مسلمانوں میں سائنسی رویے کی کمی اور امام غزالی کا کردار


امریکہ کے ایک مشہور سائنسی تاریخ دان جارج سارٹن کے مطابق بارہویں صدی تک ہر بڑا سائنسدان اسلامی دنیا سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر وہ چاہے بو علی سینا ہو یا پھر زکریا الرازی۔ تاریخ کو ایک نیا زاویہ دینے والا طبری ہو یا پھر ابن خلدون۔ گویا ہر میدان میں مسلمان اپنا نام پیدا کر رہے تھے۔ پھر اچانک مسلمانوں کے سائنسی رویے بتدریج کم ہوتے گئے۔ مسلمانوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ جب منگولوں نے سقوط بغداد کیا تب ہمارے علمی خزانے دریا برد کر دیے گئے۔ مطلب یہ کہ اپنا کوئی قصور نہیں بلکہ منگولوں کے ظلم پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں۔ لیکن تاریخ کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جسے ہم زیر بحث لانے سے کتراتے ہیں۔

اسلامی دنیا کا سب سے پہلا سائنسدان خالد بن یزید تھا۔ جس نے یونانی فلسفہ کو سائنس کی شکل دی اور اسی طرح دوسرے بہت سے مسلمان سائنسدان یونانی فلسفہ سے مستفید ہو رہے تھے اور اپنے تجربات سے نئی تھیوریاں پیش کر رہے تھے۔ اسی دوران مسلمانوں میں ایک فرقہ معتزلہ وجود میں آیا۔ معتزلہ نے دین کی فہم کو عقل کی بنیاد پر پرکھنا شروع کیا۔ ان لوگوں نے اللہ کے وجود، صفات اور قرآن مخلوق ہے یا کلام اس قسم کے موضوعات پر بحث کا آغاز کیا اور ان تمام بحثوں کا پس منظر یونانی فلسفہ ہی تھا۔

ایسے موقع پر امام غزالی جیسی قد آور شخصیت سامنے آئی۔ ان کا بنیادی کام معتزلہ اور یونانی فلسفے کو تنقیدی نقطہ نظر سے پرکھنا تھا۔ علامہ اقبال نے اپنی ایک کتاب اسلامی فکر کی نئی تشکیل میں لکھا کہ کہ چونکہ غزالی کا فلسفہ ابن رشد کے عقلی فلسفے پر غالب آ گیا تھا اس لیے مسلمانوں نے غزالی کو اور یورپ نے ابن رشد کو اپنا مرشد بنا لیا۔ امام غزالی کے ابتدائی رویہ کے نتیجے میں سائنسی علوم ترقی پا سکتے تھے مگر وہ یونانی فلسفہ پر تنقید کے حوالے سے اتنا آگے تک چلے گئے کہ ان کی تنقید میں بعض پہلو بعد کے فلسفیوں کے لیے مضحکہ خیز ثابت ہوئے۔

یونانی فلسفہ پر تنقید بلاشبہ گرانقدر تھی مگر علت اور معلول کے آپس کے تعلق میں غزالی جس حد تک گئے وہ علوم فطرت کی آزادانہ کھوج پر منفی طور پر اثر انداز ہوئے اور یوں تحقیق و جستجو کو دینی اعتبار سے اپنا مقام حاصل نہ ہوسکا۔ اپنی کتاب تھافت الفلاسفہ کے ذریعے غزالی حجتہ الاسلام تو بن کے سامنے آئے مگر اس سے مسلم ذہن کبھی بھی جانبر نہ ہو سکا۔ ایسا نہیں تھا کہ غزالی کے اس کام پر تنقید نہ ہوئی ہو۔ غزالی کے ہی ہم عصر ابن رشد کو یونانی فلسفہ اور دینی علوم میں میں برابر کی اہمیت حاصل تھی مگر ان کا فلسفہ عوامی قبولیت حاصل نہ کر سکا۔ شروع میں دینی اور دنیاوی علوم کی کوئی خاص حد بندی نہیں تھی مگر غزالی کے بعد اس فلسفے کو دینی اور دنیاوی اعتبار سے پڑھا جانے لگا۔

غزالی اپنے اس کام سے فارغ ہوا تو تصوف کے میدان میں آیا۔ رسول کریم نے تو عبادت کے لیے پانچ نمازیں فرض قرار دی تھیں اور خلفائے راشدین بھی انہی اصولوں پر گامزن تھے جو رسول اللہ نے بتائے تھے البتہ بعد میں مختلف تہذیبوں کے اشتراک سے ایرانی اور ہندوستانی سوچ بھی شامل ہونے لگی۔ تصوف پر ابتدائی کام غزالی ہی کا تھا۔ بارہویں صدی کے آتے آتے غزالی ایک فلسفی صوفی مفکر کی صورت میں سامنے آئے۔ جنہوں نے دینیاتی تصورات اور فلسفیانہ و سائنسی رخ کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

تصوف کو علمی سطح پر لا کر غزالی نے اسے اس قابل بنا دیا کہ مسلمانوں کی تخلیقی سوچ کا اظہار اب صوفیانہ شاعری اور صوفیانہ عقائد کے ذریعے سے سے ہونے لگا۔ نہ صرف یہ بلکہ صوفیوں نے طبیبوں کا کردار بھی ادا کرنا شروع کر دیا۔ روحانیت اور علاج ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ تعویز گنڈے عام ہوتے گئے۔ سلطنت عثمانیہ میں صنعت و حرفت سے منسلک انجمنوں کے قیام میں صوفیا کا کردار ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ اسی طرح صفوی سلطنت میں بھی آئمہ اہل بیت کی تعظیم کرنا سب سے افضل مانا گیا اور برصغیر میں بھی صوفیوں کو ایک خاص مقام عطا کیا گیا۔

غزالی کی شہرہ آفاق تصانیف احیا العلوم اور کیمیائے سعادت نے تصوف کے فلسفے کا آغاز کیا اور پھر پانچ نمازوں کے علاوہ اور بھی عبادات شامل ہوتی گئیں جیسا کہ مراقبہ اور چلہ وغیرہ۔ خانقاہیں بننے لگیں اور تعلیمات کی بجائے شخصیت پرستی عام ہونے لگی۔ عقل سے ماورا کرامات تحریر میں آنے لگیں۔ ابتدا میں تو جنید بغدادی اور رابعہ بصری جیسے فقیہ قسم کے لوگ سامنے آئے جنہوں نے خالص توحیدی نقطہ نظر سے تصوف کو اپنایا مگر بعد میں کچھ ایسے نظریات اور رسوم سامنے آئیں کہ جن کا اسلام کے ابتدائی دور سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مثال کے طور پر ابن العربی کا وحدت الوجود، علاوالدین صمصانی کا وحدت الشہود اور منصور حلاج کے حلول جیسے تصورات سامنے آئے جبکہ مولانا رومی نے ایک خاص قسم کا رقص اور نظام الدین اولیا نے محفل سماع کا آغاز کروایا۔

مغرب میں قدیم نظام کو علم نے شکست دی تھی جبکہ مشرق میں علم کو علم سے شکست ہونے لگی۔ اس تناظر میں مسلمانوں کی عقلی سوچ پر قفل لگتے چلے گئے اور مسلمان سائنسی رویوں میں کہیں گم ہو کر رہ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments