“غدار پاکستانی” کا خان صاحب کے نام کھلا خط



جناب عالی، سابق وزیر اعظم پاکستان، شہنشاہ اعظم، حاکم ملک و ملت، عالم پناہ، تاج دار پاکستان، زینت پاکستان، نازش لوح و قلم، ہوش و خرد علم و حکمت کے چراغ آخریں آپ کے حضور ان بے کسوں، ستم زدگان کا سلام جو گزشتہ چار سال میں جو کے دانے کی طرح وقت کی چکی میں پس گئے ہیں۔

خان صاحب! آپ کی خدمت میں اس خط کے ارسال کرنے کی سادہ سی وجہ اول تو اس چرغ نیلی فام تلے بستے لوگوں (جن کا گھر پاکستان ہے) کے روبرو آپ کی شخصی عظمت کا اعتراف کرنا ہے کہ کل کائنات میں آپ ایسے ”نابغۂ روزگار“ افراد بہت کم ”اترتے“ ہیں اور سر زمین پاکستان پر تو آپ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے علاوہ اس خط میں آپ کی ”بے لوث حب وطنی“ اور اقتدار ایسے دنیا داری کی ”غلاظت سے لاتعلقی“ کا ہر سطح پر اعلان کرنا شامل ہے کیونکہ آپ نے اپنے ہر قول و فعل سے ثابت کیا کہ آپ کو اقتدار کی کوئی تمنا نہیں، آپ تو بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاؤس تک روزانہ پیدل آ جا سکتے ہیں۔

خان صاحب آپ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے آپ کا ستارہ میزان ہے جس کی بنیادی صفات میں سے ایک خوبصورتی پر حکومت کرنا ہے جسے آپ نے پھیلا کر ہر شے پر حکومت کو محیط کر دیا ہے وگرنہ تو میزانی موسیقی کے رسیا، دلیل کے دشمن اور سستی میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ حالات گواہ ہیں کہ صنف نازک (خوبصورتی) کی طرف آپ کا جھکاؤ ستارے کی مجبوری کے تحت ہے وگرنہ تو آپ نہایت متقی اور پرہیز گار انسان ہیں اور اسی سبب سے موسیقی بھی محض قومی مفاد میں برداشت فرماتے ہیں۔ اپنی پرہیزگار طبعیت کا مظاہرہ آپ نے لگ بھگ پونے چار برس ظاہری عمل سے بھی خوب کیا ہے۔
خان صاحب اس ملک کے دشمن کہتے ہیں کہ آپ پاکستان کے مفادات کے لیے خطرے کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ پڑوسی ملک کا ایک کج فہم میجر بھی بولنے لگا ہے کہ خان کی موجودگی میں بھارت کو پاکستان کے خلاف کوئی سازش یا سازشی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ خود خانہ جنگی کی فضاء بنا رہا ہے غداری کے فتوے بانٹ رہا ہے اور قوم کو تقسیم کرنے کی شعوری کوشش کر رہا ہے۔
خان صاحب ہم جانتے ہیں یہ سب لوگ ”آپ کی عقلی وجاہت اور شخصی طمطراق“ سے حسد کی وجہ سے ایسی بے تکی ہانکتے ہیں ورنہ آپ ایسا محب وطن زمانے کی نگاہ نے نہ دیکھا ہو گا اور نہ ہی پھر ”نمودار“ ہونے کے کوئی امکانات ہیں، آپ کی موجودگی اس ملک کی ”سال میت“ کی سند ہے جبکہ یہ سب ”بونے“ آپ کے طویل قد کی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں سوائے ”میں اکیلا“ بزعم خود آپ کی کرشماتی خوبیوں کا گواہ ہوں۔ خان صاحب اس ملک کے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ 5 اکتوبر 1952 سے آج تک آپ نے جو کچھ کیا وہ بے مثال اور یادگار ہے۔ آپ کی شیر خوارگی کے ایام تاریخ کے مختلف ترین دن تھے کہ کوئی بچہ آپ ایسا ذہین، خوبصورت حتی کہ ”رئیل جینیس“ ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر آپ کا بچپن، آپ کا لڑکپن صرف تاریخ کے بے برکت اوراق کو روشن نہیں کرتا بلکہ لاہور شہر کی ”ہر گلی آپ کے قدموں“ کی حیرت ناکی سے آج بھی گونج رہی ہے وہاں کا ہر علاقہ واقف ہے کہ آپ ایسے ”بے مثل سپوت“ اس آسمان کے درخشاں ستارے ہیں۔
خان صاحب جب اکیس برس کی عمر میں آپ نے ٹسٹ کرکٹ میں قدم رنجہ فرمایا تو وہ دن بھی اس ملک کے لیے تاریخی ”حادثے“ سے کم نہ تھے، بس کچھ حوادث ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے سمجھنے میں اقوام کو عمومی حالات سے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ خان صاحب آپ نے 88 ٹسٹ میچ کھیل کر 3807 رنز بنائے اور لگ بھگ 38 رنز کی اوسط برقرار رکھی جو نہ صرف وطن غریب پاکستان بلکہ پوری کرکٹ دنیا کے لیے ”یادگار“ واقعہ ہے۔ یہ ”عظیم کرکٹر“ کا ایسا نہ ٹوٹنے والا ”ریکارڈ“ ہے جس کی طرف کل دنیا کے کرکٹر للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ اس قدر ہوتا تو خیر تھی کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ کس قدر مصروف ہیں کہ آپ کے پاس کم از کم مجھ ایسے ناکارہ استادوں، شاعروں کے لیے وقت بالکل بھی نہیں ہو گا اور آپ اس وقت بھی جناب فواد چوہدری، جناب شیخ رشید ایسے دنیا کے معروف سیاسی فلسفیوں کے ساتھ وطن کے معاملات کو نہایت عرق ریزی کے ساتھ جانچ پرکھ رہے ہوں گے؟

اے ”میرے عظیم کرکٹر“ منشائے ایزدی کے سامنے بے بس اور آپ کی صلاحیتوں کے سامنے بے کس کارخانہ حیات نے دیکھا کہ آپ نے محض 88 ٹسٹ میچ کھیل کر 3807 رنز بنا ڈالے، ٹسٹ کرکٹ میں صرف بیٹ سے کرشمات تاریخ کے چہرے پر ثبت نہیں کیے بلکہ اپنی دھواں دار، تیز ترین گیند بازی سے ان 88 ٹسٹ میچوں میں 362 وکٹ بھی اڑائے۔

خان صاحب آپ کی پروفیشنل زندگی کے کارنامے بے شمار ہیں کہ ہم لکھتے لکھتے تھک ہار جائیں گے مگر مجال ہے کہ آپ کے اوصاف اور کمالات کے دفتر کے دفتر انجام پذیر ہوں اور یہ فسانہ اپنے اختتام کو پہنچے بس شرط محض یہ ہے کہ یہ کہانی ”آپ خود صیغہ واحد متکلم یعنی “میں، میں” کے ساتھ سناتے رہیں اور سننے والے جھومتے گاتے رہیں۔

خان صاحب کون نہیں جانتا کہ جس طرح آپ نے اپنی زندگی کی ساری کمائی شوکت خانم کے نام وقف کی، اپنی ضرورت کی گاڑیاں فروخت کر کے ان سے حاصل ہونے والی رقوم، اپنی وراثتی جائیداد سے حاصل ہونے والے سب اثاثہ جات پہلے شوکت خانم کینسر ہسپتال کو دان کیے اور پھر پوری قوم سے چندہ لے کر اس ہسپتال کو تعمیر کیا، اس کے تمام ضروری اسباب فراہم کیے اور آخرکار اسے غریبوں کے لیے وقف کر دیا آج آپ اس ہسپتال کے کسی نظام سے ایک آنہ پیسہ بھی لینے کے ”روادار“ نہیں ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ کبھی کسی جاوید ہاشمی کی سفارش پر، کبھی کسی شفقت محمود کے رقعہ پر، کبھی کسی پرویز خٹک کے ریفرنس پر کسی مریض کو ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے کی دوا فوراً نہیں ملتی۔ آپ کی بنائی ہوئی نمل یونیورسٹی میں ہمارے ملک کے ریڑھی بانوں، پرچون فروشوں، خاکروبوں، ٹھیلہ داروں، مزدوروں کے بچے مفت اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آپ ”اچھی طرح“ تسلی رکھتے ہیں کہ اس ادارے میں کسی امیر کبیر باپ کے لاڈلے اور دولت مند بچے کا داخلہ نہ ہونے پائے تاکہ کسی غریب چشم و چراغ کا حق نہ مارا جائے۔ خان صاحب کچھ ”احمق نما ملک دشمن“ کہتے ہیں کہ آپ نے توشہ خانہ سے دولت بنائی مگر ان کی پتھر آنکھیں ملک بھر میں پونے چار سال میں بچھے سڑکوں کے جال نہیں دیکھ سکتیں، انہیں ڈگریاں اٹھائے انگریز نظر نہیں آتے جو لاہور کراچی ملتان پنڈی میں قطار در قطار پاکستان میں نوکری حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ آپ کے دور حکومت میں ایک پاکستانی روپیہ 175 ڈالر کے عوض دستیاب ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو تمام بڑے شہروں میں دس ہزار ماہانہ قسط پر ملنے والے پچاس لاکھ گھر دکھائی نہیں دیتے، ان ملک دشمنوں کو کسان کو ملنے والی فری بجلی نظر نہیں آتی، انہیں 60 روپے من آٹا، 140 روپے من چینی دکھائی نہیں پڑتی، یہ نہیں دیکھ سکتے کہ آپ نے تعلیم کا بجٹ 4 %کر دیا تھا، انہیں نظر نہیں آتا کہ کشمیر میں مسلمان کس قدر خوش اور انسانی حقوق کے خلاف بھارتی جرائم سے محفوظ ہیں، یہ موٹر سائیکل سوار کو پٹرول کی خریداری پر ملنے والی رعایت نہیں دیکھ سکتے، ان خدا کے بندوں کو ہسپتالوں میں مفت دوائیں عقل میں نہیں پڑتیں غرض خان صاحب آپ کی ملک دوستی اور ان ظالموں کی عوام دشمنی کے کس کس باب کا ماتم منایا جائے اور کس کس سچ پر سینہ کوبی کی جائے سمجھ نہیں آتی۔ یہ ایسے ملک دشمن، کج فہم، بے عقل ہیں کہ اسلام آباد میں بچھی کشمیر روڈ نہیں دیکھ سکتے جو ایک رات میں ایکسپریس ہائی وے سے ”کشمیر سری نگر“ روڈ میں آپ کے حب وطن کی شدت سے بن گئی، محض اس قدر نہیں بلکہ ملتان کچہری کے سامنے گردش روزگار نے دیکھا کہ آن کی آن میں ”سری نگر مظفر آباد“ روڈ بچھ گئی اور سب ملک دشمن دانت پیستے رہ گئے۔

بس ایک چھوٹی سی گزارش کرنی ہے کہ خان صاحب آپ اپنی جلالی طبعیت میں اس ملک کے بہت سارے کمزور، اوسط طبقے کے ہم ایسے لوگوں کو غدار وطن مت کہا کریں۔ محض اس جرم میں کسی سے نفرت نہ کریں کہ وہ آپ کا علم حکمرانی اٹھانے سے قاصر ہے۔ آپ غصے کی حالت میں ہمارے سپہ سالار اور اس سے بڑھ کر ہمارے فوجی جوانوں کو غدار اور بکاؤ مال قرار نہ دیا کریں کہ نواب سراج الدولہ کی ہزاروں سپاہیوں پر مشتمل فوج کے غالب دستے جاہ و حشمت اور زمین جائیداد کے لالچ میں فروخت ہو گئے تھے جس کی وجہ سے شاطر انگریز کی محض پانچ ہزار فوج سے شکست کھا گئے جبکہ ہمارے جوانوں نے ہمیشہ خود سے بڑی معیشت اور بہت بڑی فوج کے ساتھ ٹکر لی ہے (جیت ہار کا معاملہ مختلف ہے)۔ ہماری فوج کا کوئی دھڑا کسی قیمت پر خریدا نہیں جا سکا۔ ہماری تاریخ کتنے راشد منہاس، عزیز بھٹی، سوار محمد کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ خان صاحب جب آپ غصے میں ہوں یا کسی احساس زیاں کی شدید لپیٹ میں ہوں تو اپنے ہی ملک کے اداروں کو دہشت گرد ساز فیکٹریاں مت قرار دیں۔ اس دنیا میں ملکوں کی حیات کے کچھ قوانین ہیں، کچھ ضابطے ہیں، کچھ اصول ہیں خدارا ان کا پاس رکھیں۔ اگر آپ کا موڈ خراب بھی ہو تو اپنی عدالت عالیہ اور عدالت عظمٰی پر کیچڑ مت اچھالیں۔ حالات جس قدر بھی آپ کی منشا کے برعکس ہوں میرے کپتان خود کو کمزور اور جذبات کے ہاتھوں مغلوب ظاہر نہ کیجیے۔ یقین جانیے اس ملک کا ہر فرد آپ سے فواد چوہدری سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اس ملک کا ہر شہری خواہ وہ جس بھی شعبہ زندگی سے متعلق ہو شہباز گل سے زیادہ آپ کے ساتھ مخلص ہے۔ اس سر زمین کا ہر سپوت بابر اعوان سے بڑھ کر آپ کی خیریت مطلوب رکھتا ہے۔ اس وطن کی ہر بیٹی شیریں مزاری سے زیادہ آپ کا احترام کرتی ہے اور اس ملک کا میٹرک پاس بھی شفقت محمود سے بہتر انتظامی صلاحیت کا حامل ہے۔ آپ اپنے اردگرد موجود لوگوں کی بات سنیں۔ ان سے محبت کریں مگر کسی کمزور لمحے میں اپنی ہی قوم کو دنیا کے سامنے تر نوالہ بنا کر نہ پھینکیں۔ کسی بھی صورت حال میں اپنی ملکی سالمیت پر اپنی خواہش حکمرانی کو غالب نہ آنے دیں کہ خدانخواستہ میجر گورو آریا جیسے تمام دشمن آپ کو اپنا دوست اور اپنے ملک کا وفادار نہ کہنے لگیں۔ ایسے وقت میں گزشتہ تیس سال سے آپ سے محبت کرنے والے اس ملک کے ہر شہری کا سر شرم سے جھک جائے گا۔

خان صاحب، آپ کو بہت سی باتوں پر غور و تدبر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خود کو حکمران ہونے کے تصور سے باہر نکالیں اس خیالی محل کو گرائیں جو آپ نے تعمیر کیا ہوا ہے اور خدا پر بھروسا رکھیں گے۔ گروہ پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی کریں۔ ملک قائم و دائم رہے گا تو آپ بار بار حکومت کریں گے ورنہ بھارت نے آپ کو اپنا وزیر اعظم نہیں بنانا۔ امریکہ آپ کو اپنا ہیرو تسلیم نہیں کرے گا۔ برطانیہ نے آپ کے ساتھ محبت کا والہانہ اظہار نہیں کرنا۔

بس یہ ضرور یاد رکھیے گا کہ جو لوگ آپ کو ووٹ نہیں دیتے وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں۔ یہ ملک ان کا بھی اسی قدر ہے۔ وہ بھی وطن سے محبت کرتے ہیں۔ آپ انہیں غدار کہنے کی بجائے اپنی چار سالہ حکومتی کارکردگی کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لیں آپ کے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ خط ان لاتعداد پاکستانی افراد کی جانب سے ہے۔ یہ آپ کے وہ خیر خواہ پاکستانی ہیں جو آپ کے ووٹر نہیں ہیں مگر آپ کا احترام کرتے ہیں۔ یہ سب کے سب پکے پاکستانی ہیں جو ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی اپنی زمین پر وار سکتے ہیں۔ جن کی اولاد پاکستان میں ہے جن کے گھر چند مرلہ زمین پر مشتمل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments