آبادی اور قرضہ: اللہ ہی حافظ


پاکستان میں ہر گزرتے سال میں جن دو چیزوں کا اس ملک میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس میں ایک آبادی ہے اور دوسرا قرضہ میری اس بات کو پڑھنے کے بعد آپ یقیناً یہ کہیں گے کہ لگتا ہے موصوفہ کا دن صرف چولہا ہانڈی میں گزرتا ہے اس لیے یہ پاکستان کے صرف ان دو مسائل سے آشنا ہے اور انھیں اسی میں اضافہ نظر آ رہا ہے ورنہ پاکستان تو وہ ملک ہے جس کے پاسپورٹ پر اب لکھا ہوا ہونا چاہیے کہ اگر اب بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کا بحران، گندا پانی، ٹریفک جام، مہنگائی، بے حسی، ڈاکٹروں کی بھاری بھرکم فیس، اسکولوں کے ناجائز اور فالتو اخراجات کے ساتھ زندگی گزارنے کے خواہشمند ہے تو ضرور اس ملک میں تشریف لائے ورنہ آپ کو اپنا ہی دیس مبارک ہو۔

یہ سب مسائل جو میں نے آپ کو اوپر گنوائے ہیں اس کے باوجود بھی میں آپ سے کہوں گی اس پاکستان کے دو ہی مسائل ہیں آبادی اور قرضہ فی الوقت پاکستان کی آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے وہ بالکل ایسے ہے جیسے بارش میں مینڈک نکل آتے ہیں اور انسان یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ بارش سے پہلے یہ مینڈک کہاں تھے؟ اور اس آبادی کو بڑھانے کا کردار ہمارا وہ طبقہ بخیر و خوبی انجام دے رہا ہے جو پیٹرول، آٹے، چاول، دال کے پیسے بڑھ جانے پر نیوز پیکیج میں سوٹ دیتے ہوئے کہہ رہا ہوتا ہے ہمارے حکمرانوں نے زندگیاں مشکل کردی ہے تنخواہ دس ہزار ہے گزارا ہو تو کیسے ہو؟

ہمارا نچلا طبقہ اور خصوصاً وہ طبقہ جو کہتا ہے ہم غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ان کے گھروں میں بچوں کی تعداد آٹھ سے دس ہوتی ہے اور سونے پر سہاگا یہ کہ اس طبقہ میں اب دوسری اور تیسری شادی کا بھی زور ہو گیا ہے مطلب اس کے مطابق آپ کو اب ایک گھر میں پندرہ سے بیس بچے بھی نظر آجانا کوئی بڑی بات نہیں اس کے بعد اگر ان سے خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں سوال کرو تو کہتے ہیں توبہ! کرو جی توبہ! اسلام میں بچوں کی پیدائش کو روکنا گناہ ہے گناہ؟

بس پیدائش کو روکنا گناہ ہے؟ وہ کھانے کے لیے روتے رہیں کوئی مسئلہ نہیں؟ تعلیم ان کے پاس نہ ہو کوئی مسئلہ نہیں؟ گرمی میں وہ سوئیں، کوئی مسئلہ نہیں؟ دوا دارو ان کی نہ ہو سکے کوئی مسئلہ نہیں اور تو اور وقت پڑنے پر وہی تمھیں کما کر کھلائیں مالک کے جوتے کھائیں وہ بھی کوئی مسئلہ نہیں اس ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کا حل چائنہ والا تو ہو سکتا نہیں ایک بچہ کافی اور دوسرے پر بھاری بھرکم فیس عائد ہاں اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ اس نچلا طبقہ والی خواتین کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں کم بچے خوشحال گھرانے پر لیکچر کا انعقاد روز کی بنیاد پر کیا جائے اور ڈاکٹر کی ملاقات سے پیشگی ان کو ڈاکٹر کی معاون تمام تفضیلات سے آگاہ کریں اور اس بات پر راضی کریں کے وہ اپنی صحت کے بارے میں سوچے جو پانچ، چھ بچے پیدا کر کے محنت مزدوری کی متحمل نہیں اور زندگی میں خوشیاں ہونا ان کا حق ہے مختصر لفظوں میں یہ کہ ہمیں شاید اس ملک کی نچلی خواتین کو شدید قسم کا خود پسند بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کو روکا جا سکے کیونکہ یہ طبقہ ٹیکس تو دیتا ہے نہیں ٹیکس کو بھگتے ہیں ہم یعنی اشرفیہ اور متوسط طبقہ جب مسائل بڑھتے ہیں تو ہماری حکومت لیتی ہے قرضہ اور اس ملک میں جس انداز میں قرضہ چڑھ رہا ہے اگر بروقت اسے نہ روکا گیا تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments