منٹو سالگرہ مبارک، موت مبارک

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


منٹو کی 43 سال کی عمر میں خون تھوکتا، پاگل خانوں میں آتا جاتا مر گیا۔ آج کہنا تو ہیپی برڈے بنتا ہے لیکن تو خود ہی کہتا تھا اس ذلت کی زندگی سے موت اچھی ہے تو مبارک ہے کہ تو صحیح وقت پر نکل گیا۔

منٹو تو نے جو دیکھا وہ لکھا، جو تو نے لکھا اس نے تجھے زندہ رہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ تو اگر زندہ رہتا تو جو دیکھتا وہ شاید لکھ نہ پاتا۔

تیرے دوست کہتے تھے کہ تو اپنے پیارے ممبئی شہر سے ہندو مسلم فسادات سے ڈر کر لاہور بھاگ گیا کیونکہ کہ تجھے لگا ک تیرا کوئی ہندو یار ہی نہ مار دے۔ اگر آج زندہ ہوتا تو بھاگ بھی نہ پاتا۔

ہندوستان سے تجھے ’دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو‘ کی صدا آتی اور پاکستان آتا تو ’کافر کافر منٹو کافر‘ کے نعرے تیرا استقبال کرتے۔ تو اپنی کہانی ’ٹیٹوال کا کتا‘ کا مرکزی کردار بن کر رہ جاتا۔

تو نے ایک ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ لکھی، ہم نے سارے برصغیر کو ٹوبہ ٹیک سنگھ بنا دیا۔

اکثر لگتا ہے کہ ہم تیری کسی کہانی میں زندہ ہیں۔ شاید ’مشٹیک‘ نامی کہانی میں جس میں ایک چاقو پیٹ کاٹتا ہوا نیفے کی طرف آتا ہے جب آزار بند کٹتا ہے تو قاتل نیچے دیکھ کر تاسف کا اظہار کرتا ہے ’اوہ مشٹیک ہو گئی۔‘

اب ہم اس مشٹیک کو مشٹیک بھی نہیں کہتے، بلکہ سینے پر ہاتھ مار کر کہتے ہیں کہ بار بار کریں گے۔

ٹھنڈا گوشت

تو نے ایسے لکھا جیسے تیرے قلم کو آگ لگی ہو، جیسے کاغذ جل کر راکھ ہونے والے ہوں، تو نے لکھا کہ عورتوں کے قتل کے بعد ان کا ریپ ہو رہا ہے، سرکار نے کہا ٹھنڈا گوشت فحش ہے۔ تو نے لکھا کہ غریب عورتیں دھندا کرنے پر مجبور ہیں، ہم نے کہا منٹو معاشرے میں گند پھیلا رہا ہے۔

انگریز سرکار نے تجھ پر تین کیس بنائے ہم نے آزاری حاصل کی، کروڑ سے زیادہ انسان بے گھر ہوا، 20 لاکھ سے زیادہ لوگ قتل ہوئے لیکن آزادی حاصل کرنے کے بعد ہماری آزاد حکومت نے انگریز سرکار کا مقابلہ کرتے ہوئے تین کیس تجھ پر اور بنا دیے۔

تو قلم کا مزدور تھا، نہ تجھے کوئی اور دھندا کرنا آیا، نہ ہی تو نے اپنے ساتھی لکھاریوں سے پلاٹ، دکان الاٹ کرانے کا ہنر سیکھا۔ تجھے اپنی بچیوں کی دوائی اور اپنی دارو کے لیے بہت کاغذ کالے کرنے پڑے۔

لیکن ہم نے تجھ سے وہ روٹی روزی بھی چھیننے کی کوشش کی۔ تیری طرح تیرا قلم بھی خون تھوکنے لگا۔

امریکی خود چل کر تیرے گھر آئے۔ وہی امریکی جن کی غلامی سے آزاد ہونے کے لیے ہم اب بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ تو نے ان کے ڈالر ان کے منہ پر مارے اور مفت مشورہ دیا کہ یہ لے جا کر مولویوں کو دو، وہ ایک دن تمہارے بہت کام آئیں گے۔ تیرے اس طعنے کو امریکہ نے اپنی فارن پالیسی کا حصہ بنا لیا اور ہم اسے آج تک بھگت رہے ہیں۔

تیرا نام سن کر ہمارے ججوں کے پسینے شاید آج بھی چھوٹ جائیں لیکن وہ پبلیشر جو تجھ سے نظریں چراتے تھے وہ تجھے خوب چھاپتے ہیں، مال بناتے ہیں، ادبی میلوں ٹھیلوں میں تیرا ذکر چلتا ہے لیکن سکولوں اور شریف گھرانوں میں تیرا داخلہ اب بھی بند ہے۔

لیکن تجھے جتنا پیار پڑھنے والوں کی طرف سے اور نسل در نسل ملا ہے وہ برصغیر کے کسی لکھاری کو نہیں ملا۔

سنا ہے تو وصیت کر گیا تھا کہ میرا قبر پہ لکھنا کہ ’یہاں منٹو دفن ہے اور آج بھی سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا کہانی لکھنے والا ہے یا خدا‘ ہم نے تمھارا فرمائشی کتبہ بھی سنسر کر دیا اور اس پر غالب کا ایک مصرعہ لکھ ڈالا کہ نہ کسی کو سمجھ آئے نہ کوئی اعتراض کرے۔

لیکن اب تو اپنے خدا کے پاس ہے، امید ہے اس نے تیری سالگرہ پر ایک آدھ بہشتی پوے کا انتظام کیا ہو گا۔ دل کھول کر پی اور اس سے پوچھ کہ بڑا کہانی لکھنے والا کون ہے۔

اور اگر موقع ملے تو ہماری جاری و ساری مشٹیکوں کی معافی بھی مانگ لینا۔ ہیپی برڈے منٹو۔

اسی بارے میں: منٹو اور چھاتیاں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments