گلگت بلتستان: کالا قانون کے خلاف کالے کوٹ کی جدوجہد


گلگت بلتستان میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ( ایف سی آر ) کے کالے قانون کے خلاف تحریک کی ابتدا قائد گلگت جوہر علی خان ایڈوکیٹ کی قیادت میں تنظیم ملت نے شروع کی اور سیاسی جلسوں میں اپنا منشور عوام کو سمجھایا اور عوام کو ایف سی آر اور راجگی نظام کے خلاف متحرک کیا اسی دوران ہائی سکول گلگت کا واقعہ پیش آیا جس نے گلگت کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

سینئر قانون دان محمد عیسٰی کے زبانی واقعہ اس طرح پیش آیا کہ گلگت اسکاوٹس کے کمانڈنٹ کی زوجہ نے گلگت ہائی سکول کی پرنسپل جو کہ ایک میجر کی بیوہ تھی اس کو گالیاں دی کیونکہ اس کی دو بیٹیاں جو آٹھویں اور ساتویں کلاس میں زیر تعلیم تھی اور دونوں سالانہ امتحان میں فیل ہوئی تھیں اس وجہ سے ایک کمانڈنٹ کی بیوی نے پرنسپل و دیگر لیڈی ٹیچرز سے بد تمیزی کی اور یہ دھمکی دے کر دباؤ ڈالا کہ اس کی بچیوں کو پاس کرو بصورت دیگر سکاوٹس تمہارے اوپر چڑھاؤں گی۔

لیکن پرنسپل نے زبردست دباؤ کے باوجود اس غیر قانونی مطالبہ کو ماننے سے انکار کر دیا جس پر انتظامیہ نے اس پرنسپل کو معطل کیا نتیجتاً وہ پرنسپل خاتون تنظیم ملت کے رہنماؤں کے پاس شکایت لے کر پہنچی تو اس زیادتی پر تنظیم ملت نے احتجاج کی کال دی اور جب عوام نے احتجاج شروع کیا تو انتظامیہ نے رات کو تنظیم ملت کے چھ نمایاں لیڈران کو گرفتار کر کے گلگت سونی کوٹ جیل میں قید کیا۔

جس پر عوام مشتعل ہوئے اور جوہر علی خان ایڈووکیٹ کی کال پر گلگت کے عوام نے صبح سخت احتجاج شروع کیا بسین گلگت سے لے کر سکوار و مناور تک گلگت کے تمام عوام بشمول خواتین نے سخت احتجاج شروع کر دیا اور اپنے رہنماؤں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

جب انتظامیہ نے ان کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کیا تو مشتعل عوام نے پہلے تو گلگت بازار تھانے پر دھاوا بول دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انتظامیہ نے ان کے رہنماؤں کو تھانے میں بند کیا ہو گا۔ لیکن جب تھانہ میں اپنے رہنماؤں کو نہ پایا تو عوام کا مشتعل ہجوم نے سونی کورٹ جیل کا رخ کیا اور جیل پر حملہ کیا۔

اس دوران گلگت میں تعینات پولیٹیکل ایجنٹ اے آر صدیقی نے گلگت سکاوٹس کے جوانوں کو عوام پر گولیاں چلانے کا حکم دیا لیکن انہوں نے ہوائی فائرنگ کر کے عوام کو منتشر کرنے کی کوشش کیا لیکن اسی اثناء پولیٹیکل ایجنٹ نے گلگت سکاؤٹس کے ایک جوان سے بندوق چھین کر مظاہرین پر ڈائریکٹ گولیاں چلائی نتیجتاً موضع شروٹ گلگت کا ایک رہائشی رجب نامی شخص شہید اور دس افراد شدید زخمی ہوئے۔

مگر اس کے باوجود عوام کے سمندر نے جیل توڑ کر اپنے لیڈران کو رہا کروانے میں کامیاب ہوئے اور ان پر پھول نچھاور کیے ۔ بقول محمد عیسٰی ایڈووکیٹ ان رہنماؤں میں آر۔ ای محمد علی، شیر ولی ایڈووکیٹ پونیالی محمد لطیف حسن، الطاف حسین ایڈووکیٹ، محمد عیسٰی ایڈووکیٹ خود، سعید احمد ایڈوکیٹ، غلام محمد المعروف گلو بٹ، کریم خان سر فہرست تھے۔ انتظامیہ ان لیڈران کو چار دنوں تک دوبارہ گرفتار کرنے میں ناکام ہوئی پھر گلگت میں کرفیو نافذ کر کے دوبارہ ان لیڈران سمیت 100 دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا۔

جیل توڑنے والی احتجاجی ریلی کی قیادت کرنے والے لیڈر جوہر علی خان کو دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ جیل میں قید کیا گیا جو تاریخ گلگت میں قائد گلگت کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

جوہر علی خان ایڈووکیٹ اور ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ صوبیدار صفی اللہ بیگ اور بارگو گلگت سے تعلق رکھنے والے صوبیدار ایوب ستارہ جرات کے علاوہ گلگت کا ایک اہم مذہبی عالم دین عباس علی جس کا تعلق وادی بگروٹ سے تھا ان کے ساتھ کل چودہ افراد کو گلگت جیل میں قید کے دوران جیل میں ہی بنا ٹرائل 20۔ 25 سال سزا سنا کر ہری پور جیل منتقل کیا گیا جن میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے لیڈر امان اللہ خان بھی شامل تھے جو ایک تقریر کے جرم میں گلگت جیل میں قید تھے ان کو بھی ہری پور جیل منتقل کر کے وہاں قید کیا گیا جبکہ دیگر اہم قومی قائدین جن کو گلگت کے عوام نے گلگت جیل توڑ کر قید سے آزاد کرایا تھا ان کو دوبارہ گرفتار کر کے پہلے تو کچھ عرصہ کے لئے گلگت جیل میں رکھا پھر ان کو گوپس قلعہ منتقل کر کے وہاں قید کیا۔

ان میں آر ای محمد علی، شیر ولی ایڈووکیٹ پونیالی، محمد لطیف حسن، الطاف ایڈووکیٹ، عیسٰی ایڈووکیٹ، سعید صاحب، غلام محمد المعروف گلو بٹ، کریم خان شامل تھے انہیں گلگت سکاوٹس نے گاڑیوں میں ڈال کر گلگت جیل سے گوپس قلعہ منتقل کیا اور وہی قید کیا جہاں انہوں نے چھ ماہ قید برداشت کی۔

اسی اثناء کراچی میں مقیم گلگت بلتستان کے طلباء نے اپنے قومی رہنماؤں کی رہائی اور نوآبادیاتی قانون ایف سی آر اور راجگی نظام کے خلاف زبردست جدوجہد شروع کی اور وہ ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمن سے بھی ملے اور دونوں رہنماؤں نے وعدہ کیا کہ وہ حکومت میں آ کر گلگت بلتستان کے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کریں گے۔

بقول عیسٰی ایڈوکیٹ ان کے ساتھ دیگر رہنماؤں کو گلگت جیل سے تین جیب گاڑیوں میں ڈال کر گلگت سکوٹس گوپس قلعہ کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں رات ہوئی اور وادی پونیال ہائم کے مقام پر ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جو کہ قابل ذکر ہے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments