سود در سود، انٹرسٹ اور یوزری – وفاقی شرعی عدالت کا تازہ ترین فیصلہ – تیسری قسط


تعین کردہ نکتہ نمبر 3 میں وفاقی شرعی عدالت نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ صرف مرکب ربا (بڑھتا اور چڑھتا سود) ہی منع نہیں ہے بلکہ سادہ/عام ربا بھی منع ہے۔ کیونکہ دلائل میں تاثر یہ دیا جا رہا تھا کہ سورۃ آل عمران کی آیت 130 کے مطابق صرف بڑھتا اور چڑھتا سود (الربا اضعافاً مضعفۃ) ہی منع ہے جبکہ جائز اور مناسب سود منع نہیں ہے۔

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے عالم اسلام کے تقریباً 105 سے زائد مفسرین کی مختلف ادوار کی تفاسیر کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ نہ صرف بڑھتا اور چڑھتا سود منع ہے بلکہ سادہ سود بھی منع ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق قرض پر اصل سے زائد رقم، چاہے قلیل ہو یا کثیر، سود ہے اور یہ حرام ہے۔ (سورۃ البقرۃ: 277، 278 )

یعنی اول تو سود مطلقاً حرام و قبیح ہے اور بڑھتا چڑھتا سود تو بہت ہی زیادہ شنیع و قبیح ہے۔ جیسے کوئی یہ کہے کہ میاں مسجد میں گالیاں مت بکو۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسجد سے باہر بکنے کی اجازت ہے (جواہر القرآن) ۔ اسی طرح جیسا کہ قرآن میں فرمایا کہ ”خدا کے لیے متعدد شریک نہ ٹھہراؤ“ ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خدا کے لیے ایک دو شریک ٹھہرانا جائز ہے اور تین چار ناجائز ہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ خدائے برتر کا تو ایک بھی شریک نہیں مگر تم ایسے ظالم ہو کہ تم نے خدا کے لیے بہت سے شریک ٹھہرا رکھے ہیں۔

اسی طرح قرآن میں ہے کہ ”اللہ کی آیات کو کم قیمت پر فروخت نہ کرو“ ۔ (البقرۃ: 41 ) اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ زیادہ قیمت ملے تو جائز ہے۔ اسی طرح فرمایا: ”جو نبیوں کو نا حق قتل کرتے ہیں“ (آل عمران: 21 ) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حق کے ساتھ پیغمبروں کا قتل جائز ہے۔ لہذا سود، کم ہو یا زیادہ، اس کی ہر قسم اور ہر صورت حرام ہے (فیضان الرحمٰن)

تعین کردہ نکتہ نمبر 4 میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے کہ کیا قرض پر سود کی شرح میں تبدیلی سے اسلام میں سود کی حرمت بدل جاتی ہے یا نہیں؟ اور کیا یوزری اور انٹرسٹ میں فرق ہے؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان ممالک میں بینکنگ نظام کے آغاز سے ہی یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ربا کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر جائز قرار دے دیا جائے۔

جیسا کہ یہ کہنا کہ ”بینکنگ انٹرسٹ“ ربا کے معنی میں نہیں آتا۔ اس بات کے جواب میں اصولی بات یہ ہے کہ کسی شے کی حقیقت محض اس کا نام بدلنے سے تبدیل نہیں ہو جایا کرتی۔ اور حدیث کی روشنی میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ کسی چیز کی اگر زیادہ مقدار حرام ہے تو اس چیز کی تھوڑی مقدار بھی اتنی ہی حرام ہوتی ہے۔

”انٹرسٹ“ اور ”یوزری“ کے فرق کو جاننے کے لئے ہمیں یورپی تاریخ (نشاۃ ثانیہ کے بعد ) سے مدد لینا پڑے گی۔ یوزری، عیسائیت میں بھی حرام ہے۔ مقدس بائبل کے 11 کتابوں (کتاب خروج 22 : 25، کتاب احبار 25 : 36، کتاب استثنا 23 : 19 وغیرہ) کی 17 آیات ”یوزری“ کو بڑا گناہ قرار دیتی ہیں۔ لیکن سولہویں صدی کے آغاز سے یوزری کی کچھ شرح کو جائز قرار دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق انگلینڈ میں 1545 میں زیادہ سے زیادہ قانونی ”انٹرسٹ“ کا تعین کیا گیا تھا۔ اور اس قانونی انٹرسٹ سے زیادہ رقم ”یوزری“ سمجھی جاتی تھی۔ بعد میں یہی پریکٹس امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں اپنائی گئی۔

اسرائیل کے قوانین کسی ضرورت مند عبرانی کو اس توقع پر رقم قرض دینے سے منع کرتے ہیں کہ واپسی میں اصل رقم کے ساتھ کچھ اضافی رقم، خوراک یا کوئی اور شے ملے گی۔ لیکن کسی غیر ملکی کو قرض دینے میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کیونکہ وہاں رسک کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اور ویسے بھی تورات میں غیر یہودی کو سود کے ساتھ قرض دینے کی اجازت ہے۔

اسی طرح پاپ لیو دہم نے 1515 میں پہلی بار خیراتی مقاصد کے لئے سود پر قرض دینے کی سرکاری طور پر اجازت دی۔ اس کے بعد بتدریج یورپ کے تجارتی اور معاشی مراکز نے یو زری کو بائی پاس کرنے کے لئے قوانین پر کام شروع کیا اور ایک خاص حد تک یوزری کو قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ”انٹرسٹ“ کا نام دیا اور اس مخصوص حد سے زیادہ کو ”یوزری“ کہا جانے لگا۔ شروع میں یہ قرض افراد یا چھوٹے گروہوں کے درمیان تھا۔ پھر جوں جوں بینکنگ سسٹم مقبول ہوتا گیا تو انٹرسٹ کی شرح پر قوانین سازی ہونا شروع ہو گئی۔

کنگ ہنری ششم کے دور حکومت میں ( 1545 ) ، پارلیمنٹ آف انگلینڈ نے 10 فی صد تک انٹرسٹ کو قانونی قرار دیا اور اس سے اوپر کو ”یوزری“ قرار دیا۔ یہ وہ شروعات تھی جب یوزری کی تھوڑی مقدار کو انٹرسٹ کے نام پر قانونی طور پر جائز قرار دیا گیا۔ اس سے پہلے نیدرلینڈ میں 1540 میں ایک شاہی حکم کے ذریعے تجارتی قرضوں پر 12 فی صد تک انٹرسٹ کی اجازت دی گئی تھی۔ حالانکہ اس سے پہلے یوزری اور انٹرسٹ میں فرق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہی صورتحال مقدس بائبل کے تراجم میں تھی کہ وہاں دونوں الفاظ ایک دوسرے کے متبادل استعمال کیے جاتے تھے۔

اس پوری گفتگو سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ جو کوششیں دنیائے عیسائیت میں سولہویں صدی میں کی گئی وہی کوششیں عالم اسلام میں بیسویں صدی میں کی جا رہی تھیں (مزید تفصیلات اگلی قسط میں تعین کردہ نکتہ نمبر 5 کے تحت آئیں گی) ۔ لہذا ربا اور انٹرسٹ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مقدار یا شرح کے کم یا زیادہ ہونے سے انٹرسٹ یا یوزری حلال نہیں ہو جائے گی۔ حرمت ربا قطعی ہے۔

(جاری ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).