظر نہ آنے والے ’فلاک‘ پانی کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں۔ ان سے جو کلچر بنتا ہے مچھلی اس کو کھاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ماہی گیروں کو لکھ پتی بنانے والی کروکر مچھلی میں خاص کیا ہے؟

وہ شعبے جن میں نوجوان ملازمت کا آغاز ہی بڑی بڑی تنخواہوں سے کرتے ہیں

ایمازون پر کاروبار کے ’سادہ‘ طریقے سے لاکھوں کمانے والے پاکستانی نوجوان

اس نظام کو کام کرنے کے لیے زیادہ تر سورج کی روشنی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی مچھلی کے تالاب میں پیدا ہونے والی امونیا گیس کو بننے سے بھی روکا جاتا ہے۔ اس کے لیے پانی کو مسلسل حرکت دی جاتی ہے تاکہ اس میں لہریں پیدا ہوتی رہیں۔

ورنہ جس مقام پر پانی زیادہ دیر رُکا رہے اس میں امونیا اور نائٹروجن کی مقدار بڑھ جانے سے مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی۔ یوں بائیو فلاک میں زیادہ مچھلی اس لیے بھی رکھی جا سکتی ہے کہ اس کو خوراک کم دینا پڑتی ہے اور زیادہ تر کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔

سعد یوسف کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں چھوٹی جگہ پر جب مچھلی کو رکھا جاتا ہے تو ضروری ہے کہ پانی میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہو تاکہ مچھلی مرے نہیں۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وہ تین طریقوں سے پانی کی ’ائیریشن‘ یعنی اس میں آکسیجن داخل کرتے ہیں۔

بائیو فلاک کا سیٹ اپ کیسے لگایا جاتا ہے؟

پلانٹ

بائیو فلاک طریقے میں نہ تو گوشت خور مچھلی پالی جا سکتی ہے اور نہ ہی سبزہ خور

سعد یوسف نے ہردو محمد میں پنجاب ایگری فارم پر جو منصوبہ لگا رکھا ہے اس میں چھ کنال جگہ پر انھوں نے چھ ٹینک بنا رکھے ہیں۔ ہر ٹینک کی دیواریں اور فرش کنکریٹ سے تیار کیا گیا ہے۔ ٹینک کی گہرائی گیارہ فٹ جبکہ اس کا ڈائیامیٹر یا قطر 40 فٹ ہے۔

ایک ٹینک میں تین لاکھ لیٹر پانی ہوتا ہے۔ ہر ٹینک میں کنکریٹ کے اوپر ایچ ڈی پی شیٹیں ڈالی گئی ہیں جسے لائینر کہا جاتا ہے۔ اس کو لگانے کا مقصد یہ ہے کہ پانی کنکریٹ سے نہ ٹکرائے اور اس کی کیمیائی اجزا میں ردوبدل نہ ہو۔

سعد یوسف نے ہر ٹینک میں پانی میں آکسیجن شامل کرنے کے تین ذریعے لگا رکھے ہیں۔ ایک تو ٹیوبوں کی مدد سے باہر سے ہوا کو پانی میں شامل کیا جاتا ہے۔ دوسرا پیڈل ویل ایریٹرز کے ذریعے بھی آکسیجن کو پانی میں شامل کیا جاتا ہے۔

اس طریقے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ پانی میں لہریں پیدا کر کے اسے حرکت دینے میں مدد ملتی ہے۔ تیسرے طریقے میں وہ پانی کو حرکت دینے اور ردوبدل کرنے کے ذریعے بھی اس میں آکسیجن شامل کرتے ہیں۔

اس کے بعد وہ اس ٹینک میں اتنی مچھلی پال سکتے ہیں جتنی روایتی طریقے سے چھ ایکڑ پر پالی جاتی ہے۔ اس مچھلی کو صنعتی طور پر تیار کردہ جو خوراک دی جاتی ہے اس کی مقدار بھی کئی گنا کم ہوتی ہے۔

بائیو فلاک میں کون سی مچھلی پالی جا سکتی ہے؟

سعد یوسف کے مطابق بائیو فلاک طریقے میں نہ تو گوشت خور مچھلی پالی جا سکتی ہے اور نہ ہی سبزہ خور۔ اس میں صرف اومنی وور یعنی ہمہ خور مچھلی پالی جا سکتی ہے یعنی وہ مچھلی جو سب کچھ کھاتی ہے۔

یہی مچھلی بیکٹیریا کے اس فلاک کو کھاتی ہے جو ٹینکوں میں پیدا کیا جاتا ہے۔ دوسری دونوں اقسام اس کو نہیں کھاتیں۔ انھیں اچھا وزن بنانے کے لیے زیادہ جگہ بھی درکار ہوتی ہے۔ تاہم ہمہ خور مچھلی کی بھی بہت سی ایسی اقسام ہیں جو اس سسٹم میں پرورش پا سکتی ہیں۔

ان میں تلاپیا، پنگیسیئس، سی باس، بارہ منڈھی اور شرمپ یعنی جھینگا وغیرہ شامل ہیں۔ سعد یوسف نے بتایا کہ ’بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت بارہ منڈھی، سی باس اور شرمپ وغیرہ کی ہیچریز موجود نہیں ہیں اس لیے تاحال وہ صرف تلاپیا اور پنگیسیئس ہی بائیو فلاک میں پال رہے ہیں۔‘

تاہم ان دونوں مچھلیوں کی بھی پاکستان میں بہت زیادہ کھپت ہے۔ عنقریب جب باقی مچھلیوں کی ہیچریز بھی پاکستان میں بن جائیں گی تو سعد یوسف اپنے کاروبار میں منافع کئی گنا بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔

بائیو فلاک روایتی طریقے سے کس طرح بہتر ہے؟

فش فارمنگ

سرگودھا کے کسان ملک صفدر اعوان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے چند سال قبل دوسرے کاروباری افراد کو دیکھ کر چھوٹے پیمانے سے اس کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ انھوں نے محض چار ایکڑ پر فارم بنایا اور یہ زمین ان کی اپنی ملکیت تھی۔

’ایسے فارم کیونکہ زیادہ تر بنجر قسم کی زمینوں پر بنائے جاتے تھے تو ہمارے پاس ایسی کچھ زمین پڑی تھی ہم نے اس پر مچھلی کا کاروبار شروع کیا اور اس میں ہمیں بہت زیادہ فائدہ ہوا۔‘

ملک صفدر اعوان کو اس کام میں اتنا فائدہ ہوا کہ انھوں نے اپنی ملکیت سو ایکڑ سے زیادہ زمین پر اسے پھیلا دیا اور باقی زمین ٹھیکے پر حاصل کر کے اس پر بھی تالاب بنا دیے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ختم ہونے والی حکومت کے دور میں مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے انھیں نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیے

گوادر کی مچھلیوں کے گرد گھومتی معیشت اور ماسی مہاتون کی کہانی

کیا دفتر میں کامیابی کا راز آپ کے لباس میں بھی چھپا ہے؟

گھر بیٹھے ہزاروں ڈالر کمانے والے پاکستانی فری لانسرز

مہنگی ڈگری کے بغیر بھی آن لائن کمائی ممکن!

’سب سے بڑا خرچ مچھلی کی خوراک ہوتی ہے جو بہت مہنگی ہو گئی ہے اور ساتھ ہی بجلی کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی۔ یوں ہمارا خرچ بڑھ گیا لیکن مچھلی کی قیمتِ فروخت نہیں بڑھی۔ اس طرح اس کام میں منافع اب کئی گنا کم ہو گیا ہے۔‘

جبکہ سعد یوسف کہتے ہیں کہ بائیو فلاک میں مچھلی کی پیداوار پر خرچ اب بھی کم ہے۔ اس لیے اس کی قیمتِ فروخت تبدیل نہ ہونے کے باوجود بھی منافعے کی شرح صد فیصد برقرار ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس طریقے سے فش فارمنگ کے لیے زمین بھی انتہائی کم چاہیے اور مچھلی کی خوراک بھی۔

بائیو فلاک کے ذریعے کاروبار میں کتنے لوگوں کا فائدہ ہوا؟

پنجاب ایگری فارم کے پراجیکٹ ہیڈ سعد یوسف نے بتایا کہ ان کے منصوبے کو مقامی ذرائع ابلاغ اور یوٹیوب کے ذریعے ملنے والی تشہیر کے بعد کئی لوگوں نے ان سے اس کاروبار کے لیے رابطہ کیا۔

سعد یوسف نے کئی افراد کو یہ منصوبے لگا کر بھی دیے۔ ’ان میں سے کچھ کے کاروبار میں منافع کی شرح ہمارے کاروبار سے بھی زیادہ تھی لیکن تقریباً 60 فیصد لوگ ایسے تھے جن کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔‘

اس کی وجہ سعد سمجھتے ہیں کہ انتظامی ہے۔ یعنی جو افراد کامیاب نہیں ہوئے ان سے انتظامی غلطیاں ہوئیں۔ سعد یوسف کے مطابق اس کاروبار میں انتظامی غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔

’اس میں ہر کام وقت پر کرنے کی بہت اہمیت ہے۔ جو کام آپ نے صبح آٹھ بجے کرنا ہے وہ اگر آپ نے نہ کیا تو آپ کی مچھلی کے کلچر کا نقصان ہو جائے گا۔ اس میں آپ سستی نہیں کر سکتے۔‘

سعد سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی میں کوئی خامی نہیں ہے۔ ’اگر ٹیکنالوجی میں خامی ہوتی تو ہم کیوں فائدے میں ہوتے؟ اور اگر ہم فائدے میں نہ ہوتے تو ہم اس کو بڑھانے کا کیوں سوچ رہے ہوتے۔‘

روایتی کاروبار کرنے والے بائیو فلاک کی طرف کیوں نہیں گئے؟

سرگودھا کے ملک صفدر اعوان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کی ایک بڑی وجہ حکومت کی عدم توجہی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں مچھلی کی سالانہ پیداوار میں ضلع سرگودھا کا بہت بڑا حصہ ہے۔

’سرگودھا میں مچھلی کا کاروبار کرنے والے کئی افراد نے بائیو فلاک ٹیکنالوجی کے منصوبے لگائے اور تجربہ کیا تاہم وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی حکومت نے اس حوالے سے ان فارمرز کو کوئی آگاہی نہیں دی۔ نہ ہی حکومتی سطح پر اس طریقے کی تشہیر کی گئی۔‘

ملک صفدر کے مطابق مچھلی کا کاروبار کرنے والے زیادہ تر افراد اب تک ایک دوسرے کو دیکھ کر مچھلی پالنا سیکھتے رہے ہیں۔ اس میں بھی انھیں حکومت کی طرف سے زیادہ مدد نہیں ملی۔

’لیکن روایتی طریقے کے برعکس بائیو فلاک قدرے تکنیکی کام ہے۔ اگر حکومتی سطح پر فارمرز کو اس حوالے سے آگاہی دی جائے اور یہ طریقہ سکھایا جائے تو ہماری مچھلی کی پیداوار بھی بڑھے گی اور فارمر کے حالات بھی بہتر ہو جائیں گے۔’

پنجاب ایگر فارم کے پراجیکٹ ہیڈ سعد یوسف کا استدلال ہے کہ بائیو فلاک طریقے سے مچھلی پالنے والے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ بہت پڑھا لکھا ہو۔ اس میں چند کنٹرولز ہیں جو تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان با آسانی کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32469 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments