سیاستدانوں کی انا ملکی سالمیت کے لیے خطرہ


یہ دنیا بھی ہزار رنگوں میں گرفتار ہے۔ یہاں انسان کے ہزاروں روپ ہیں۔ یہاں پر کسی کو سمجھنا ایسے ہی ہے جیسے انڈیا پاکستان کی عوام۔ مگر پھر بھی یہاں کچھ ایسے انسان موجود ہیں جو انسانیت کی قدر کرتا جانتے ہیں۔ اور وہ ایک دوسرے کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ ہی معاشرہ ہوتا ہے۔ جو چند دنوں میں ترقی کی طرف گامزن ہو جا تا ہے۔ اور دنیا پر اپنا نام پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے ان کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے۔

اور دنیا کی طرح ان کے پاس نہ تو جدید سائنس ہے۔ بلکہ یہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لیے خود را ستے بنانے میں دن رات کام کرتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہیں ہیں یہاں پر ایک انسان کچھ کرنے کی سوچ بھی لے تو معاشرے کا بہت بڑا گروہ اس کی مخالفت میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ تو ایسے میں یہ انسان کچھ کرنے کے بجائے خاموشی کو ہی اپنا ساتھی بنانے میں سکون محسوس کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ میں اگر اپنی ذات سے ذرا بھی باہر نکلا تو مجھے ایسے حالات میں ڈال دیا جائے گا جس سے نکلنے کے لیے ایک عمر لگ جانے کا خطرہ ہو سکتا ہے، ۔

اسی میں سکون ہو گا کہ اپنے گھر کی چاردیواری تک ہی محدود رہنے میں ہی اچھائی ہو گی۔ اب ایسے میں انسان کیا کر سکتا ہے۔ بس اپنی ذات ہی محفوظ رہ جائے تو یہ ہی حقیقت کی زندگی ہوگی۔ اس لیے میں سوچتا ہو کہ اس معاشرے میں رہنا بھی ایک محال کن مرحلہ سے کم نہیں ہے۔ مگر یہ زندگی خدا کی امانت ہے۔ اس میں اللہ کریم کی ذات کے ہزاروں راز چھپے ہوئے ہیں۔ ہم سب کو اس آنکھ سے دیکھنا ہو گا جس میں انسانیت کے لئے ہمدردی ہو۔

تا کہ معاشرے میں مسائل کو اپنی ذات میں رہتے ہوئے دیکھا جا سکے۔ اور حقیقی معنوں میں انسانیت کے معنی کو سمجھا جا سکے مگر یہ تب ممکن گا جب ہم ایک ہی منزل کے راہی ہوں گے۔ یہاں لوگ ایک کلمہ طیبہ پر یقین تو رکھتے ہیں۔ مگر ہزاروں گروپ اور گروہوں میں تقسیم ہونے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔ موجودہ حالات ہی دیکھ لیں سیاست کے نام پر دھبہ نما انسان جو اس ملک کی باک دور کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ان انسانوں نے ایک ہی کلمہ پر یقین رکھنے والوں مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا جیسے آج کا گزرنے والا دن ہم سے اتنا دور چلا جائے اگا جیسے یہ دن ہماری زندگی کا حصہ ہی نہیں تھا۔

یہاں ہر آدمی اپنے آپ کو پاکستانی عوام کا لیڈر سمجھتا ہے اور اپنی باتوں میں ایسے جکڑ لیتا ہے جیسے اس سے بڑا ہمارا اور کوئی رہبر ہو گا ہی نہیں۔ بس اسی وجہ سے آج ہم خانہ جنگی کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جن لوگوں نے ہماری اصلاح کرنی تھی جو ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں وہ لوگ خود اس پاک سرزمین کے دشمن بنتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے ہمارے معاشرے میں نفرت کا وہ بیج بو دیا گیا ہے جس کا پھل ہماری ہر نسل کو زبردستی کھانا ہو گا۔

ہم لوگ اپنے ملکی حالات کو خراب ہوتے دیکھ ر ہیں ہیں۔ ہم ان کو درست کرنے کے بجائے مزید ان کو بگاڑنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ پتا نہیں کیو ہم ہر بات کو چند دنوں میں بھول جاتے ہیں۔ ہم دوسرے ممالک کے حالات جانتے ہیں۔ کیا ہم یہ بھی بھول گئے کہ عراق، شام، لبنان، یمن اور متعدد مسلمان ممالک میں کیا کیا ہوا اور ہو رہا ہے۔ انڈیا میں ہندووں نے جو مسلم سوسائٹی کا کیا حال کیا ہے وہ بھی دنیا جانتی ہے۔ ہم پھر بھی اپنے ہی گھر کو آگ لگانے میں مصروف ہیں۔

یہ جانتے ہوئے کہ آنے والے وقت میں دو وقت کی روٹی بھی ملنا کتنا مشکل ہو گا۔ حالات ابھی سے یہ بتار ہیں کہ مسلمانوں کو ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ جو ہم پچھلی کہی صدیوں سے ایک نہ ہو سکے۔ میری اپنی عوام سے مودبانہ گزارش ہے خدارا ان اقتدار کے بھو کے درندوں کو جاننے کی کوش کرے اور ملک کی سالمیت اور بقا کی دوڑ میں اپنا حق ادا کریں یہ نہ ہو ہم بس اپنی من پسند سیاسی پارٹیوں کے پیچھے لگے رہیں اور یہ لوگ پتلی گلی سے اپنا کام کر کے نکلتے بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments