ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی تصنیف: ”مجھے فیمینسٹ نہ کہو“


ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے نام دعا عظیمی کا کھلا خط

مورخہ گیارہ مئی دو ہزار بائیس
از لاہور
پیاری طاہرہ جی
نازاں و خنداں و فرحاں رہیں ہمیشہ
سلام اور دعا!

آپ کیسی ہیں؟ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گی۔ یاد آیا کہ آج اہم تاریخ ہے۔ ایک بڑے اور عظیم ادیب سعادت حسن منٹو کا یوم پیدائش ہے۔ مجھے آپ کو لکھتے ہوئے منٹو کیوں یاد آ گئے۔

بتائیے کہ آپ نے کراچی میں مئی کا جلتا ہوا انگار دن کیسے کاٹا۔ یہاں تو شدید لو ہے. شاید جراح خانوں میں ٹھنڈی مشینوں سے ماحول قابو کر لیا گیا ہو۔

پرائیویٹ کلینکس میں تو جنت نظیر ماحول ہوتا ہے. خیر اور سنائیں، آج کے دن سماج کا کون سا ناسور پھوڑنے کا ارادہ ہے، آج کتنی عورتوں کے زخموں پہ پھاہا رکھا، کتنوں کی بپتا سنی، آپ تو ایسے سنتی ہیں جیسے مذبح خانوں سے ذبح ہونے والوں کی آوازیں کاٹنے والا سنتا ہے۔

آپ نے کتاب کی پی ڈی ایف بھیجی اور ایک جملہ لکھا کہ آپ کو ریویو کا انتظار ہے۔ تو آپ کا حکم سر آنکھوں پہ سنیے ایک کہانی۔

جب دعا دس برس کی تھی تب اس نے پہلی بار بیس روپے جمع کیے تھے اور ان بیس روپوں سے اپنی والدہ کے ساتھ بازار جاتے ہوئے راستے میں ایک بابا جی سے نیلے جلد والی ایک کتاب خریدی تھی جس پر سنہرے حروف سے درج تھا۔

”موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہو گا“

موت کے منظر کو کچی عمر میں پڑھنے سے منع کیا گیا سو ہم نے ابا کی آدھی بات مان لی ہم نے ایک طریقہ نکالا کہ آدھی کتاب پڑھی اور آدھی رہنے دی۔

کتاب چونکہ دو حصوں پر مشتمل تھی ایک میں جنت کا منظر تھا ایک میں دوزخ کے احوال۔ جانے کتاب کے صفحات میں کچھ ایسا تھا کہ اس بچی کو جنت کے حصے سے خوشبو آتی تھی اور جہنم والے حصے سے بو محسوس ہوتی تھی۔ سو خوشبودار صفحات ہم نے پڑھ ڈالے اور جہنم کے احوال پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور بھاگ لیے۔

اور اسی طرح تمام عمر خود کو سینت سینت رکھا۔ جب جب بری یا تکلیف دہ خبر پر نظر پڑی دھیان دوسری طرف لگا لیا یہی سوچ کر کہ۔ ایک ہمارے دکھ محسوس کرنے سے کسی کا تو بھلا نہیں ہونے والا سو آنکھ چرا لو زندگی کے اتنے برسوں بعد مگر جانے تقدیر کو کیا منظور تھا کہ طاہرہ جی نے اپنی کتاب ہمیں پڑھنے کو دے ڈالی۔

اس ہنستی ہوئی طبیبہ کے بارے میں اتنا تو معلوم تھا کہ یہ سماج میں عقل اور شعور کی شمعیں جلاتی ہیں، عورتوں کی طرف دار ہیں مگر یہ علم نہ تھا کہ یہ ہمیں ایک کتاب پڑھنے کو کہیں گی جسے پڑھ کر پل کے پل میں درد کے دوزخ کی ایسی روح فرسا بھٹی میں جھونکیں گی کہ شعلوں سے تن بدن جل اٹھے گا۔ جب میں نے ونی والی آپ بیتی پڑھی ہائے ے ے ے ے اور

علیشا کی شلوار

کلیجہ منہ کو آن رہا راج بی بی کی کہانی دوزخ کے شعلے اتنے بلند کہ اس کا داروغہ مالک بھی تیز تیز استغفار کا ورد کرنے لگا۔

پیدائش سے آٹھ برس پہلے ونی ہونے والی عورت

” اس جہنم میں زندگی گزارتے ہوئے زرسانگا کو ایک بات سمجھ نہیں آتی تھی اور آج تک نہیں آئی کہ غیرت مند مردوں کی نادانیوں کا بدلہ عورت کے جسم کو مضروب کر کے کیوں؟ کیا لذت کشید کرتے ہیں؟ دو مردوں کا ایک دوسرے سے بدلہ کم سن بچی کی صورت میں؟“

افف جلد سے چوٹی اکھیڑ دینے کی داستان اتنی اذیت ناک تھی کہ میری روح معصوم بچی کے درد سے تڑپ اٹھی۔
زہریلے بچھوؤں جیسی حقیقتیں، گنجے سانپ جیسے شیطان صفت کردار، نیلا زہر یہ دوزخ کا ساتواں طبقہ

آج موت کے منظر کا دوسرا حصہ مکمل ہوا۔ جس سے آج تک آنکھیں چراتی رہی۔ یہ اور بات کہ وہ قیاس پہ مبنی کسی ملا کی فرضی یا تحقیقی حکایات تھیں اور یہ سولی پہ چڑھا سماجی سچ کا دوزخ

” مجھے فیمینسٹ نہ کہو“
میوہ خان کی بیوی کا دکھ

راج بی بی کی کہانی
روحیں عورت کے قالب کا لباس پہنتی کیوں ہیں؟

افسوس تو اس حقیقت کا ہے کہ یہ کہانیاں نہیں ہیں۔ زندہ انسانوں پہ بیتی کیفیات ہیں۔ درد کہنے کا ہنر کہاں سے سیکھا؟ ببول کی ٹہنی سے کہ کیکر کے کانٹوں سے۔ سچ خود زہر کا ایک پیالہ ہے۔ بے حس جسے پیتے نہیں تن آسان جسے چھوتے نہیں، مفاد پرست ٹولہ اس سے انکاری ہے۔ مگر آندھیوں میں چراغ جلانے والے اسے ہر دور میں جلاتے رہے گو وہ دیدہ ور ہزاروں برس بعد ہی کیوں نہ جنم لیں۔ آج پھر امرتا یاد آ گئیں جنہوں نے وارث شاہ کو مخاطب کر کے پنجاب کی بیٹیوں کے بین لکھے۔

آکھاں وارث شاہ نوں اج قبراں وچوں بول
شاید یہ وہی تان ہے۔

”مجھے فیمینسٹ نہ کہو“ بات تو کرو اور گالی نہ کھاؤ؟ کیسے ممکن ہے؟ یہ بھی سچ ہے فیمینسٹ چھوٹا لفظ ہے نسائی درد کا دائرہ کہیں زیادہ وسیع ہے۔

اچھا مقدمہ لکھا ہے۔ کہیں گزشتہ ادب پاروں کے اقتباس ہیں تو کہیں سیاسی تاریخ کے حوالے ہیں۔

ان منہ زوروں کے لیے جو کہتے ہیں سب ٹھیک ہے، سب اچھا ہے، اتنی آبادی میں چند ریپ ہوئے کوئی ونی ہوا کوئی بھینٹ چڑھا تو کیا ہم نے تو اپنی عورتوں کو مہارانیاں اور ملکائیں بنا کے رکھا ہے۔ اپنی چار دیواری سے باہر عورت عورت نہیں گوشت ہے، مٹھائی ہے، ٹافی ہے جسے خود کو ڈھانپنا ہے آپ نے گواہ بنائی ہیں مردہ اور زندہ درگور لاشیں اور سانس لیتی لاچار مخلوق قبر میں لیٹی عورت اور معصوم ملازم بچے بچیاں جن سے گھروں میں غیر انسانی سلوک ہوتا ہے۔

یہ سماج کے دیوتا چاہتے ہیں عورت کے چہرے کی طرح اس کے مسائل پر بھی پردہ پڑا رہے پر آپ نے سب پردے ایک ہی نشتر سے چیر کر رکھ دیے۔ سچ لکھنے کی قیمت تو ادا کرنی پڑتی ہے چند کسیلے جملے اور القابات آپ جیسی بہادر عورت کے لیے یہ تو تمغے ہی ہوں گے۔

وہ جو کہتے ہیں نہ جہاد بالقلم وہ کرتی ہیں آپ۔ فکشن نہیں لکھتیں، سچی کہانیاں، جگ بیتیاں اور روح آپ کی حلول کر جاتی ہے کسی مظلوم کے بے کس قالب میں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کچھ نہیں کہتیں یہ تو ایک نالہ ہے، فریاد ہے، چیخ ہے، کراہ ہے، جو کبھی چنگھاڑ بن جاتی ہے اور کبھی سسکی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی آپ کا اسلوب بے ساختہ ہے جیسے دریا اپنی موج میں بہتا ہو۔ مسلسل سادہ دلنشین بے ساختہ فطری بہاؤ لیے۔ شعور کا کرب ہے، ادب کا رچاؤ ہے علم کی دھار ہے۔

آپ بڑے آرام سے کہتی ہیں فرینڈلی ہو جاؤ۔ گردن چھاتی اندام نہانی گالی نہیں ہے۔ وہ جگہ ہے جہاں سے ہر انسان رینگتا ہوا باہر آتا ہے۔ صدیوں کے بنائے تصورات کے بت توڑتی ہیں۔ کہیں نام تبدیل ہونے پر عورت پر بیتی جانے والی بپتا سناتی ہیں تو کہیں عورت کا نام چھپانے پر شرمسار ہیں میرے جیسا بھی تنگ آ کے سوچتا ہے یا خدا اس مخلوق کو ایسا ہی مستور رکھنا مطلوب تھا تو اسے اس دنیا میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔

اے چارہ گر تجھے سلام آپ کا کہنا کہ بے جا شرم و حیا اور عورت کے اعضا سے جڑا تفریح اور جنس سے جڑا خیال دماغ سے نکال دو۔ کتنا اچھا خیال ہے مگر اس سے مردوں کے دماغ سے جنسی کشش کو جو نقصان ہو گا، وہ کہیں گے، اس کا کیا حل اور ہو سکتا ہے۔ خود عورت کو بھی اس کی فکر ہو؟

آپ ایک طرف عورت میں خودداری جگانے کی کوشش کرتی ہیں تو دوسری طرف حضرات کے لتے لیتی ہیں تیسری طرف بڑی عورتوں کو پدر سری سماج کی پہرے دار کہہ کے سچ سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ میں نے سنا تھا گائنی کی ڈاکٹر ہیں۔ آپ تو نفسیات کے سارے اسباق سے اصطلاحات سے واقف ہیں۔

کیسی اچھی ٹرم بتائی پولیانا سنڈروم، positive bias قاری کو ریوڑیوں کی طرح علم بھی بانٹتی جاتی ہیں۔ نور مقدم کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے ہیومن میگنٹ سنڈروم پہ روشنی ڈالی نارسسٹ اور کوڈپینڈنٹ کے رقص کی تفاصیل پڑھتے ہوئے جانے کس کس کو اس میں ناچیز  نے فٹ نہیں کیا۔

ہمیں ارد گرد ایسے کتنے ہی کردار نظر آتے ہیں۔ آپ فرماتی ہیں

”۔ خود پسند نارسسٹ کو بے لوث ڈپینڈنٹ پہ اپنا حکم، اختیار اور رعب داب قائم کرنے میں لطف محسوس ہوتا ہے ویسے تو اپنے پدر سری سماج میں ہر دوسرا جوڑا ایسا ہی نظر آتا ہے۔ پھرself love deficient disorder کس کس کا ذکر کروں۔

کس شفقت سے درد مندی سے نصیحت کرتی ہیں
اکیسویں صدی میں جنم لینے والی لڑکی،

” تمہیں سمجھنا چاہیے تھا کہ ہر کسی کو سب سے پہلے خود سے محبت اور اپنی عزت کرنا سیکھنا چاہیے۔“ کیا مادرانہ شفقت کی کیفیات ہیں۔ کہیں کہیں حس ظرافت کے شگوفے بھی پھوٹتے ہیں۔ ادب لطافت اور ظرافت آپس میں بہنیں ہیں۔

کہتی ہیں عورت محفوظ نہیں قبر میں نہ سڑک پر نہ ہاسٹل میں نہ بھٹے پر، کہتی ہیں پھول کلیاں نہ مسلو، بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر سمجھو صنف کی تلوار ماں کے سر نہ لٹکاؤ، بیٹے کی پیدائش کی بنیاد پر ماں کو معتبر نہ جانو، ماں کو فقط ماں ہونے پر مبارکباد دو کیسے باتیں کرتی ہیں۔ کیچڑ میں کنول کا پھول اگ آیا ہے۔ ہائے ے ے ے ے ے کہتی ہیں جوان ہونے تک مرد اور عورت کی جنس کے تعین کا خانہ بند رکھو تاکہ پہلی روٹی اور اچھی بوٹی کا مسئلہ ختم ہو جائے۔

کیسی ڈاکٹر ہیں مریض کو انسان سمجھتی ہیں، کیسے کیسے مسیحائی کرتی ہیں ابھی تک مشین نہیں بنیں، نہ روبوٹ۔ کیسا بے ساختہ سچ لکھتی ہیں کتنی نڈر ہیں، ڈر چھو کے نہیں گزرا۔ جانے کس کس کے درد کو آپ کی روح سہتی آئی ہے۔

میں کھوجتی ہوں یہ کون ہیں منٹو کے سچ کی پجارن، کشور ناہید کے اسکول سے، قرۃ العین حیدر کی فین، کس گلشن کی خوشبو ہیں ایک بڑے شہر میں بستی ہیں اور کھیتوں دیہاتوں ملک کے چپے چپے میں بسنے والیوں کے درد و غم بے بسی و بے کسی کی آگ میں جلتی ہیں۔ کیا بھید ہے نہ نظر چراتی ہیں نہ شرماتی ہیں نہ جھجھکتی ہیں۔ ڈاکٹر جو ہوئیں، دایہ ہوں یا ڈاکٹر، آپ کے سامنے تو سب کے پیٹ ننگے۔ بڑا جگر ہے کتنے چھید ہیں ابھی تک بے حس کیوں نہیں ہوئی ہیں، اتنے ٹیکے لگاتی ہیں ابھی تک دوسرے کے جسم میں چبھنے والی سوئی کی درد محسوس کرتی ہیں۔

کیا شاندار شخصیت سے تعارف ہوا طبیبہ بھی ہیں، ادیبہ بھی۔ معمار بھی ہیں اور خدائی فوجدار بھی، معاشرے کی آنکھ بھی اور آواز بھی۔ آپ نے اچھی عدالت لگائی۔ ظالم کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ ریتوں رواجوں سماج کی گھسی پٹی اقدار کو ظالم کرداروں کو مخصوص ذہنیت کو خوب لتاڑا۔

دولے شاہ کے چوہوں پر تحقیق کرتے کرتے کہاں سے کہاں لے گئیں مجھ بے بس قاری کو۔ پھر سچے کردار سامنے لے آتیں ہیں۔ ہلکی سی سسکی کی آواز سنائی دیتی ہے پھر لگاتار رونے کی۔ پھر بین کرنے کی کبھی تازیانے لگاتی ہیں کبھی درے تو کبھی نشتر چبھوتی ہیں۔

آپ نے ایک محروم طبقے کے جسم پر لگے سارے نیل چنے۔ سارے درد کہے۔

کیا کہوں ڈاکٹر طاہرہ آپ نے تو سب لکھنے والوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر دیا۔ آپ کی مخلص

دعا عظیمی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments