کیا حکومت کی موجودہ تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت تھی


پاکستان اور انڈیا ایک ہی دن آزاد ہوئے تھے۔ انڈیا میں پہلا جنرل الیکشن 1951 میں کرایا گیا جبکہ پاکستان میں پہلا جنرل الیکشن دسمبر 1970 میں ہوا۔ یعنی پاکستان کے وجود میں آنے کے پہلے چوبیس سال تک جنرلز نے جنرل الیکشن ہونے ہی نہ دیا۔ اس لیے ہم پاکستانی عوام الیکشن اور ووٹ کی عزت سے ناواقف ہی رہے۔

اور پھر 1970 میں جب الیکشن ہوا بھی تو اسے قبول ہی نہ کیا گیا۔ ووٹ سے واقفیت ہی نہ تھی تو اسے عزت کیسے دیتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ یہ واضح کرتا چلوں کہ الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا تو اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا ورنہ جرنیلوں اور سیاست دانوں کی سیاسی غلطیوں سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان حالات تو پہلے ہی بہت خراب ہو چکے تھے۔

اب کیا تھا، ملک ٹوٹ چکا تھا۔ ہم جنگ ہار چکے تھے۔ انڈیا کے پاس ہمارے نوے ہزار جنگی قیدی تھے۔ فوج کا مورال بری حالت میں تھا۔ انہیں سولین کی سپورٹ کی بہت ضرورت تھی۔ بھٹو صاحب کو دعوت دی گئی۔ انہیں فوج کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی تھا۔ بھٹو صاحب آ گئے۔ وہ ایک باصلاحیت سیاستدان تھے۔ وہ پاکستان کو دوبارہ ایک باوقار ملک بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ فوج کا حوصلہ بھی بلند ہوا۔

بھٹو صاحب نے قوم کو ایک مرتبہ پھر یکجا کر دیا۔ قومی اسمبلی نے 1973 کا آئین متفقہ طور پر منظور کیا۔ فوج کو اقتدار سے باہر رکھنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی۔ آئین کا آرٹیکل چھ یہ امید دلاتا تھا کہ اب طالع آزما جنرلز مہم جوئی سے باز رہیں گے۔ بھٹو صاحب نے ووٹ کو عزت دلانے کی کوشش تو خوب کی لیکن ایک مرتبہ پھر ڈاکا پڑ گیا۔

سن 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کے الزام لگے۔ اپوزیشن نے ایک تحریک چلائی جو کہ کسی بھی جمہوری ملک میں روٹین کا معاملہ ہونا چاہیے تھا لیکن جنرل ضیا الحق جیسے مکار شخص کے لیے یہ بہانہ کافی تھا۔ اس نے شب خون مارا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بھٹو صاحب نے ووٹ کو عزت دلانے کی جدوجہد میں شہادت پائی۔ اگلے گیارہ سال جنرل ضیا الحق کی ڈکٹیٹرشپ کی نذر ہو گئے۔

اس مارشل لاء نے پاکستان کو ہر حوالے سے بہت نقصان پہنچایا۔ بدترین پہلوؤں میں سے ایک یہ تھا کہ بہت لوگ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل سے مایوس ہو گئے۔ مارشل لاء نے اوسط سے کم درجے کے سیاست دانوں کو پروموٹ کیا تاکہ لوگوں کے سامنے سولین چہرہ بھی رہے اور قابل سیاست دانوں کا راستہ بھی روکا جا سکے۔ مرد مومن مرد حق 1988 میں جہاز کے حادثے میں کام آیا تو اس وقت ایک اور مارشل لاء کی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔ فوج کو ایک مرتبہ پھر سنبھلنے کے لیے وقت درکار تھا۔ دوسری جانب بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنا بھی ممکن نہ تھا۔ پیپلز پارٹی کو چانس دینا پڑا۔

لیکن اب فوج نے نیا گر سیکھ لیا۔ سن 1988 سے 1999 تک چار سولین حکومتیں آئیں۔ الیکشن تو ہوئے لیکن ووٹ کو عزت نہ مل سکی۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے پری۔الیکشن گٹھ جوڑ، ہیرا پھیری اور اتنی دھاندلی کرتی کہ الیکشن محض سلیکشن بن کر رہ گئے۔

اس دوران میں بے نظیر اور نواز شریف نے بہت سیکھا۔ نواز شریف نے ہمت کر کے اسمبلی اور حکومت کے سر پر لٹکتی تلوار یعنی آٹھویں ترمیم کو اڑا دیا اور فوج کے اثر سے نکل کر با اختیار ہونا چاہا۔ لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ جنرل مشرف نے شب خوں مارا اور ایک مرتبہ پھر مارشل لاء لگا دیا گیا۔ مارشل لاء کے زیرسایہ الیکشن تو ہوئے لیکن ووٹ بہرحال عزت حاصل نہ کر سکا۔

اس دوران میں بے نظیر اور نواز شریف میچور ہوتے گئے۔ اتنے میچور کہ اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر وہ ایک دوسرے کے قابل اعتماد دوست بن گئے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کر ڈالا۔ بہت قریب تھا کہ عوامی ووٹ کو عزت ملتی کہ بے نظیر کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد نواز شریف اکیلا رہ گیا لیکن جمہوریت کے لیے تعاون جاری رکھا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی مدت پوری کر گئی لیکن اداروں کی جانب سے تھریٹ بہت رہا۔

اگلے الیکشن وقت پر ہوئے۔ نواز شریف نے الیکشن جیت کر حکومت بنائی اور اداروں کے اثر کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔ نواز شریف نے ایک جینوئن کوشش کی کہ سول حکومت فوج کے اثر سے آزاد خارجہ اور دفاعی پالیسی بنا سکے۔ افغانستان میں بے جا مداخلت ختم کرنا اور انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات اہم موضوعات تھے۔ عین ممکن تھا کہ نواز شریف کامیاب ہو جاتے، ہائبرڈ سسٹم کا خاتمہ ہو جاتا اور سولین حکومت با اختیار ہو جاتی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا۔ نواز شریف کا راستہ روکنے کے لیے ایک کٹھ پتلی کی ضرورت تھی۔ اب کی بار یہ کام ایک نادان سیاست دان عمران خان نے کیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہو گئے۔

عمران خان اور مولانا طاہر القادری کے دھرنوں کے ذریعے نواز شریف کی حکومت پر پریشر رکھا گیا۔ اعلی عدلیہ نے ہمیشہ کی طرح اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا اور عوام کو دھوکہ دیا۔ سولین حکومت کو با اختیار بنانے کی کوشش میں نواز شریف کو اپنی وزارت عظمی کی قربانی دینا پڑی۔ نواز شریف کو سزا کرپشن کی نہیں بلکہ حکم عدولی یا بغاوت کی ملی۔ یاد رہے کہ ہمارے ہاں سویلین حکومت کو با اختیار بنانے کی کوشش بغاوت (بلکہ غداری) کے زمرے میں آتا ہے۔ کرپشن کا الزام تو جج، جرنیل، ملا اور سیاست دان سبھی پر تھا لیکن سزا صرف نواز شریف کو ملی۔ پانامہ لیکس میں سینکڑوں پاکستانیوں کے نام تھے لیکن مقدمہ صرف نواز شریف پر ہی چلایا گیا۔ عوامی ووٹ کو ایک مرتبہ پھر عزت کا مقام نہ مل سکا۔

لیکن نواز شریف اب بہت میچور ہو چکے تھے۔ انہوں نے ”ووٹ کو عزت دو“ کی جدوجہد جاری رکھی۔ انہوں نے تمام سیاست دانوں کو دعوت دی کہ اکٹھے ہوں اور اسٹیبلشمنٹ پر انحصار ختم کریں۔ ایک دوسرے کی مدد سے سول حکومت کو با اختیار بنائیں۔

نواز شریف کا بیانیہ کامیاب جا رہا تھا۔ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کی سانجھی حکومت انتہائی ناکامی کا شکار تھی۔ ایک پیج پر ہونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کا امیج بھی بہت خراب ہو چکا تھا۔ عوام پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی ملک کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو ایک دفعہ پھر سولین چہرے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اپنے ناکام مہرے عمران خان کو ایک نئے مہرے سے بدل سکیں۔ اسٹیبلشمنٹ پر اس کڑے وقت میں شہباز شریف اور آصف زرداری نے اپنی خدمات پیش کیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت اور موجودہ کولیشن گورنمنٹ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اصل اختیار اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی ہے۔ غلط دفاعی اور خارجہ پالیسیاں جو پاکستان کی تمام بیماریوں کی جڑ اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ویسے ہی جاری رہیں گی۔ حکومت اپنی ترجیحات اپنی مرضی سے طے نہیں کر سکے گی۔ تعلیم صحت اور انسانی حقوق کے تحفظ پر کوئی وسائل مہیا نہیں کیے جائیں گے۔ بجٹ میں قوم کو لاحق فرضی خطرات کو ہی ترجیح ملے گی۔

صوبوں کے حقوق پر قدغن رہے گی۔ ریاست کی توجہ عوام کے حقیقی مسائل تعلیم، صحت، انسانی حقوق، وسائل کی تقسیم، آبادی، ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی اور ہمسایہ ممالک سے دوستی کی بجائے غیر حقیقی مسائل جیسے کہ یہ سازش، وہ سازش، ایٹم بم کو خطرہ، غداری اور بلاسفیمی پر ہی رہے گی۔ کچھ نہیں بدلے گا۔ عوام گھاٹے میں تھے اور گھاٹے میں ہی رہیں گے کیونکہ ووٹ کو عزت نہیں ملی۔

حکومت میں موجودہ تبدیلی صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت تھی۔ حکومت بھی ہائبرڈ رہی اور اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل کہلانے کا ناحق موقع بھی مل گیا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments