ازل اک تیرگی ہے


 ”چلو۔ واپسی میں پڑھ لینا، ایک تو تم ہر جگہ کچھ پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہو“

گیتا نے میرا بازو کھینچ کر نیچے سیڑھیوں کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا تو میں چل پڑا۔ ہم ایک درمیانی سائز کی کشتی میں جا پہنچے اور اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گئے۔ جلد ہی ہمیں لائف جیکٹس دے دی گئیں جو بوٹنگ کے اصول طور پر ضرور پہنائی جاتی ہیں۔ آیانہ بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے بولی۔

 ”مجھے اس کی ضرورت نہیں، میں تیراکی کی چیمپئن ہوں۔ میں ڈوب نہیں سکتی۔ اس کی شوخ ہنسی سن کر سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اسی لمحے اس ٹوؤر کے گائیڈ صاحب کشتی میں داخل ہوئے اور پیار سے آیانہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

 ”مس یہ ہماری بوٹنگ کے اصولوں میں شامل ہے۔ لائف جیکٹ تو پہننا ہوگی آپ کو۔ آیانہ منہ بسور کر ایک کونے والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اور ہم سب گائیڈ کی طرف دیکھنے لگے۔ جو بہت دلچسپ حلیے میں ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے بہت ہی انوکھی انداز کا روایتی انڈین لباس پہن رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے سیاحوں نے کھٹا کھٹ اس کی تصویریں اتارنا شروع کر دیں تھی۔ افسانوی دیو مالائی قسم کا یہ کردار براؤن کھالوں اور چمڑے کے بنے ہوئے کھردرے سے پاجامے اور قمیص میں بہت منفرد، مختلف لگ رہا تھا اور بہت جچ رہا تھا۔ اس کے تیکھے سے سلونے نقش و نگار، قدرے چھوٹی چھوٹی کشمشی آنکھیں، مضبوط ہاتھ پیر اس کے اعلی ٰ نسب ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔ کشتی اب سٹارٹ ہو چکی تھی۔ اب سب اس سیر کے لئے تیار تھے۔

 ”میرا نام پیٹر میکن ہے، مگر یہ میرا امریکن نام ہے، میں آپ کو اپنا اصلی نام بھی بتا دوں گا۔ میرا انڈین نام ہے“ بلیک فٹ ”۔ ہم انڈین لوگوں کے اسی طرح نام ہوا کرتے تھے۔ ہمارے ہاں جانوروں، موسموں، پھولوں، درختوں کے حوالے سے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔ کیونکہ ہم نیچر کے بچے، اس کے پروردہ تھے، نیچر ہی ہماری ماں اور جائے پناہ ہے۔ میں آپ کو اس غار کی سیر پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ ایک بہت یونیک غار ہے کیونکہ اس کے اندر باہر کے موسم اثر انداز نہیں ہوتے۔ سردیوں میں یہاں کا پانی گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا رہتا ہے۔ یعنی قدرتی ٹمپریچر کنٹرول۔

بلیک فٹ گائیڈ نے ہمیں دلچسپی سے دیکھتے ہوئے اپنا بیان جاری رکھا۔ کشتی اب دھیرے دھیرے چلنا شروع ہو چکی تھی۔ ہم لوگ اندھیری غار کی ہیبت سے رعب میں آ گئے تھے۔

 ”آپ اس عظیم غار کے اندر چٹانوں کی اونچائیاں نیچائیاں، بے ترتیبیاں، ان کا جمود شکست و ریخت سب دیکھیں گے۔ کبھی کبھی کوئی چٹان اپنے سکوت سے اکتا کر ایک دم سے انگڑائی لے لے تو ایک آدھ پتھر سروں پر بھی آ گرتا ہے۔ بلیک فٹ نے ہنس کر کہا تو ہم سب نے محتاط ہو کر ادھر ادھر اور چھت کی طرف بغور دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ ہنس دیا اور بولا۔

 ”ویسے عام طور پر نہیں ہوتا، میں تو یونہی آپ لوگوں کو چھیڑ رہا تھا۔ اس چٹان کی اندر سے اکثر انسپکشن ہوتی ہے کیونکہ سیاحوں کی سیفٹی ہماری اولین ترجیح رہتی ہے لیکن اس غار کو غصہ بھی آتا ہے“ ۔

وہ یہ کہہ کر عجیب سے انداز میں ہنسا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں ماحول کو دیکھنا شروع کیا تو خیال آیا نہ جانے اس دھرتی، اس کائنات میں ازمنہ قدیم سے لے کر اب تک کتنے طوفان آتے رہے ہوں گے۔ کیسی اتھل پتھل ہوتی ہوگی۔ وقت ڈگڈگی بجاتا ہے تو سب کچھ تہس نہس ہو کر رہ جاتا ہے۔ قدرت ایک پینٹر ہی تو ہے جو حیات کے کینوس پر چھینٹے پھینکے تو شجر حجر اپنے اپنے رول ادا کرنے کو کئی روپ بدلتے ہیں شکلیں اختیار کر لیتے ہیں۔ دراصل قدرت ہی خدا ہے اور یہی حقیقت ہے۔ غار میں پانی گہرا اور سیاہ رنگ کا تھا۔ روشنی نہ ہونے کی وجہ سے گو کہ مصنوعی طور پر کہیں کہیں انتظامیہ نے لائٹنگ کر رکھی تھی مگر پھر بھی تاریکی بہت گہری تھی۔ ایک عجیب سا سماں تھا غار میں۔ بلیک فٹ نے اپنی گفتگو روک کر اپنے گلے میں لٹکتی ہوئی ایک قدیم ساخت کی بنسری نکالی اور آنکھیں بند کر کے اسے بجانا شروع کر دیا۔ اس قدیم پراسرار سی دھن میں ایک عجیب سرور اور اداسی تھی۔ ماحول یکا یک آسیب زدہ محسوس ہونے لگا۔ اچانک آیانہ کو جانے کی سوجھی۔ اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ردھم کے ساتھ ساتھ ہاتھوں اور بدن سے ایسا انوکھا نرت کرنا شروع کیا جیسے وہ آج کی کوئی ماڈرن امریکہ ایجوکیٹڈ لڑکی نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہو۔

اس کے ٹرانس کی کیفیت اسے کسی اور زمانے کسی اور ہی منظر اور اس کی حقیقتوں میں لے گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے جھوم جھوم کے ایک گیت بھی گانا شروع کر دیا۔ جس کے بول کچھ یوں تھے :

 ”میں جو گیت گاتی ہوں وہ میرے لہو میں روشن ہے۔ ہم اسی روشنی سے گیت بناتے ہیں۔ میرے گیت، میری سانسیں ہیں۔ مجھے سانسیں لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں جو گیت گاتی ہوں وہ میرے لہو میں روشن ہے۔ “

ارے واہ۔ اتنا خوبصورت گیت۔ ژاں پال آیانہ کو تعریفی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا ”کیا بات ہے، کیا یہ کوئی انڈین گیت ہے؟“

 ”ہاں۔ یہ گیت میرے خاندان والے اکثر تقریبات کے موقع پر گاتے ہیں۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ آیانہ نے جواب دیا اور کشتی میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

 ”کیا تم پہلے بھی یہاں آتی رہتی ہو اور تمہارا گیت How Mesmermizing۔ ژاں پال نے تجسس سے کہا۔

 ”نہیں۔ پہلے آنے کا کبھی اتفاق ہی نہیں ہوا۔ آیانہ نے چھت پر جمی ہوئی برف کی سلوں کو دیکھتے ہوئے کہا :

 ”آج پہلی بار یہاں آئی ہوں، مگر یہ جگہ جانی پہچانی اپنی اپنی سی لگ رہی ہے۔ یہ غار ہر ایک کو قبول نہیں کرتی، کیونکہ جب آپ آتے ہیں تو ساتھ اپنے وجود کا بوجھ بھی لے کر آتے ہیں۔“ بلیک فٹ نے اپنے ہاتھ سے بنسری کو دوبارہ گلے میں لٹکاتے ہوئے کہا۔ ہمیں اس کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ارد گرد اتنی خاموشی اور سکوت تھا کہ مجھے لگا یہ چٹانیں بھی اصحاب کہف کی طرح لمبی تان کر سو گئی ہیں اور شاید کئی سو برس بعد اس وقت جی اٹھیں جب وقت آ جا چکا ہو اور سکے تبدیل ہو گئے ہوں۔

 ”ابھی یہ سیر کتنی دیر اور ہے؟ ژاں پال نے پریشان لہجے میں پوچھا۔

 ”کیوں۔ ہمیں تو بڑا مزہ آ رہا ہے، تم کو اچھی نہیں لگ رہی یہ سیر؟ لی چنگ نے شرارتاً ژاں پال کو چھوتے ہوئے کہا۔ ژاں پال کا سانس اکھڑنے لگا تھا۔

 ” نا جانے کیوں میرا تو دم گھٹ رہا ہے یہاں۔ اس نے یہ کہہ کر اپنے گلے کے اوپر کے بٹن کھول دیے اور زور زور سے لمبی سانسیں لینے لگا۔ میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ لیکن مجھے بھی کچھ عجیب سا محسوس ضرور ہو رہا تھا۔ مجھے غار کے اطراف میں چپ کھڑی چٹانوں پر عجیب و غریب لوگوں کے سائے اور مناظر دوڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ شاید یہ میرا طاقتور تصور ہے۔ میں نے اپنے دل کو سمجھایا مگر کچھ ایسا لگا جیسے اس وقت دن کا نہیں بلکہ رات کو ایک بج رہا ہو۔ دور کہیں بہت دور ویرانوں میں کوئی معصوم دوشیزہ پھول چنتے، تتلیوں کے پیچھے بھاگتے، رستہ بھول گئی ہو اور بھیڑیے اس کا رستہ روک کے کھڑے ہو گئے ہوں۔ جنگل کی وحشی آوارہ ہوائیں، بگولے کی صورت دیوانہ وار رقص کرتے اسے ہڑپ کرنے کو اس کا تعاقب کر رہی ہوں۔ کم و بیش یہی کیفیت مجھے گیتا کے چہرے پر بھی رقصاں نظر آئی۔ ایک لی چنگ ہی تھا جو کانوں پر ہیڈ فونز لگائے اپنی پسند کی کوئی موسیقی سن رہا تھا۔ دنیا و مافیا سے بے خبر بے پرواہ اور لاتعلق۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments