ازل اک تیرگی ہے


ژاں پال آپ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور اندھیرے رنگ کے پانی میں گر کے ڈبکیاں کھانے لگا۔ اس کے بعد چٹان کی چھٹ سے گویا پتھروں کی بارش شروع ہو گئی۔ عجیب بات تھی کہ جیسے ہی وہ پانی سے باہر اپنا سر نکالتا، ایک پتھر زور سے اسے آ کر لگتا۔ وہ تیزی سے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا مگر شاید اسے تیرنا نہ آتا تھا، بوکھلا گیا۔ اس کی بے بسی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اچانک ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے آیانہ نے زور سے پانی میں چھلانگ لگائی اور تیزی سے ژاں پال کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔

 ”اوہ نو۔ مس مس“ ۔ گائیڈ نے گھبرا کر آیانہ کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں کسی پرانے زمانے کی لوک داستان میں سانس لے رہا ہوں۔ سب کچھ عجیب سا ہی تو ہو رہا تھا۔

گائیڈ نے فور لائف سیونگ والا ٹائر پانی میں ڈال دیا مگر آیانہ تو کہیں دور بہت دور نیچے ہی نیچے کو پہنچ گئی تھی۔ کچھ دیر کو ہمیں لگا کہ شاید آیانہ اب اوپر نہ آ سکے گی مگر پھر اچانک وہ ژاں پال کو بازو سے تھا مے اوپر کو آتی نظر آئی تو ہم سب کا سانس برابر ہونا شروع ہوا۔ گائیڈ کے چہرے پر حیرت اور طمانیت کے رنگ آ اور جا رہے تھے۔ مجھے لمحہ بھر کے لیے پھر یوں لگا جیسے میں کسی پرانی فلم کی کہانی کا ایک سردار ہوں۔ شاید لمحہ موجود ہی اصل دنیا اور اصل حیات ہے۔ جو کچھ ہے اس غار میں ہے، باہر کسی اور دنیا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ کیا خبر ہم سب مسافر جو اس وقت کشتی میں سوار تھے، غار کی چھت سے لٹکتی لپکتی برف کی سلوں، برستے پتھروں، اشکال اور پراسراریت کے اصل ورثا ہوں۔ کیا خبر یہی حقیقت اور باقی سب بے معنی ہو۔ میرا ذہن بھٹک رہا تھا۔

آیانہ واقعی ماہر تیراک تھی۔ اس نے ہاتھ پاؤں مارتے، غوطے کھاتے اپنا منہ پانی سے باہر نکالا اور ایک جھٹکے سے نیم بے ہوش خوبصورت نوجوان کو باہر کھینچ کر لانے کے لیے کوششیں کرنے لگی۔ پال کی سنہری پونی ٹیل کھل چکی تھی اور شانوں تک جھولتے بھیگے لامبے بال بہت بھلے معلوم ہو رہے تھے۔ ہم سب نے مل کر رسہ کشتی کے اندر گھسیٹا اور فرسٹ ایڈ دینے کے لئے لئے اس کا جسم تھپتھپانے اور سہلانے لگے۔ چند ہی لمحوں بعد پال نے آنکھیں کھول دیں اور حیرانی سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ پھر اس نے آیانہ کے چہرے پر آنکھیں گاڑ دیں۔ خوبصورت، سلونی، تیکھے نقش و نگار والی آیانہ بھی اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ سب نے تالیاں بجا کر ان دونوں کی حوصلہ افزائی اور پذیرائی کی۔ ایسا لگا جیسے آج کچھ بہت نیا اور بڑا ہوا ہو۔ کشتی کی موٹر تیزی سے گھومی اور ہم لوگ غار سے باہر نکلنے لگے۔

 ”شکر ہے سفر تمام ہوا“ گائیڈ نے کھلے آسمان تلے تیرتی، بہتی، ڈولتی کشتی کو دیکھ کر زور سے ہنسنا شروع کر دیا۔ یوں جیسے آج تک ایک عرصے بعد ہنس رہا ہو۔

 ”ینگ مین، تمہیں ہسپتال لے جانا ہو گا تاکہ تمہارا اچھی طرح سے مکمل طور چیک اپ ہو سکے۔ اس نے شفقت سے کہا۔ ژاں پال خاموش رہا۔

اچانک غار کے اندر ایک روشنی کی کرن آتی نظر آنے لگی۔ اس پتلی سی کرن کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں۔ بلیک فٹ اس کرن کو دیکھ کر سجدے کے انداز میں جھک گیا۔ پال تو بس آیانہ کی طرف ہی دیکھتا چلا جا رہا تھا۔ یوں جیسے اسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ جب ہم کشتی سے اتر کر لینڈنگ سیڑھیوں پر پہنچے تو ایمبولینس پہلے ہی سے کھڑی نظر آئی۔ غالباً گائیڈ نے انتظامیہ کو فون کر کے حادثے کے بارے میں بتا دیا تھا۔ ہم سب ایک دوسرے کو محبت اور دوستانہ انداز میں گلے لگا کر رخصت کرنے لگے۔ ژاں پال کو ایمبولینس کے باہر موجود عملہ سٹریپ سے باندھنے لگا تو مجھے یہ دیکھ کر تشویش ہوئی کہ اس کے ماتھے پر ایک بڑا زخم آیا ہوا تھا، جس میں سے خون رس رہا تھا۔ آیانہ دوڑ کر اس کے پاس پہنچی اور اس کے لانبے سنہری بالوں کو بے اختیار ہو کر تعریفی انداز میں چھونے لگی۔ ژاں پال نے اس کے نرم نرم ہاتھ کو دبایا اور پھر اس پر ہولے سے ایک بوسہ دیا۔ آیانہ مسکرا دی۔

 ”سنو۔ میں نے تمہارا شکریہ تو ادا کیا نہیں؟ ویسے شکریہ کیسے ادا کروں گا؟“

وہ مسکرا کر پوچھنے لگا۔

 ”طریقہ تو ہے شکریہ ادا کرنے کا۔ تم ایسا کرو۔ مجھے کسی دن کافی پلاؤ۔ آیانہ نے کہا۔

 ”صرف کافی؟ تم تو ڈنر بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ڈیزرو کرتی ہو۔ اس نے جواب دیا

 ”اچھا پہلے تو اپنا نمبر دو۔“ ژاں پال اور آیانہ ایک دوسرے کے فون نمبر لینے لگے۔ ہم سب مرے مرے، تھکے ہوئے قدموں سے اپنی گاڑیوں کی طرف چل دیے تھے۔ لگتا تھا جیسے صدیوں کا سفر طے کر کے آئے ہوں۔ آیانہ ہم سے کچھ ہٹ کر چل رہی تھی۔ یکا یک اس کا فون بجا تو وہ مسکرا کر کسی سے باتیں کرنے لگی۔ میں اور گیتا گاڑی میں اپنے بیگ وغیرہ رکھنے کے بعد اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔ ہم دونوں ہی خاموش تھے۔ جیسے کچھ کہنے کو تھا ہی نہیں۔ آیانہ نے باتیں کرتے کرتے اب ہماری گاڑی کی طرف اپنا رخ موڑ دیا۔ اسے ہمارے ہی ساتھ جو واپس جانا تھا۔ وہ اس بات سے قطعی بے خبر تھی کہ میپل، ایورگرین اور قدیم اونچے ادک کے درختوں کے جھنڈ میں کھڑا ایک ہرنوں کا جوڑا اسے مکمل محویت سے دیکھ رہا ہے اور دو خوش رنگ، نازک، شوخ و شنگ تتلیاں اس کے سر پر یوں منڈلاتی، جھومتی گاتی، ڈولتی جا رہی ہیں جیسے اس کی سہیلیاں ہوں اور اس سے کبھی علیحدہ نہ ہو سکی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments