گلگت بلتستان : کالا قانون اور کالے کوٹ کی جدوجہد


گلگت بلتستان کے سینئر قانون دان محمد عیسٰی کے بقول یہ قیام پاکستان سے دس سال قبل کا ذکر ہے جب مارچ 1937 کو گلگت بلتستان کی ایک خوبصورت وادی نوگام استور میں ان کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت بچے بہت کمسنی کی بجائے کافی بڑی عمر میں سکول جاتے تھے۔ انہوں نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی پھر مڈل سب ڈویژن استور سے پاس کیا۔ تب استور میں مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر کی حکومت تھی اور ایف اسی آر نامی کالا قانون یعنی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کا نام و نشان تک نہیں تھا۔

بقول عیسٰی ایڈوکیٹ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ انڈس کے مغرب کی طرف انگریزوں کی حکومت ہے جبکہ دریائے انڈس کے مشرق کی طرف ڈوگروں کی حکومت ہے تب تک اس خطہ بے آئین میں ریاست جموں و کشمیر کے دیگر حصوں کی طرح باقاعدہ مروجہ قوانین مثلاً فوج داری اور دیوانی قوانین موجود تھے۔

مہاراجہ کشمیر کے وہی قوانین بعد میں بھی جاری رہے بلکہ اب تک وہی قوانین ترامیم کے ساتھ لاگو ہیں سوائے سٹیٹ سبجیکٹ رول کے جس کو حکومت پاکستان نے معطل کیا اور ایف سی آر کے کالے قانون کے نفاذ کے ساتھ پنجاب کے سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور کا خالصہ سرکار نامی قانون لاگو کیا جس کا واحد مقصد یہاں کے عوام کو ان کی مشترکہ شاملات دیہہ ارضیات، چراگاہوں، معدنیات اور جنگلات کے حقوق سے محروم کرنا ہے۔

مڈل جماعت پاس کرنے کے بعد جب میں میٹرک کلاس میں پڑھنے گلگت آیا تو تب تک پاکستان وجود میں آیا تھا جبکہ یکم نومبر 1947 کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں گلگت بلتستان سے ڈوگرہ راج کا خاتمہ ہوا تھا پھر حکومت پاکستان نے معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کی انتظامی کنٹرول حاصل کیا اور گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں ایف سی آر نافذ کیا، حالانکہ ڈوگرہ دور حکومت میں ایف سی آر صرف ان علاقوں پر لاگو تھا جن کو انگریزوں نے مہاراجہ ہری سنگھ سے گلگت ایگریمنٹ کے تحت لیز پر حاصل کیا تھا۔

گلگت بلتستان میں ایف سی آر کے کالے قانون کے نفاذ سے قبل یہاں وزیر وزارت ہمراہ ریونیو، فوجداری اور دیوانی عدالتوں میں ججز مقرر تھے۔

برٹش انڈیا نے اس خطے میں روسی پیش قدمی جارحیت اور مداخلت کے خطرے کے پیش نظر سال 1935 میں گلگت لیز ایگریمنٹ کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ سے گلگت ایجنسی 60 سال کے لئے لیز پر لیا اور یہاں اپنی سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ قائم کیا اور باقاعدہ مروجہ قوانین کے ساتھ ساتھ ایف سی آر بھی گلگت ایجنسی میں لاگو کیا جہاں مقامی رواجی قوانین بھی رائج عمل تھے لیکن ان قوانین پر ایف سی آر کا کالا قانون حاوی تھا۔

دوسری طرف معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے تحت گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پاکستانی انتظامیہ نے پورے گلگت بلتستان پر ایف سی آر کا قانون نافذ کیا تھا حالانکہ ڈوگرہ حکومت میں یہاں ایف سی آر صرف ان علاقوں پر لاگو تھا جن کو انگریزوں نے مہاراجہ سے گلگت ایگریمنٹ کے تحت لیز پر حاصل کیا تھا حالانکہ اس سے قبل یہاں وزیر وزارت ہوتا تھا ریونیو، فوجداری اور دیوانی عدالتوں میں ججز مقرر تھے۔

لیکن دوسری طرف حکومت پاکستان نے پورے گلگت بلتستان میں ایف سی آر کے کالا قانون کا نفاذ کر کے گلگت بلتستان کے عوام کو تمام تر بنیادی انسانی جمہوری حقوق سے محروم رکھا۔

بہت ہی معمولی سی باتوں پر بھی ایف سی آر کے حکام مقامی لوگوں کو بغیر ٹرائل کے جیل میں قید کرتے تھے ایک طرف حکومت بغیر معاوضہ کے غریب لوگوں سے جبری طور پر بیگار لیتی تھی تو دوسری طرف راجے، میر اور حکومت عوام سے زمینوں پر مالیہ بھی لیتے تھے اس طرح مہاراجہ کے دور سے بھی بدتر صورتحال پیدا ہوئی۔

راجگی نظام اور ایف سی آر کے خلاف تحریک چلانے کی بنیادی وجہ ظلم و جبر کا نظام تھا۔

ایف سی آر کا یہ نوآبادیاتی کالا قانون 1972 تک جاری رہا اور بلا آخر پاکستانی حکام کو ایف سی آر کا قانون اس وقت ختم کرنا پڑا جب 1971 میں ایف سی آر اور راجگی نظام کے خلاف اور انسانی بنیادی جمہوری حقوق کے لئے گلگت بلتستان میں باقاعدہ تحریک شروع کی گئی۔

اس پس منظر میں 1970 میں تنظیم ملت کی بنیاد رکھی گئی۔

تحریک ملت کی بنیاد مرحوم جوہر علی خان ایڈووکیٹ اور دیگر چند وکلا نے رکھی تھی جن میں محمد عیسٰی ایڈوکیٹ الطاف حسین ایڈوکیٹ، مرحوم سیکرٹری سعید صاحب، شیر ولی ایڈووکیٹ مرحوم و سابق ڈسٹرکٹ جج مصطفی صاحب اور مالک شاہ سابق چیئرمین میونسپل کمیٹی گلگت نے چند دیگر رفقاء کے ساتھ مل کر بنائی تھی۔

ایف سی آر کے نوآبادیاتی نظام کے تحت گلگت بلتستان میں بنیادی انسانی حقوق کا کوئی تصور تک نہیں تھا نہ ہی یہاں کوئی انتخابات ہوتے تھے نہ ہی کوئی اخبار ہوتا تھا گلگت بلتستان درحقیقت ایک بلیک ہول کی مانند تھا۔

جب گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے نوجوان پاکستان کے کسی اخبار میں بیان دیتے تھے تو ان کے خلاف ایف سی آر کے حکام نوٹس لے کر انہیں سزائیں دی جاتی تھی۔

اس طرح کا ایک اہم واقعہ اس وقت پیش آیا جب شیرولی ایڈووکیٹ پونیالی اور فضل الرحمان عالمگیر نے اخبار میں ایک بیان دیا کہ یہاں قحط سالی ہے اور لوگ بھوک سے مرنے کا خطرہ ہے اس خبر پر ایف سی آر کے حکام ناراض ہوئے اور ان کو جیل میں قید کر لیا۔ اس پر عوام نے شدید احتجاج کیا۔

برٹش انڈیا کا یہ نوآبادیاتی قانون 1972 تک گلگت بلتستان میں نافذ رہا اور بلا آخر پاکستانی حکام کو ایف سی آر کا کالا قانون اس وقت ختم کرنا پڑا جب 1971 میں ایف سی آر اور راجگی نظام کے خلاف باقاعدہ تحریک شروع کی گئی۔

تنظیم ملت کا بنیادی منشور 6 نقاط پر مشتمل تھا۔

1۔ گلگت بلتستان بشمول چترال اور شناکی کوہستان کو ملا کر ایک صوبہ بنایا جائے۔

2۔ راجگی اور میری نظام کا خاتمہ کیا جائے جو کہ اس وقت صرف ہنزہ نگر و غذر میں برقرار تھی باقی علاقوں میں نہیں تھی۔

3۔ ایف سی آر کا خاتمہ

4۔ مالیہ و بیگار کا خاتمہ جو کہ پورے گلگت بلتستان میں لاگو تھا راجے اور میر وغیرہ کے علاوہ حکومت بھی مختلف ناموں سے مالیہ لیتی تھی اس کے علاوہ حکومت لوگوں سے بلا معاوضہ بیگار بھی لیتی تھی اور

زمینوں کے رقبہ تعدادی کے حساب سے ٹیکس لیتے تھے۔
واضح رہے عبوری صوبہ کی صورت میں زمینوں پر دوبارہ ٹیکس کا قانون لاگو ہو سکتا ہے۔
5۔ دنیا میں مروجہ جمہوری قوانین کا اطلاق اور محکمۂ جات کے قیام کا مطالبہ
6۔ لوگوں کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنی اسمبلی کے قیام۔

واضع رہے اس سے قبل گلگت بلتستان میں سیاست پر مکمل پابندی تھی نہ ووٹ دینے کا حق تھا نہ ہی منتخب نمائندوں پر مشتمل کوئی اسمبلی تھی۔

گلگت بلتستان کی قومی شناخت کو بالکل مسخ کر دیا گیا تھا یہاں تک گلگت بلتستان کا نام ناردرن ایریاز رکھا گیا تھا۔

تنظیم ملت نے جلسہ جلسوں میں اپنا منشور عوام کو سمجھایا اور عوام کو ایف سی آر اور راجگی نظام کے خلاف متحرک کیا اسی دوران ہائی سکول گلگت کا واقعہ پیش آیا جس نے گلگت کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments