سیاسی رواداری اور برداشت کا کلچر


گزشتہ چند ہفتوں سے ملکی سیاست میں ہلچل کی سی کیفیت ہے اور سیاسی درجہ حرارت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ لوگ اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کی وکالت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے درمیان ہیش ٹیگ اور کمنٹس کا جو طوفان بدتمیزی برپا ہے، اس کو دیکھ کر دل دکھتا ہے۔ جمہوریت میں اختلاف رائے ہوتا ہے، آپ کی سیاسی سوچ الگ ہو سکتی ہے، لیکن اختلاف اور دشمنی میں واضح فرق ہے۔ جمہوریت میں مخالف کی رائے کا احترام کرنا، کسی بھی عمل پر برداشت و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہی ایک سیاسی کارکن کی پہچان ہوتی ہے۔

جمہوری عمل کو جاری رہنا چاہیے، رواداری کے ساتھ، بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں برداشت ختم ہو رہی ہے۔ جمہوریت کا حسن ایک دوسرے کی بات سننا اور برداشت کرنا کہلاتا ہے۔ ہر معاشرہ برداشت اور رواداری کے رویوں سے ہی خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں سیاسی اور سماجی نظریات سے لے کر مذہبی عقائد اور رسم و رواج تک بے حد تنوع پایا جاتا ہے۔ اس تنوع کو دل سے قبول کرنا ہی رواداری ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں کے رویوں میں عدم برداشت کا بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس کے اسباب جھوٹ، نا انصافی، اقربا پروری، مہنگائی اور بے روزگاری وغیرہ ہیں۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت عدم برداشت کی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ لوگ معمولی سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں ہونے والی پولیٹیکل پولرائزیشن نے معاشرے کو بدترین طریقے سے تقسیم کر دیا ہے۔ سیاست ہو یا مذہب، ہم اختلافات اور مخالفت برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں، اور فوری ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے حد سے گزر جاتے ہیں۔

یہ صورتحال ہمیں اکثر دیکھنے کو ملتی ہے کہ عدم برداشت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور ہمارا معاشرہ اس وقت ایک ایسے موڑ کی طرف رواں دواں ہے جہاں اپنی بات کو سچ اور دوسرے کی بات کو جھوٹ سمجھا جاتا ہے، جس کی روشن دلیل موجودہ سیاسی بحران ہے جس کی بنیاد پر کس کس طرح کے الزامات اور زبان استعمال کی جا رہی ہے جس کا اثر براہ راست ہماری نوجوان نسل پر پڑتا ہے۔ ماہرین کے خیال میں عدم برداشت ہمارے اندر چھپی ہوئی مایوسی سے جنم لیتا ہے اور یہ مایوسی ہمارے ناتمام ارادوں کا نتیجہ ہوتی ہے، کیونکہ ہم بہت سے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر ہوتے ہیں۔

ہمیں سب سے زیادہ ضرورت محبت کی نہیں بلکہ برداشت کی ہے۔ اس لیے کہ محبت ہم صرف اپنے پسندیدہ لوگوں سے ہی کر سکتے ہیں، لیکن ہم ناپسندیدہ لوگوں، مخالف نظریات رکھنے والے افراد کو برداشت تو کر سکتے ہیں۔ وطن عزیز کو اس وقت جتنی سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی اور اس ہم آہنگی پیدا کرنے کی یہی بہتر صورت ہو سکتی ہے کہ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ سیاسی رہنمائی کا یہ فریضہ بھی ہے کہ سوسائٹی میں ہم آہنگی، اتفاق اور تحمل کے جذبات پیدا کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کیا جائے۔

پاکستان کی کثیر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، ایسے معاشروں میں عدم تحمل کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ملک کی سیاسی اور اخلاقی برتری کی ذمہ داری حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کریں، انہیں سیاسی رہنماؤں کے عشق میں اندھا اور بہرا نہ ہونے دیں۔ اپنی گفتگو میں غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کی بجائے بہتر الفاظ کا چناؤ کر کے بھی سیاسی مخالفت کی جا سکتی ہے۔

کسی بھی جماعت کی جانب سے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو سیاسی مخالفین کے خلاف غیر اخلاقی گفتگو اور غیر شائستہ عمل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انسانی معاشرہ ایک گلدستے کی طرح ہے، جس طرح گلدستے میں مختلف رنگ کے پھول، حسن و خوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معاشرہ بھی مختلف الخیال، مختلف المذاہب اور مختلف النسل افراد سے مل کر ترتیب پاتا ہے، اور اس کا یہی تنوع اس کی خوبصورتی کا سبب بنتا ہے۔ میانہ روی، تحمل مزاجی اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بنتا ہے اور اس طرح ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments