حکایت خود نگراں


حکیم الامت محمد اقبالؔ مختلف تصورات اور نظریات سے گزر کر اس حقیقت کے رازدان بن چکے تھے کہ اسلام ایک عالمگیر قوت ہے جس کا احیا ازبس

ضروری ہے۔ انہوں نے ’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‘ کی زمزمہ سنجی سے امت مسلمہ کا تصور بہت وسیع اور گہرا کیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی انہی کے نظر افروز فلسفے اور حضرت محمد ﷺ سے وفا کے سرمدی نغمے جو زیادہ تر انگریزی اور شاعرانہ زبان میں تھے، انہیں اپنی آسان اور دلکش نثر میں پروتے اور صالحین کی جماعت بھی تیار کرتے جا رہے تھے۔ اچانک 23 دسمبر 1926 کو یہ ہیجان انگیز واقعہ رونما ہوا کہ شدھی تحریک کا بانی سوامی شرما دھاوند رسول اکرم حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی پر عبدالرشید کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اس پر نسل پرست کانگرسی اور غیر کانگرسی مہاسبھا ہندوؤں نے ایک طوفان کھڑا کر دیا اور گاندھی جی نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ اسلام کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے۔ اس طوفان میں ہر لحظہ تندی اور تیزی آتی جا رہی تھی۔

مولانا محمد علی جوہرؔ نے ان بہتان طرازیوں سے پریشان ہو کر جامع مسجد دہلی میں خطبۂ جمعہ دیتے ہوئے بہ چشم نم کہا: ”کاش! کوئی اللہ کا بندہ ان الزامات کے جواب میں اسلام کے صحیح تصور جہاد پر ایک مدلل کتاب لکھے۔“ خطبہ سننے والوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی تھے۔ انہوں نے مسجد کی سیڑھیاں اترتے ہوئے سوچا کیوں نہ میں اللہ کا نام لے کر اپنی سی کوشش کروں۔ تب انہوں نے ’الجہاد فی الاسلام‘ کے عنوان سے روزنامہ ’الجمیعۃ‘ دہلی میں قسط وار مضامین لکھنا شروع کیے جو بعد ازاں کتاب کی صورت میں شائع ہوئے۔

اس وقت ان کی عمر صرف 24 سال تھی۔ انہوں نے حقائق اور دلائل سے یہ ثابت کیا کہ اسلامی جہاد حق اور صداقت کی راہ میں ایک منظم اور مربوط کوشش کا نام ہے جو مظلوموں کا دفاع ہے۔ یہ کوئی زیر زمیں تحریک نہیں، بلکہ یہ جنگ اور امن کا اسلامی قانون ہے۔ مجاہدین قیدیوں کے ساتھ انسانی برتاؤ کرتے ہیں، عورتوں، بچوں اور عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

اس دقیع تصنیف کا مطالعہ کر کے علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ”اسلام کے نظریۂ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم کو اس کے مطالعے کا مشورہ دیتا ہوں۔“ اس کے بعد سید ابوالاعلیٰ مودودی اور علامہ اقبال کے مابین گہرا تعلق پیدا ہوا اور علامہ اقبال نے انہیں پنجاب آنے اور یکسوئی سے جدید فقہ پر کام کرنے کی دعوت دی۔ وہ 18 مارچ 1938 کو حیدرآباد دکن سے ہجرت کر کے دارالسلام پٹھان کوٹ آ گئے اور اگلے ہی ماہ علامہ اقبال دار فنا سے کوچ کر گئے۔ ان کا حجاز سے تعلق جسم اور روح جیسا تھا اور ان کا یہ مصرع ان کے قلبی اضطراب کا آئینہ دار ہے کہ نسیم از حجاز آید کہ نہ آید۔ یہی شیفتگی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو سرور دوعالم ﷺ کی ذات گرامی سے تھی۔

یہ عجب حسن اتفاق ہے کہ اسی سال ضلع گورداسپور کے قصبے سبحان پور کے ایک زمیندار گھرانے میں 1914 میں پیدا ہونے والا لکھ پڑھ کر محمد شریف، نسیم حجازی کے نام سے اپنا پہلا ناول ’داستان مجاہد‘ ضبط تحریر میں لا چکا تھا۔ یہ ناول چھ سال تک شائع نہ ہو سکا کہ پبلشر کے نزدیک ترقی پسند ادب کے دور میں اسلامی ناول کی کوئی گنجائش نہیں تھی، مگر جب وہ شائع ہوا، تو اس کی مانگ پوری کرنا محال ہوتا گیا۔ جناب نسیم حجازی نے ناول لکھنے سے پہلے انگریزی اور اردو ادب کے تمام کلاسیکی ناولوں اور اسلامی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور خون جگر سے بیان و زبان کے خوبصورت سانچے تیار کیے تھے۔

وہ عفوان شباب میں علامہ عنایت اللہ مشرقی سے بہت متاثر تھے جنہوں نے ان کی بہن کی شادی میں بھی شرکت کی تھی۔ وقت کے ساتھ ان کے خیالات میں تبدیلی آتی گئی اور وہ علامہ اقبالؔ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فیوض سے بہرہ ور ہونے لگے۔ مولانا ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ کا اجرا کر چکے تھے جس کے مضامین اس عہد کے مسلم دانش وروں اور سنجیدہ حلقوں میں بڑے ذوق شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ سینکڑوں قارئین کے علاوہ علامہ اقبالؔ، خواجہ ناظم الدین، علامہ علا الدین صدیقی، چودھری محمد علی، مشتاق گورمانی، سردار فاروق لغاری، ڈاکٹر داؤد ہالی پوتا اور نسیم حجازی اس کے مستقل خریدار بن چکے تھے۔

جناب نسیم حجازی کی ذہنی اور فکری نشوونما میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر اور شخصیت نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے قلب و ذہن میں یہ عظیم نصب العین جاگزیں ہو چکا تھا کہ برصغیر میں دو قومی نظریے کی بنیاد ہی پر مسلمان اپنا وجود قائم رکھ سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے نوجوانوں میں عظمت رفتہ کا جذبہ ابھارنا اور ان کے اندر اعلیٰ مقاصد کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کی امنگ پیدا کرنا ضروری تھا۔ وہ 1938 سے انہی اہداف کے لیے مسلسل سرگرم عمل دکھائی دیے اور ادب اور صحافت میں اعلیٰ مقصدیت کے حیران کن تجربے کرتے اور بے جان تاریخ کو زندہ رہنے والے فن میں ڈھالتے رہے۔

ان کا تمام تر سفر پاکستان کے قیام، اسلامی ریاست کی تشکیل، اسلامی اور جمہوری قدروں کے فروغ اور شوکت رفتہ کی بازیابی کے لیے تھا۔ وہ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ناول نویس اور سب سے زیادہ با اثر صحافی اور عملی سیاست کے عمدہ رمز شناس تھے۔ میرا ان سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب ہمارا خاندان نومبر 1947 میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آیا۔ ان دنوں جناب نسیم حجازی کا سحرانگیز ناول ’محمد بن قاسم‘ مارکیٹ میں آ چکا تھا۔ میرے بہنوئی جناب ضیاء الرحمٰن عشاء کی نماز کے بعد یہ ناول بآواز بلند پڑھتے اور خاندان کے تمام افراد بڑے انہماک سے سنتے۔ اس ناول نے ہمارے دل وطن کی محبت سے سرشار کر دیے تھے اور کچھ کر گزر جانے کا جذبہ انگڑائیاں لینے لگا تھا۔

ان کے حیات افروز پندرہ ناول اور طنزومزاح سے مرصع کتابیں آج بھی نوجوانوں کے جذبوں اور صلاحیتوں کو ایک واضح سمت دے سکتی اور حکمرانوں کو صراط مستقیم دکھا سکتی ہیں۔ ان کی عظمت سے انکار کرنے والے خرافات میں گم ہو گئے ہیں جبکہ نسیم حجازی کئی نسلوں کے دلوں اور ذہنوں میں زندہ و تابندہ ہیں۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments