کیا بین الاقوامی فلموں پر پابندی لگا کر ہی پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی ممکن ہو گی؟


’پاکستان کے ٹی وی ڈراموں کو پھر بھی لوگ دیکھتے ہیں لیکن ہم فلموں میں وہ لیول نہیں لا سکے جو ہالی وڈ اور بالی وڈ لے کر آتا ہے۔ ہم اگر پاکستان کی انڈسٹری کو فروغ نہیں دیں گے اور غیر ملکی فلمیں ہی دیکھتے رہیں گے تو پاکستان کی فلم انڈسٹری اسی لیے ختم ہو گئی تھی نہ۔‘

یہ بات سینما کے باہر موجود دو افراد نے کی جنھوں نے عید الفطر اور اس کے بعد سینما گھروں کا رخ کیا جہاں اس مرتبہ پانچ پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے موجود تھیں۔

کووڈ کی عالمی وبا کے بعد یقیناً یہ ایک خوش آئند بات تھی کہ سینما گھروں میں ایک مرتبہ پھر پاکستان فلمیں دیکھی جا سکیں گی لیکن اس کے باوجود پاکستانی فلم انڈسٹری ایک بار پھر ناقدری اور ناانصافی کا رونا رو رہی ہے۔

اس کی وجہ سینما گھروں میں ہالی وڈ فلم ’ڈاکٹر سٹرینج کی‘ نمائش ہے جس نے نہ صرف مداحوں سے خوب داد سمیٹی بلکہ اچھا بزنس بھی کیا۔

گذشتہ سنیچر کو چند پاکستانی فلم پروڈیوسرز کی جانب سے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا اور فلم ’ڈاکٹر سٹرینج‘ کو پاکستان میں ریلیز کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔

عید پر ریلیز ہونے والی پاکستانی فلموں میں فلم ’گھبرانہ نہیں ہے، دم مستم، پردے میں رہنے دو، چکر اور تیرے باجرے دی راکھی شامل ہیں۔

اس بارے میں فلم دم مستم کے پروڈیوسر اور معروف اداکار عدنان صدیقی کی جانب سے ایک ٹویٹ کی گئی جس میں انھوں نے ڈاکٹر سٹرینج کی نمائش پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ ’ڈاکٹر سٹرینج کی نمائش میں کچھ روز انتظار کیا جا سکتا تھا۔ دو سال بعد کھلنے والی انڈسٹری کے لیے ایک غیر ملکی فلم کا سینما سکرین کو ہائی جیک کرنا ہمیں ہرگز درکار نہیں تھا مقامی فلموں کا کسی بھی دن زیادہ حق بنتا ہے۔‘

تاہم اس حوالے سے ان کی ٹویٹ پر سوشل میڈیا پر خاصی بحث کی جاتی رہی اور سوال اٹھایا جاتا رہا کہ آیا بین الاقوامی فلموں پر پابندی لگا کر ہی پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی ممکن ہو گی؟

https://twitter.com/adnanactor/status/1523617597643968512?s=20&t=IEUUcXrnpVZa-nG6DzVp7w

سینما میں لوگوں کو لانے کے لیے وجوہات چاہیے‘

اس بارے میں اکثر افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ جب تک لوگوں میں سینما گھروں میں آنے کی عادت نہیں ڈالی جائے گی، تب تک پاکستانی فلموں کے اچھا بزنس کرنے کی راہ بھی ہموار نہیں ہو گی۔

جنرل مینجر مارکیٹنگ اینڈ سیلز سینی پیکس عدنان علی بھی ان ہی خیالات کے حامی ہیں۔ انھوں نے صحافی براق شبیر سے بی بی سی کے لیے کیے گئے انٹرویو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سینما میں لوگوں کو لانے کے لیے وجوہات چاہیے اور وہ ایک سے زیادہ بھی ہو سکتی ہیں۔

مقامی فلموں کے بین الاقوامی فلموں سے مقابلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک یہ بات ہے کہ مقامی فلمیں ہی صرف چلائی جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو تاثر دیا جا رہا ہے کہ مقامی فلموں کا مقابلہ غیر ملکی فلموں سے ہے، میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہے۔‘

انھوں نے اس حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ انڈیا کو دیکھیں تو وہاں 50 سے 100 ڈائریکٹرز کا ایک پول ہے جو کسی نہ کسی موقع پر بلاک بسٹر فلم بنا چکے ہیں۔‘

’اگر آپ پاکستان میں دیکھیں تو ہمارے پاس 10 ڈائریکٹر بھی ایسے نہیں جو ایک بلاک بسٹر فلم بنا کر کامیابی سے ریلیز کر چکے ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں ایسی فلمیں جو لوگوں کے جذبات کو چھو سکیں یا انھیں انٹرٹینمنٹ فراہم کر سکیں جس کے لیے وہ آتے ہیں سینما میں، تو ہمارا یہ پول بڑھتا جائے گا اور اچھی فلمیں بنتی جائیں گی۔‘

’ہم ڈرامہ بنانے والی انڈسٹری تو ہیں لیکن فلم بنانے والی انڈسٹری نہیں‘

اس حوالے سے سینما گھروں میں فلموں کی الاٹمنٹ کے بارے میں بھی سوال کیے جا رہے ہیں۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ پاکستانی فلموں کو بین الاقوامی فلموں کے مقابلے میں سینما سکرین کا کم حصہ دیا جاتا ہے جو غلط ہے۔

فلم دم مستم کی فلم نگار اور لیڈ اداکارہ امر خان نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ڈرامہ اور ٹی وی مواد بنانے والی انڈسٹری تو ہیں لیکن فلم بنانے والی انڈسٹری نہیں۔‘

’اگر ایک پروڈیوسر چھلانگ مارنے جاتا ہے موت کے کنویں میں کہ بچ گیا تو بچ گیا، نہیں بچا تو چلو کم از کم کوشش تو کروں گا ہمارے وہ حالات ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن کیا اس بات پر ہم کوشش کرنا بند کر دیں گے بالکل نہیں۔ کیا موازنہ منصفانہ ہے، بالکل نہیں۔ جب میں دیکھنے والوں میں سے تھی اور بنانے والوں میں سے نہیں تو میں بھی یہی سوچتی تھی کہ بھاڑ میں جائے سینما کی حمایت کے نعرے وغیرہ۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں اچھا مواد دیکھنا چاہتی ہوں، میں ارطغرل دیکھتی تھی لیکن پاکستانی ریگولیٹرز نے یہ نہیں کہا تھا کہ مقامی مواد صرف ایک دو سلاٹس پر لگے گا، باقی ہر کوئی ارطغرل چلائے گا۔ اگر وہاں منصفانہ الاٹمنٹ تھی تو یہاں کیوں نہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں ڈاکٹر سٹرینج کی نمائش کیوں روکی گئی اور اس پر کیا اعتراض؟

پاکستانی فلمیں عوام کا دل جیتنے میں ناکام کیوں؟

کیا آپ نے پاکستان کی یہ دس ’بہترین‘ فلمیں دیکھی ہیں؟

’مجھے نہیں یاد کہ کوئی ایسی پاکستانی فلم جو بہت اچھی ہو اور نہ چلی ہو‘

پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں ’جوانی پھر نہیں آنی‘ اور ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کے ڈائریکٹر ندیم بیگ ہالی وڈ فلموں پر پابندی کے حق میں نہیں بلکہ ان کا ماننا ہے کہ اگر فلم کی کوالٹی اچھی ہو گی تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ لوگ اسے دیکھنے نہ آئیں۔

انھوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری فلم پنجاب نہیں جاؤں گی جب برطانیہ میں لگی تھی تو اس کے ساتھ ہندی، تیلوگو، مراٹھی اور انگلش سب فلمیں لگی ہوئی تھیں لیکن ہماری فلم نے بہت بہتر بزنس کر لیا تھا وہاں بھی۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ کو سکرین پلے کے بارے میں علم ہے، پھر آپ ایک اچھی کہانی لکھ سکتے ہیں اور پھر ایک اچھا ڈائریکٹر اسے اپنی مہارت سے سکرین پر بتا سکتا ہے۔

’اچھی فلم ہے تو وہ چلے گی، مجھے نہیں یاد کہ کوئی ایسی پاکستانی فلم جو بہت اچھی ہو اور نہ چلی ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اگر سینما ہال خالی پڑا ہے تو آپ اس کے شو بھر دیں لیکن اگر ایک فلم چل رہی ہے اور اسے ایک اچھی تعداد میں لوگ دیکھ رہے ہیں تو اس کے شو کم نہ کریں۔‘

’حل یہ ہے کہ دوسری فلموں کو کتنی فیصد سکرینز دینے کے لیے تیار ہیں‘

تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عید الفطر پر نمائش کے لیے پیش کی جانے والی تمام فلمیں ہی اس قابل نہیں تھیں کہ لوگ انھیں دیکھنے نہیں آئے۔

اس بارے میں صارفین کی جانب سے یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری کی بحالی آخر کب ہو گی کیونکہ اس بارے میں پچھلی ایک دہائی سے بات کی جا رہی ہے۔

اس بارے میں فلم ناقد اور ڈان اخبار سے منسلک تجزیہ نگار کامران جاوید نے اس موضوع پر روشنی ڈالی۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی سینما کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس موضوعات ہی نہیں۔ ہم رومانوی فلمیں بناتے ہیں، ہم کامیڈی کرتے ہیں، ہم ہائی پروفائل ڈرامہ بناتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ہم ٹی وی پر بھی کرتے ہیں۔‘

’ہمیں دوسرے موضوعات میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، جیسے ایکشن فلمیں، ڈراؤنی فلمیں، تھرلر فلمز اور دیگر کئی موضوعات پر بنائی گئی فلمیں۔ آج کل ایک ہلا مچا ہوا ہے کہ ڈاکٹر سٹرینج یا کوئی اور فلم آنے سے انڈسٹری تباہ ہو جاتی ہے، ایسا بالکل بھی نہیں۔‘

’اس کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے، کیا پالیسی بننی چاہیے، کس طریقے سے آگے بڑھنا چاہیے یہ اصل سوال ہے۔ اس پر ابھی بھی سوچ بچار جاری ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سال میں 90 فیصد سے زیادہ مرتبہ سینما جو مواد چلا رہا ہوتا ہے وہ غیر ملکی فلمیں ہی ہوتی ہیں، پاکستانی فلمیں تو 30 سے پچاس لاکھ روپے بھی نہیں کماتیں کیونکہ صارفین کا بھروسہ ابھی پاکستانی سینما پر نہیں ہوا، وہ صرف عیدالفطر اور عید الاضحی پر ہوتا ہے، اس کے علاوہ صارفین کا بھروسہ نہیں ہوتا، تو باقی آپ پورا سال کیا کریں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پابندی حل نہیں، حل یہ ہے کہ آپ ہالی وڈ فلموں کو کیسے لگاتے ہیں اور انھیں کتنی فیصد سکرینز دینے کے لیے تیار ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب مصالحہ انٹرٹیننگ فلمیں بناتے ہیں، تو ہم انھیں کافی پاکستانی انداز میں بناتے ہیں، پاکستان کا سینما، فلم میکنگ، سکرین رائٹنگ انڈیا جیسی نہیں۔‘

میرے خیال میں ان مثالوں کو سامنے ضرور رکھیں لیکن آپ بنائیں پاکستان کا فلیور اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، آپ انڈیا کو پورا چھاپ نہیں سکتے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ انڈیا کو پورا چھاپیں گے تب بھی آپ انڈیا کی فلم نہیں بنا سکتے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنی شناخت خود آہستہ آہستہ کر کے آگے بڑھائیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments