روہی اور چولستان کی فریاد: اللہ کے واسطے پانی دو


گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک دوست نے ویڈیو شیئر کی ہوئی تھی جس میں درجنوں بزرگ زمیندار دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے بس یہ التجا کر رہے تھے کہ ”اللہ واسطے پانی ڈیو“ اللہ نبی ﷺ کے واسطے پانی ڈیو ”سرائیکی زبان میں روتے بلکتے یہ بزرگ افراد محکمہ انہار اور ضلعی انتظامیہ بہاولپور کے دفاتر کے سامنے جمع تھے۔ روہی اور چولستان کے رہائشی ان افراد کی گریہ و زاری کی ویڈیو دیکھ کر اس ویڈیو اور اس مسئلے کے حوالے سے مزید تفصیلات دیکھنے کے لئے مختلف نیوز چینلز کی ویب سائٹس اور ٹویٹر اکاؤنٹس کھولے۔ تاکہ مجھے اس مسئلے کے حوالے سے معلومات حاصل ہوں اور پھر کالم لکھ سکوں یا پھر سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کو شیئر کر سکوں۔

سب سے پہلے ایک بڑے نیوز چینل کی ویب سائیٹ پر گیا تو اس کی سرفہرست خبر یہ تھی کہ دانیہ نے عامر لیاقت کے خلاف کیس کرنے کے بعد اپنی ٹویٹر بائیو تبدیل کردی۔ دوسرے نیوز چینلز کی خبریں بھی بھارتی وزیر کی بہو کی خودکشی، بہروز سبزواری کے بیٹے کے عمران خان کے حوالے سے بیان سمیت ایسے ہی فضولیات پر مبنی تھیں۔ ان حالات کو کوستے ہوئے وٹس ایپ گروپ میں مزید ویڈیوز بھی موصول ہو گئیں جس میں چولستان کے شہری پیاس کے ہاتھوں مری ہوئی بھیڑ بکریوں کے پاس اداس بیٹھے تھے۔ ہمارے نیوز چینلز کی ترجیحات اور بے حسی کے قصے تو ویسے عام ہیں مگر جنوبی پنجاب یعنی کہ وسیب کو لے کر یہ بے حس رویہ اور خاموشی کی تو بات ہی الگ ہے۔ نیوز چینلز، سوشل میڈیا کو دیکھتے تو ایسا لگتا ہے کہ پنجاب میں بس آبادی تو بستی ہی وسطی اور شمالی پنجاب میں ہے۔

جنوب والوں کے ساتھ بیوروکریسی کا رویہ تو شروع سے ہی بے مثل ہے۔ عید پر بھائی کے گھر گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ وہ دو سال سے شناختی کارڈ سے محروم ہیں۔ کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اب وہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے جتوئی سے راجن پور (جام پور) منتقل ہوچکے ہیں تو مستقل پتہ بھی جام پور کا ہو جائے۔ اب پاکستان میں رہنا جہاں مشکل ہے وہاں اپنی شناخت یعنی کہ شناختی کارڈ کا حصول کہاں آسان ہو گا؟ والد کا شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے بچے بھی ب فارم سے محروم ہیں۔ اب پتہ تبدیل کرنے کے لئے بیوروکریسی بشمول نادرا اور محکمہ ریونیو نے انہیں جو چکر دیے اس کے بعد وہ حوصلہ ہار کر بیٹھ چکے ہیں۔ جہاں شناختی کارڈ کا حصول رشوت دے کر بھی اتنا مشکل ہے وہاں باقی سہولیات کا کیا حال ہو گا، قارئین خود بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں۔

بیوروکریسی سے بھی بڑے مجرم تو یہاں کے عوامی نمائندے ہیں جو ستو پی کر اپنے ائر کنڈیشنڈ گھروں میں سوئے رہتے ہیں، یا پھر لاہور، اسلام آباد کے پوش علاقوں میں موجود اپنی کوٹھیوں اور بنگلوں میں زندگی گزار لیتے ہیں۔ چولستان، روہی اور ڈیرہ غازی خان ریجن کے سینکڑوں دیہات، قصبے، صحرا اس وقت بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ جہاں گندم کی فی ایکٹر اوسط 50 سے ساٹھ من تھی۔ اب وہاں یہ اوسط 15 سے 25 من تک رہ گئی ہے، اس کی وجہ پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی ہے۔ سب سے افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ دریائے سندھ کے دہانے پر موجود آبادیوں کو ڈیزل انجن کے ذریعے اپنی فصلوں کو سیراب کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہاں دریا تو موجود ہے مگر یہ سیراب کرنے کے لئے سیلاب کے ذریعے فصلوں کو تباہ کرنے کے لئے ہے۔

جب جب ملک میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں تو دریائے سندھ میں آنے والی طغیانی کا بھی جنوبی پنجاب ہی نشانہ بنتا ہے۔ گلیشیرز پگھلیں تو بھی سیلاب جنوبی پنجاب کا مقدر ہوتا ہے، خشک سالی میں بھی یہ علاقہ تباہ ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس علاقے کو اپنے ہی منتخب نمائندوں، میڈیا ہاؤسز اور حکومت کی جانب سے کیڑے مکوڑوں کی طرح گردانا جاتا ہے تو ان پر بیتنے والی قیامت سے بھی باقی ملک بے خبر رہتا ہے۔ ہمارے ہاں جانور اور انسان ایک ہی جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں مگر حکومتیں لاہور میں فلٹریشن پلانٹس لگانے میں مصروف رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں زہریلا پانی پینے سے کینسر اور یرقان آگ کی طرح پھیلا ہوا ہے مگر حکومتیں لیپ ٹاپ بانٹنے اور میٹرو بنانے میں مصروف رہتی ہیں۔

یہاں لوگوں کو پانی تو نہیں ملتا مگر مرنے کے لئے کالا پتھر آسانی سے دستیاب ہے، یہاں اسلحہ اور منشیات تو عام ہے مگر نہیں ملتا تو دو وقت کا باعزت کھانا۔ خیر چھوڑیں ہمارے مسائل نہ تو چینلز کی ریٹنگ لاتے ہیں، نہ ہی اتنا مصالحے دار ہوتے ہیں کہ آج کل کی عوام کو پسند آئیں۔ ہمارے رونے، ہماری تباہی تو شاید مورخ کی بھی دلچسپی کا باعث نہیں ہے ورنہ 75 سال سے ہمارے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانی ہی قصے کی صورت میں سنائی جا سکتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments