انتخابات کی طرف جانا پڑے گا


تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کی کوشش کرنا بلا شبہ اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کا جمہوری حق تھا اور آئین پاکستان کے مطابق اس کا طریقہ تحریک عدم اعتماد ہی تھا۔ ان سطور میں لیکن تحریک عدم اعتماد سے قبل اس نا چیز نے ایک سے زائد بار موجودہ حالات میں تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کے بارے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس کالم کے ذریعے بارہا یہ دہائی دیتا رہا کہ عمران حکومت کو رخصت کرنے کے بعد جو بھی فارمولا بنا اس سے ملکی مسائل فوراً حل ہوں گے نہ ہی پلک جھپکتے عوامی مشکلات میں کمی آئے گی۔

کیونکہ جو بھی سیٹ اپ قائم ہوا، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اسے ہر صورت مکمل کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی حکومت آ جائے زمینی حقیقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کی خواہشات سے روگردانی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ مثال بھی کئی بار دہرائی کہ منصب سنبھالتے ہی موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو تنقید کا نشانہ بنا کر اسے سالانہ قومی بجٹ کا حصہ نہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں مگر شوکت ترین کو ناک سے لکیریں لگا کر نہ صرف منی بجٹ لانا پڑا بلکہ ٹیکسوں کی چھوٹ بھی ختم کرنی پڑی۔

نون لیگ کے چند اہم رہنماؤں تک بھی اپنے تحفظات پہنچائے کہ موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں کسی بھی جماعت کے مقابلے میں نون لیگ کے مفاد میں یہ صورتحال سب سے نقصان دہ ہوگی۔ کیونکہ تحریک انصاف اپنی ناکامی عوام کے ذہنوں سے محو کرنے اور خود کو سیاسی شہید کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتیں اقتدار کے فوائد سے بہرہ مند ہوتی رہیں گی مگر حکومتی اتحاد کی سربراہی سنبھال کر بدنامی صرف نون لیگ کے حصے میں آئی گی۔

اس عرصے کے دوران نون لیگ کے جس رہنما سے بات ہوئی ہر کسی کے سامنے یہ خدشات رکھے کہ کوئی سہارا ملنے سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور شہباز شریف وزیراعظم بن بھی گئے تو ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تباہ ہو جائے گا۔ صرف عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس سے نکالنے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور تحریک انصاف عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلنے کے بعد بننے والی حکومت کو آسانی سے چلنے نہیں دے گی۔

ن لیگ اور اس وقت کی دیگر اپوزیشن جماعتوں کو مگر تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں سے بیدخل کرنے کی پتہ نہیں کیا جلدی تھی؟ پچھلے ساڑھے تین سال میں معاشی بدحالی، مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس پس کر عوام بدحال ہو چکے تھے۔ چند ماہ مزید اسی طرح گزرتے تو جس خوشحال طبقے کے دل میں عمران خان کی محبت برقرار تھی اس کی بھی توبہ ہو جاتی۔ آئی ایم ایف تحریک انصاف کی حکومت کے سر پر ڈنڈا لیے کھڑا تھا، دوست ممالک بھی تحریک انصاف کی قیادت کی بے مروتی اور بد اخلاقی پر مبنی رویے سے خائف ہو کر پاکستان کی مزید مدد سے انکاری ہو چکے تھے۔

موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں بالخصوص نون لیگ کے ذہن پر پھر بھی نجانے کیوں یہ خوف طاری تھا کہ اگر عمران خان کی حکومت رواں سال نومبر تک کا عرصہ نکال گئی تو وہ ایک اہم عہدے پر اپنی من پسند شخصیت لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس خوف کو جواز بنا کر یہ طے کر لیا گیا تھا کہ یہ تقرری ہو گئی تو اگلے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کی جیت پکی ہوگی اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف مقدمات قائم کر کے ان کا سیاسی مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک کر دیا جائے گا۔ حالانکہ نون لیگ اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں اگر اقتدار حاصل کرنے میں اتنی بے صبری کا مظاہرہ نہ کرتیں، تو دیوالیہ پن کے کنارے پر کھڑی معیشت میں کسی ریاستی ادارہ کے لیے دوبارہ تحریک انصاف کی سرپرستی کا تصور ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔

ہمارے تمام خدشات اب درست ثابت ہو رہے ہیں اور خبریں آ رہی ہیں کہ نون لیگ کے اندر بھی یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے اور خود شہباز شریف کی باتوں سے لگتا ہے کہ اس موقع پر تحریک انصاف کی حکومت گھر بھیج کر حکومت سنبھالنا ان کی بہت بڑی سیاسی غلطی تھی۔ عمران خان بدترین کارکردگی کے باوجود اس وقت دوبارہ سے عوامی مقبولیت کے عروج پہ ہیں۔ لوگ مہنگائی اور بے روزگاری بھول کر ان کے سازشی پراپیگنڈے کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں۔

یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اقتدار سے فراغت کے بعد خان صاحب کا عوام میں نکلنا مشکل ہو گا۔ تحریک انصاف کے پراپیگنڈے کی صلاحیت کو بھی مگر داد دیں کہ ساڑھے تین برس کی حکومت کی بدترین کارکردگی عوام فراموش کر چکے ہیں اور عمران خان کے جلسوں میں لوگوں کی شرکت اور جوش و خروش پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ عمران خان کا کرپشن مخالف بیانیہ بھی خوب بکا تھا اور اب امریکہ مخالف سازشی بیانیہ بھی بہت اثر انگیز ہے۔ حکومت خواہ اب کتنی بھی کوشش کر لے کہ سیاسی بحث کارکردگی کے میدان تک محدود رہے مگر عمران خان نے بڑی کامیابی سے مفروضہ بیرونی سازش یا مداخلت کو سیاسی بحث کا مرکز موضوع بنا دیا ہے۔

اس بیانیے کو عمران خان کے حامی دل و جان سے قبول کر کے سڑکوں پر آ چکے ہیں۔ پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ شہباز شریف صاحب کے لیے اصل چیلنج معیشت کی بحالی ہو گا۔ معیشت کو بھنور سے نکالنے کے لیے مگر فوری نوعیت کے غیر مقبول فیصلوں کی ضرورت تھی اور شہباز شریف شاید تحریک انصاف کے ممکنہ دباؤ کے خوف کی وجہ سے کوئی بڑا فیصلہ لینے میں اب تک ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

اس وقت حکومت کو جس قدر خسارے کا سامنا ہے زیادہ دیر تک پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کی مد میں سبسڈیز جاری نہیں رہ سکتیں۔ موجودہ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ یہ سبسڈیز حکومت ختم کر رہی ہے لیکن اب تک وہ اپنی یقین دہانی کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔ حکومت اگر اسی طرح گومگو کا شکار رہی تو آئی ایم ایف کا پروگرام تعطل کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ رواں مالی سال میں ریکارڈ چالیس ارب ارب ڈالرز کے قریب تجارتی خسارہ ہونے جا رہا ہے آئی ایم ایف کا پروگرام اگر تعطل کا شکار ہوا تو ایک ڈیڑھ ماہ میں خدانخواستہ ملک بیرونی ادائیگیوں میں ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔

اگرچہ قانونی طور پر حکومت کو موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے تک اقتدار میں رہنے کا حق حاصل ہے لیکن شہباز شریف صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت ملک جن مسائل کا شکار ہے ان کی مخلوط اور کمزور حکومت ان سے نمٹ نہیں سکتی۔ حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کا مفاد اس میں ہے کہ جلد از جلد اہم اور ضروری قانون سازی مکمل کر کے نئے انتخابات کا اعلان کر دیں۔ حکومتی اتحاد کو لیکن یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ان کی پھسپھسی تقریریں عمران خان کے پراپیگنڈے کے مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ لہذا نئے انتخابات سے قبل ضروری ہے سپریم کورٹ کے ذریعے کھلی سماعت میں امریکی سازش یا مداخلت کی تحقیقات کرائی جائے تاکہ تحریک انصاف دوبارہ کسی مفروضے کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments