ازل اک تیرگی ہے


 ” ہاں فی الحال تو تم دونوں وہ والے انڈین ہو۔ دور والے۔ اور میں اصلی امریکن Aboriginalانڈین۔ یعنی Native! میرا خاندان، میرے آبا و اجداد تو امریکہ سے کبھی کہیں گئے ہی نہیں۔ ہم لوگ ہمیشہ سے یہیں رہے ہیں، یہی ہمارا وطن ہے، ہمارا گھر ہے۔ آیا نہ کی آنکھیں یہ کہتے ہوئے چمک اٹھیں۔ کتنا فخر تھا اسے اپنی نسبت پر۔

 ” اچھا سنو تم دونوں کے لئے ایک خوشخبری ہے۔ اگلے ویک اینڈ پر ہم لوگوں کا ایک قدیم انڈین تہوار آیا ہے۔ جسے ہم یونیورسٹی میں بڑے بھرپور طریقے سے منانے جا رہے ہیں۔ تم لوگ ضرور آنا“ آیانہ نے دعوت دی

 ”کچھ اچھا کھانے کو ملے گا؟ میں نے ندیدوں کی طرح سوال کیا

 ” ہاں کیوں نہیں! مکئی کا انڈین سوپ اور روٹیاں تو ضرور ہوں گی۔ آیانہ نے جو اب دیا

 ” مگر وہ ہماری روٹیوں جیسی نہیں ہو سکتیں۔ گیتا نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور پھر ہنس دی

ویک اینڈ پر موسم بڑا دلنواز تھا۔ دھوپ کھل کر کھلی تھی۔ سٹوڈنٹس کلاسوں سے نکلتے، کیفے ٹیریا میں جاتے، بینچوں پر بیٹھے گپیں لڑاتے بہت بھلے لگ رہے تھے۔ انڈین تہوار کے لیے کیمپس کا ایک گوشہ مخصوص کر دیا گیا تھا۔ جس کی طرف جاتے ہی رنگ برنگی ڈیکوریشنز آپ کا سواگت کرتی تھیں۔ ایک خاص ردھم سے بچتا ہوا ڈرم اور بانسریوں سے ابھرتے سر دل کو سرشار کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہم کسی قدیم قبائلی دور میں جا پہنچے ہوں۔ بہت سے انڈین لوگ روایتی ملبوسات پہنے سروں پر پروں والی ٹوپیاں سجائے، گیت گاتے، مزے سے ناچ رہے تھے۔ وہ اپنے منہ سے جانوروں کی بولیوں جیسی آوازیں نکالتے تو حیرت ہوتی اور بہت عجیب لگتا۔

 ” تم کتنی فنٹاسٹک لگ رہی ہو آیانہ۔ ارے ذرا اسے تو دیکھو! گیتا نے مجھے ٹہوکا دے کر متوجہ کیا۔ میں نے دیکھا آیانہ واقعی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس نے چمڑے نما کپڑے کا لانگ سا جھالروں والا ڈریس پہن رکھا تھا۔ سر پر رنگے برنگی چڑیوں کے پروں والی ٹوپی سجائی ہوئی تھی۔ جس کی پشت پر کسی گلہری یا لومڑی کی دم لٹکتی اسے بہت دلچسپ بنا رہی تھی۔ لمبے کالے بالوں کی دو موٹی موٹی چٹیائیں اس کے سینے پر جھول رہی تھیں۔ جنہیں آراستہ کرنے کے لئے اس نے ان میں رنگ برنگے موتی منکے ٹانک رکھے تھے۔ اس نے اپنے نفیس پاؤں میں کسی نرم چمڑے کے بنے ہوئے موکسین جوتے پہن رکھے تھے جو اس کے کپڑوں کے ساتھ بہت جچ رہے تھے۔

 ”ہیلو پرنسس!“ ایک نوجوان شخص آیانہ کے قریب آیا اور اسے پیار سے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ رنگت اور جثے سے وہ بھی انڈین ہی لگتا تھا۔

 ”پرنسس تو میں ہوں، سیم (Sam) ! میری دادی ہمارے خاندان کی کہانی سنا کر مجھے بتاتی تھیں کہ میرے باپ دادا قبائلی سردار ہوا کرتے تھے۔ میرا نسب معمولی نہیں ہے۔ اس لئے تم بھی مجھ سے ذرا ادب سے بات کرو۔ سیم!“ وہ ہنستے ہوئی بولی تو سیم گھٹنوں پر بیٹھ کر اس کے سامنے جھک گیا اور اس کی طرف ایک فلائنگ کس بڑے جوشیلے انداز میں اڑا دیا۔ گیتا اور میں بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکے

تھوڑی ہی دیر میں ہم سب اندر آڈیٹوریم میں جا پہنچے جہاں Aboriginal Indians دن منائے جانے کے سلسلے میں ایک لیکچر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بروشر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ چند انڈین ماہرین انڈین قوم کی تاریخ، جدوجہد اور نظریہ قومیت، ادب اور موسیقی پر روشنی ڈالنے کے لئے دوسری ریاستوں سے سفر کر کے آرہے ہیں۔ ہمارے لئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں تھی۔

سب سے مشہور سپیکر ایک انڈین لیڈی جینا مکوتے تھیں۔ ان کا تعلق قدیم انڈین قبیلے Iroquois سے تھا مگر اب وہ ایری زونا یونیورسٹی میں انڈین سٹڈیز پڑھاتی تھیں۔ ان کی آمد پر ہال میں خوب تالیاں بجیں کیونکہ وہ اپنے مضمون میں بہت لائق، ماہر علم سمجھی جاتی تھیں۔ ان کے کاموں میں انڈین تہذیب، اپنی اصل کی پہچان کروانا اور ماضی کو یاد کرنا بہت اہم حیثیت رکھتا تھا۔ جینا تقریباً پچاس برس کی ایک مضبوط جثے والی خاتون تھیں جن کے خالص انڈین نسل ہونے میں کوئی گمان نہ ہوتا تھا۔ ان کی شخصیت پر وقار اور بردبار تھی۔ آواز میں اعتماد اور انداز بے باک تھا۔ سبھی ان کو بہت پسند کرتے تھے۔

ان کی گفتگو کے آغاز میں ایک قدرے عمر رسیدہ بوڑھا انڈین سٹیج پر آیا جو اپنے روایتی لباس میں ملبوس تھا۔ اس نے جانورں کے سینگوں سے بنے ہوئے سنگھ پر ایک دھن بجائی اور ناچنا شروع کر دیا۔ اس کی نظم کا ترجمہ یوں تھا جو وہ اونچی آواز میں گا رہا تھا۔

 ”یہ گیت اور یہ موسیقی ہمارا جزو ایمان ہیں، ہم گیتوں کے عشق میں ڈوبے ہوئے لوگ ہیں، ہمارے قبیلے کا ہر فرد شاعر اور موسیقار ہے“

اس کے بعد اس قدر زور زور سے ڈرم بجایا گیا کہ تقریباً سارا ہال ہی اٹھ کر ناچنے لگا۔ آیانہ کا رقص سب سے دلفریب تھا۔ لگتا تھا اس میں کوئی قدیم روح سما گئی ہے۔ وہ کسی پرانی انڈین قبائلی شہزادی کی طرح پروقار اور پراعتماد نظر آتی تھی۔ ناچ بھی اسے خوب آتا تھا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں جب سب ذرا سیٹ ہو گئے تو جینا نے اپنے لیکچر کا آغاز کر دیا اور کہا :

 ”آج ہم آپ جس زمین پر کھڑے ہیں۔ اس کے حقیقی وارث اور اصلی باسی ہم ایب اوریجنل انڈینز ہی ہیں، یہ دھرتی ہماری تھی۔ ہماری ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ہماری کہانی کو تاریخ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا تھا۔ لیکن اب ہمارا شعور جاگ اٹھا ہے۔ گو کہ آج بھی ہم طاقت اور اختیار سے محروم ہیں مگر ہم تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے گئے جانے والا فالتو سامان نہیں ہیں۔ جب گوری اقوام یورپ سے اٹھیں تو انہوں نے ہمارے دیس امریکہ کو تہس نہس کردینے، مٹا دینے کا مکمل طور پر تہیہ کر لیا۔ تسلط کر کے ظلم کرنا، پہلے سے موجود کلچر کو تباہ و برباد کرنا ہمیشہ سے ان کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ ان کے ساتھ آئے ہوئے چرچ کے لوگ، پادری، مشنری، مذہبی کارندوں نے ہمیشہ ہمیں انسان سے کم تر جانا اس لئے انہوں نے ہمیں مار ڈالنے کے فتوے دینا شروع کر دیے۔ ہماری لاکھوں عورتوں کے ریپ ہوئے اور بستیاں جلائی گئیں۔ ہماری کٹی پھٹی لاشیں ایک دوسرے کے اوپر پھینک کر وہ لوگ قہقہے لگایا کرتے تھے۔ اسی ظلم کے خلاف احتجاج میں شاعری بہر حال پنپتی رہی اور اس میں درد کی ٹیسیں شامل ہوتی چلی گئیں۔ گو آج ہم اسی نسل کشی کی وجہ سے تعداد میں کم ہیں مگر ہمیں اپنی وراثت پر پھر بھی فخر ہے۔ ہمیں یہ بات بھلائے نہیں بھولتی کہ وہ حملہ آور گورے لوگ ہماری عورتوں کو روند کر ان کے جسموں کے چیتھڑے درختوں پر ٹانگ کر ہمیں ذلیل کرتے نہ تھکتے تھے۔ انتہائی شرمندگی اور ذلت کی بات ہے یہ“ ۔

جینا کی باتیں سن کر سارا ہال سنجیدہ اور دکھی ہو گیا۔ میں نے اور گیتا نے ایک دوسرے کی کانوں میں سرگوشیاں شروع کر دیں۔ ہمیں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی یاد آئی جس نے ہمارے Natives کے ساتھ بھی ہندوستان میں کچھ کم مظالم نہیں ڈھائے تھے۔ غیر علاقوں سے آ کر لوگ کیسے دوسروں پر حکومت کرنے لگ جاتے ہیں، کتنا مشکل ہوتا ہو گا یہ سب برداشت کرنا۔ مجھے تو یہ سوچ کر ہی جھرجھری آجاتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments