امواجِ ثقل، لبرل ازم اور بوسے کی مابعدالطبیعات


تین دلچسپ تحریریں اور ان پر اختلافی تبصرے نظر سے گزرے۔ یوں تو موضوعات کا آپس میں کوئی واضح تعلق نہ تھا لیکن بیچ سے گزرتی ایک مشترکہ فکری زنجیر نے قدم جکڑ لئے۔ برادرم ذیشان ہاشم نے اپنے پرمغز مضمون میں لبرل ازم کی مبسوط روایات کا احاطہ کرتے ہوئے اسے آزاد فرد، آزاد معاشرے اور آزاد معیشت کی مربوط مثلث قرار دیا۔ ان کا مرکزی دعویٰ یہ تھا کہ لبرل ازم کی روایت سماجی خاکہ بندی کے دوران کسی بھی مابعد الطبیعاتی تناظر سے باہر کھڑا رہنے پر اصرار کرتی ہے اور اس وجہ سے کسی بھی قسم کے مذہبی مفروضوں کے بارے میں لب بستہ رہتی ہے۔ محترمہ رامش فاطمہ نے اپنے فکاہیہ مضمون میں آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کی پیشین گوئیوں کے تجرباتی مشاہدے کا جشن مناتے ہوئے امت مسلمہ کے ”فرزندانِ توحید“ کو عقل کے دشمن نقال بندروں سے تشبیہ دی جس سے شاید یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ آئن سٹائن کی تحقیق ایک سائنسی دریافت نہیں بلکہ تیسری دنیا کے مذہب پسند طبقات کے منہ پر ایک کرارا طمانچہ ہے۔ مت پوچھئے ہمیں تیسری دنیا کے ایک مسلمان سائنسی محقق کے طور پر کتنی شرمساری ہوئی۔ فوراً جی چاہا کہ فاضل مصنفہ سے اس دریافت کی بابت مزید تفصیلات دریافت کی جائیں اور پوچھا جائے کہ اگربالفرض اس دریافت کا سہرا کسی ’فرزندانِ توحید‘ نامی معتوب ہجوم کے سر بندھ جاتا تو سماجی طور پر کونسی خوشگوار تبدیلیاں متوقع تھیں؟ ہمارے عزیز دوست تصنیف حیدر نے اپنے مدلل مضمون میں ہمیں دو محبت کرنے والوں کے درمیان برسرِعام بوس و کنارکے انسانی حقوق کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے یہ باور کرایا کہ تہذیب، مذہب، روایت، اقدار وغیرہ سب بے معنی موضوعی باتیں ہیں اور واحد معروضی حقیقت انسانی عقل ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ انسان اب ارتقا کی اس منزل پر ہے جہاں خوبصورتی، بدصورتی، حیا، بے حیائی کی تعریف اپنی مرضی سے کر سکتا ہے لہٰذا جو بھی برسرِعام اظہارِ عشق کے کسی بھی مخصوص طریقے کے خلاف ہے وہ روشن خیالی اور ترقی پسندی کے اعتبار سے ترقی یافتہ اقوامِ عالم سے دوڑ میں کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔

چونکہ ہمیں ان تینوں محترم دوستوں سے مختلف درجوں میں اختلاف ہے لہٰذا اس طویل تحریر کے ذریعے یہی کوشش ہو گی کہ کسی نہ کسی حد تک ان سے کلی اختلاف کرنے والے دوستوں کی نمائندگی کا فرض بھی ادا ہو جائے اور یہ بھی واضح ہو جائے کہ سمجھوتے کی معقول صورتیں کیا ہیں۔ خوش گمانی کہہ لیجیے لیکن ہمیں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ سماج میں ہر ذی شعور اور متوازن شخص کی بنیادی ترجیح بہرحال یہی ہوتی ہے کہ سماج مزید انتہاؤں میں تقسیم نہ ہو، تاکہ خوشگوار ماحول میں مثبت مکالمے کا عمل جاری رہ سکے۔ اس ذیل میں ہمیں اپنے مذہب پسند دوستوں سے یہی گلہ ہے کہ وہ اس مکالمے میں کچھ اس قسم کے کلیشوں کی تکرار سے آگے نہیں بڑھتے نظر نہیں آ رہے کہ فلاں مذہب مخالف ہے اور فلاں خدا بیزار، فلاں سیکولر انتہا پسند ہے اور فلاں لبرل فاشسٹ یا پھر فلاں مغربیت زدہ ہے اور ہماری روایات و اقدار اور نظریات کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ جہاں ہم کھڑے ہیں وہاں سے منظر کچھ یوں نظر آتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے مظاہر تو ہم سب کے سامنے ہیں لیکن یہ لبرل انتہا پسندی کی تکرار محض الزام ہی معلوم ہوتی ہے۔ پرانے بادہ کش تو خیر کب کے اٹھے جاتے ہیں اور جہاں تک ہماری نسل کا سوال ہے تو یارانِ قدح خوار کبھی جبراً جام ہماری طرف نہیں بڑھاتے۔ دوسری طرف جہاں تک وطنِ عزیز کی بات ہے تو مسجد میں بارہا ایسا ہوا کہ کسی معصوم اور بے ضرر ’انتہا پسند‘ نے اپنی نیک نیتی سے مجبور ہو کر شیطان کو بساط جمانے سے روکنے کے لئے عین نماز کے دوران ہمارے سر پر ٹوپی رکھ دی جو ہم نے اگلے ہی سجدے میں جوابی وار کی خاطر جان بوجھ کر الٹ دی۔ جہاں تک امتِ مسلمہ کا سوال ہے تو ایامِ حج میں عین حرم کے بیچ ایک ایک باریش جلالی بزرگ غصے میں لال بھبھوکا ہوتے ہوئے ہماری بیگم کے چہرے کی طرف بار بار اشارہ کرتے ہوئے ہمیں ( اپنے بقول) خدا کا یہ حکم سنا چکے ہیں کہ ہمیں بطور ”قوام علی النسا“ انہیں وہی پردہ کرانا چاہیے جسے وطنِ عزیز کی رائج مذہبی بھاشا میں ’شرعی پردہ‘ کہا جاتا ہے۔

قصہ مختصر، لے دے کہ ہمارے مذہب پسند دوستوں کے پاس اپنے لڑکھڑاتے ہوئے مبہم اظہار کے لئے فحاشی، بے حیائی، بے راہ روی جیسے الزامات کی علامتی بیساکھیاں ہیں جن کے سہارے چلنے کو وہ استدلال سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہاں وطن عزیز میں یہ روایت ضرور ہے کہ اگر کچھ بھی کام نہ آئے تو اپنے مخالف پر نظریہ پاکستان کی مخالفت کا الزام بطور ترپ کاپتہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ استدلال کی بنیادیں یہی ہیں کہ ایک ایسا سماجی خاکہ متصور کیا جا رہا ہے جو ایک خاص طبقے کے ذہن میں موجود روایات و اقدار کو جبر و استبداد سے نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ذہن میں موجود متبادل خاکہ دلیل پر مبنی مکالمے کی روایت کو اس طرح زندہ کرنا چاہتا ہے ایک طرف توسماجی رویوں پر مسلسل مثبت نظر ثانی کا عمل جاری رہے اور دوسری طرف کسی الزام و دشنام کے بغیر ہر مکتبہ فکر کو اپنی بات دو ٹوک کہنے کا موقع ملے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس سماجی کشمکش میں بحالتِ مجبوری( بشمول ہمارے ) دونوں اطراف کے شریکِ مکالمہ دوستوں کو نہ صرف کچھ رائج سیاسی و سماجی اصطلاحات کا سہارا لینا پڑ رہا ہے بلکہ اپنے سماجی تناظر میں ان کی تعریف کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ ایسے میں دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ فریقین میں جہاں کہیں بھی ہمیں اپنے تئیں استدلال میں سقم نظر آئے تو اس کی نشاندہی میں دیر نہ کی جائے ورنہ خلطِ مبحث کا اندیشہ ہے۔

اس سلسلے میں مذکورہ بالا تینوں تحریریں ہمیں جس نادیدہ زنجیر میں پروئی نظر آتی ہیں وہ کچھ ایسے مابعد الطبیعاتی مفروضے ہیں جنہیں فاضل مصنفین کسی بھی وجہ سے مکالمے میں واضح نہیں کر پائے۔ جہاں تک لبرل ازم کی بات ہے تو ہماری رائے میں لبرل ازم کی مابعدالطبیعاتی غیرجانبداری (metaphysical neutrality) پر کافی تنقیدی مواد موجود ہے جس کا سرسری سا مطالعہ بھی کم ازکم ہم جیسے کسی سرگرداں طفلِ مکتب کو یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ غیرجانبداری کا یہ دعوی بذات خود ایک مابعدالطبیعاتی دعوی ٰ ہے۔ جہاں تک آزاد معیشت کا سوال ہے تو خیر ہم طفلِ مکتب بھی نہیں لیکن بہرحال یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ ا نسان کے شعور و وجود کی ماہیت کو دلیل بناتے، اس کی آزادی کو ماورائے حدود مانتے، ا س کی معروضیت پسندی کو کامل قرار دیتے دعوے اگر مابعدالطبیعاتی نہیں تو اور کیا ہیں؟ ظاہر ہے ان تمام مفروضوں سے جزوی اختلاف اور اتفاق کی راہیں کھلی ہیں اور فی الوقت لبرل ازم پر تنقید ہمارا موضوع نہیں بلکہ صرف اتنا واضح کرنا مقصود ہے کہ دنیا کا کوئی بھی سماجی نظریہ مابعدالطبیعاتی غیرجانبداری کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کرے گا تو اس پر جلد یا بدیر وہی الزم لگے کا جو کسی بھی بے لچک کٹر سماجی فرقے پر لگ سکتا ہے۔ ہماری رائے میں ہر سماج اپنے مخصوص تناظر میں کسی بھی ’ازم‘ کی تشریح کچھ ناگزیر مابعدالطبیعاتی مفروضوں کی بنیاد پر ہی کرتا ہے۔ ان مابعدالطبیعاتی مفروضوں کو قدم قدم پر اس طرح واضح کرنا ضروری ہے کہ رتی برابر ابہام بھی باقی نہ رہے۔ مابعدالطبیعات کا انکار شاعری کا انکار ہے، حسن کا انکار ہے، سچائی اور محبت کی آفاقیت کا انکار ہے۔ انسان سے محبت کے بغیر کونسا سماجی و سیاسی و معاشی نظریہ قائم کیا جا سکتا ہے؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments