موجودہ معاشی مسائل سے کیسے نکلا جائے


ملک کو درپیش موجودہ معاشی مسائل کے حوالے سے دو طریقے اہم ہیں۔ یعنی کم مدتی منصوبہ بندی اور طویل مدتی منصوبہ بندی۔ دونوں میں اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے کہ ملکی معیشت کو کس طرح مضبوط کر کے عوام کو مہنگائی سے ریلیف دیا جائے۔ جس کے لئے کچھ چیزیں ہمیں ماضی سے لینی پڑیں گی جن کا تجربہ خاصا حوصلہ افزا رہا تھا۔ مگر بدقسمتی سے وہ منصوبے جاری نہ رہ سکے۔ ان میں ایک منصوبہ زیڈ اے بھٹو صاحب نے شروع کیا تھا جو عوام کو ریلیف دینے میں بہت مددگار ثابت ہوا تھا۔ انہوں نے ہر گھر کے افراد کے حساب سے راشن کارڈ کا اجراء کیا تھا۔

اس نظام میں بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی کے ان ورکروں کو راشن ڈپو دیے جن کے پاس اپنی دکانیں تھیں۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ نہ تو سٹور کا کوئی کرایہ دینا پڑتا اور نہ ہی حکومت کو اس کے لئے الگ سے ملازمین رکھنے پڑتے۔ راشن ڈپو کے مالک کو حکومت کی طرف سے کمیشن ملتا۔ ہر خاندان کو راشن کارڈ کے مطابق سستے قیمت پر چینی، آٹا اور گھی ملتا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت کس طرح یہ بوجھ اٹھائے۔ اس کے لئے ہمیں سوشلسٹ ماڈل سے کچھ چیزیں لینی پڑیں گی۔

سابق سوویت یونین نے ایک آسان فارمولہ بنایا تھا۔ سامان ضرورت اور سامان تعیش دو درجے تھے۔ جو چیزیں روزمرہ کی ضرورت تھیں ان کی قیمتیں کم اور جو ضرورت نہیں تھی ان کی قیمتیں زیادہ رکھی گئی تھیں۔ کھانے پینے کی چیزیں، بجلی، گیس، علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی ضرورت کی چیزیں یا تو کافی حد تک سستی اور یا مفت تھیں۔ اس کے مقابلے میں سامان تعیش کی قیمتیں بہت اونچی رکھی گئی تھیں۔ جن سے بجٹ کو متوازن رکھتے۔ یہ کام یہاں بھی ہو سکتا ہے۔ پر آسائش گاڑیاں، مہنگے ترین موبائل، ٹی وی، کھانے پینے کی ایسی چیزیں جو ملک میں ہوتے ہوئے بھی باہر سے امپورٹ کرنی پڑتی ہیں۔ ان پر ٹیکس کی شرح بڑھانے سے عوام کو اشیائے ضرورت سستی داموں فراہم کی جا سکتی ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی دور حکومت میں پاکستان کے اندر سارک گیمز کا ایونٹ ہونا تھا۔ اس وقت بھی ملک کے یہی حالات تھے جو آج ہیں یعنی خزانہ خالی تھا۔ اتنے بڑے ایونٹ کے لئے پیسے نہیں تھے۔ حکومت نے اس ایونٹ کے لئے ”سیور ریفل“ کے نام سے ایک لاٹری ٹکٹ متعارف کروایا جس کی قیمت دس روپیہ تھی۔ شروع میں انعامی رقم کم تھی لیکن بعد میں کروڑوں پر چلی گئی۔ اس سکیم سے حکومت کو اچھی خاصی ریونیو ملی اور ساتھ میں ملک کے اندر ہر مہینہ کوئی بندہ کروڑ پتی بھی بنتا گیا۔ اس طرح کی سکیمیں اگر دوبارہ شروع کی جائیں تو اس سے حکومت کو کئی مسائل پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

دنیا کے تمام ممالک میں کھیلوں سے ریونیو حاصل کرنے کا نظام موجود ہے۔ یہاں ایک کھیل پر توجہ ہے اور وہ ہے کرکٹ۔ پی سی بی اپنی مرضی سے چلتی ہے۔ نہ کوئی آڈٹ ہے اور نہ کوئی حساب کتاب۔ پی ایس ایل سے اربوں روپوں کی کمائی ہے لیکن کسی کو پتہ نہیں کہ پیسے کہاں جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو کرکٹ کے معاملات کو شفاف طریقے ٹھیک کرنا ضروری ہے اور اس کے بعد لوکل فنانسرز کے ساتھ مل کر دوسرے کھیلوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں مختلف کھیلوں کا باقاعدگی سے انعقاد ہوتا ہے۔ جس کے بہت سے فوائد ہوتے ہیں۔ پہلے نمبر پر ریونیو کا حصول، دوسرے نمبر پر ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل اور تیسرے نمبر پر بے روزگاری پر قابو پانا۔

اس کے علاوہ کچھ ادارے ایسے ہیں جو حکومت پر بوجھ ہیں اور ان کا کوئی کام بھی نہیں۔ مثلا ڈاک کا نظام۔ یہ نظام اب پوری دنیا میں پرائیویٹ ہو چکا ہے لیکن یہاں چل رہا ہے۔ کوئی بھی ماہر معاشیات اگر پاکستان پوسٹ کا آڈٹ ایمانداری سے کرے تو وہ یقیناً اس محکمے کو ختم کرنے کی سفارش کرے گا۔ اس کو بیچ کر اچھے خاصے پیسے مل سکتے ہیں۔ اس طرح ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی بھی ہیں۔ یہ دونوں ادارے حکمرانوں کی توصیف اور پروپیگنڈے کے علاوہ کوئی اور کام کرتے نہیں۔

ان کو بھی پرائیویٹائز کر کے اچھی خاصی رقم مل سکتی ہے۔ اس طرح اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن ہے جس میں حکومت اپنے شیئر رکھتی ہے۔ اس کو بھی اگر پرائیویٹ کیا جائے تو اچھی خاصی رقم ملنے کی امید ہے۔ ایک اور ادارہ پاکستان سٹیل ملز کراچی جو پچھلے 25 سالوں سے بند پڑا ہے اور ہزاروں لوگوں کو تنخواہیں حکومت کے فنڈز سے جا رہی ہیں۔ سمجھ میں نہیں اتا کہ اس ادارے کو ابھی تک کیوں عوام کے سروں پر بوجھ رکھا گیا ہے پاکستان ریلوے اور پی آئی اے دو ایسے ادارے ہیں جن کے لاکھوں ملازمین تنخواہیں اور مراعات تو لیتے ہیں مگر کام صفر ہے۔ دونوں نقصان میں ہیں۔ ان کو بھی بیچ کر اچھی خاصی رقم حاصل کی جا سکتی ہے۔ ‏

اس کے علاوہ ہمارے پاس ایک اور بھی آپشن ہے اور وہ ہے پاکستانی شہریت ایک معقول رقم یا معقول انویسٹمنٹ کے ذریعے بیچنا۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے ڈھیر سارے ممالک سمیت دنیا میں بہت سے ممالک اپنی شہریت بیچنے کے عوض اچھی خاصی رقم وصول کرتے ہیں۔ پاکستان میں افغانستان کے تیس لاکھ سے زائد شہری تین عشروں سے رہائش پذیر ہیں۔ ایک پوری نسل پاکستان میں پیدا اور جوان ہوئی۔ دو نمبر کاغذات کے حصول کے لئے لاکھوں روپیہ رشوت دیتے ہیں۔

افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد ہوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح لوگ جہاز کے پہیوں سے لٹک کر ملک سے بھاگنے کی کوشش میں ایک یقینی موت کو گلے لگا رہے تھے۔ اگر ان لوگوں کو پاکستان میں ایک معقول رقم کے عوض مستقل رہائش دی جائے تو اس سے پاکستان کے کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق صرف کراچی میں ایک ملین سے زیادہ غیر ملکی غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ یہ سب کراچی میں مختلف کام یا کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن حکومت کو ان سے کوئی آمدن نہیں۔ ان غیر قانونی باشندوں کو طویل مدتی ویزے بھی دیے جا سکتے ہیں۔ جس سے اچھی خاصی امدنی ہو سکتی ہے۔

بیرونی قرضے کسی منصوبے کی تکمیل میں مدد تو کر سکتی ہیں لیکن 22 کروڑ آبادی والے ملک کو قرضوں سے نہیں چلا سکتے۔ اس کے لئے تیزی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ زرعی اصلاحات اور زراعت کو ترقی دینے سے ہم کم وقت میں اپنی مشکلات کم کر سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ہم معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سنبھل نہیں سکتے۔ زندہ قومیں ہمیشہ مشکلات کا مقابلہ کرتی ہیں۔ اب بھی حالات کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے سب سے پہلے نیک نیتی اور دوسرے نمبر پر سرعت سے کام لینا ہو گا۔ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments