خواجہ سراؤں کو نفرت کی نگاہ سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟


میں ایک معذور شخص ہوں۔ ویل چیئر پر ہوتا ہوں۔ قلم کو دنیا کا سب سے مضبوط ہتھیار سمجھتا ہوں اور اس کے ذریعے معاشرے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے لکھنے کے سفر کا آغاز 2019 ء میں ”ہم سب“ سے ہوا۔ معذور افراد کے مسائل، انٹرویو اور ان کی زندگی کی کہانیوں پر اب تک میری سوا سو سے زائد تحریریں شائع ہو چکیں ہیں۔ میری تحریروں نے معاشرے میں معذور افراد سے متعلق پائی جانے والی سوچ کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ معذور افراد کے حقوق کے لئے کام کرنے والی دیسی اور انٹرنیشنل این۔ جی۔ اوز پر میری شدید تنقید نے انھیں بھی تھوڑا بہت کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔

اپنے اسی تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے خواجہ سراؤں کے مسائل پر لکھنا شروع کیا۔ خواجہ سراؤں کے مسائل پر میری پندرہ سے زائد تحریریں شائع ہو چکیں ہیں۔ میرے مشن میں اگر کچھ اور لوگ میں شامل ہوجائیں، تو چھ ماہ میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے بہت سی آگاہی عام ہو سکتی ہے۔ یہ آگاہی ہی ہوتی ہے جو آگے چل کر مسائل کے حل کا سبب بنتی ہے۔

ہم نے انڈیا کے ساتھ آزادی حاصل کی۔ ہمارے قیام کے چوبیس سال بعد بنگلہ دیش نے ہم سے آزادی حاصل کی۔ کیا وجہ ہے کہ آج دونوں ممالک ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں زیادہ آگے نکل گئے ہیں۔ محنتی قوم، قدرتی وسائل اور خطے کی مناسب ترین لوکیشن کے باوجود ہم ایشیاء کے پسماندہ ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں؟ ہم آج تک شاید آزادی کی قدر نہ جان سکے۔ ہم نے ملک میں جمہوریت اور جمہوری رویوں کو پروان ہی نہیں چڑھنے دیا۔ خواتین ملک کی آبادی کا پچاس فیصد ہیں۔

معیشت میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ معذور افراد آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔ جو بنیادی انسانی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مذہبی اقلیتیں ہماری آبادی کا مختصر سا حصہ ہیں۔ ان کی عزتوں اور عبادت گاہوں پر آئے دن حملے ہوتے رہتے ہیں۔ خواجہ سراء آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ ان پر وہ ظلم کیا جاتا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔

خواجہ سراؤں سے اتنی نفرت کیوں کی جاتی ہے؟ یہ سوال بڑے عرصے سے میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔ پھر اچانک اس سوال کا جواب مل گیا۔ ہوا کچھ اس طرح کہ دسویں روزے کو خواجہ سراؤں کی معتبر لیڈر صبا گل نے مجھے افطار پر مدعو کیا۔ میں نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور شاہد کو فون کیا اور کہا کہ شام کو میں نے افطار پر جانا ہے۔ صبا گل کا گھر ڈھوک حسو کی تنگ اور نشیبی گلی میں واقع ہے۔ جس میں گاڑی تک نہیں جا سکتی۔ جب ہم گلی تک پہنچے تو میرا ڈرائیور شاہد خواجہ سراؤں کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور کہنے لگا صاحب جی یہ کہاں لے آئے ہو۔

صبا جی نے مجھے اندر لے جانے کے لئے چار لڑکوں کو بھیجا تو شاہد کہنے لگا۔ آپ اکیلے ہی اندر جاؤ میں ان کے ساتھ روزہ نہیں کھولوں گا۔ کچھ دیر بعد میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں یہاں کی کوئی چیز نہیں کھاؤں گا۔ ہال کے ایک طرف ڈیڑھ دو سو خواجہ سراء تو دوسری طرف دس پندرہ جوان لڑکے بیٹھے تھے۔ ان لڑکوں کو دیکھ کر شاہد بولا کہ یہ لڑکے ناجائز فروش ہیں۔ خواجہ سراؤں پر پیسہ لگاتے ہیں۔ پھر ان کے ساتھ ناجائز تعلقات استوار کر لیتے ہیں۔

اذان ہوئی تو میں نے شاہد کو کھانے کے لئے چیزیں دیں جو اس نے کھا لیں۔ کھانا کھانے کے فوری بعد وہ تمام لڑکے کھڑے ہو گئے۔ کسی کے ہاتھ میں کیمرہ تھا، کسی کے ہاتھ میں موبائل تو کوئی مائک تھامے ہوا تھا۔ کوئی خواجہ سراؤں کی تصویریں لینے میں مصروف تھا تو کوئی انٹرویو لے رہا تھا۔ میں نے شاہد سے کہا بھائی تو، تو ان سب کو دو نمبر کہ رہا تھا یہ تو میڈیا کے لوگ ہیں۔ گپ شپ کے دوران شاہد مجھ سے کہنے لگا کہ میں جوانی تک خواجہ سراؤں کو دیکھ کر ڈر جاتا تھا۔ اب ڈرتا تو نہیں ہوں لیکن یہ میرے قریب آ جائیں تو مجھے الٹی آنے لگتی ہے۔ میں فوری طور پر خود کو ان سے دور کر لیتا ہوں۔

شاہد جو باتیں ہم سے کر رہا تھا ہم سب کے ذہنوں میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے اسی قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے خیالات کہاں سے اور کیوں آتے ہیں؟ کیا اس قسم کے غیر انسانی نظریات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے؟

اس غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی کھیل کا آغاز اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب کسی گھر میں خواجہ سرا بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ ہوش سنبھالنے کی عمر میں جب وہ لڑکیوں والی حرکات و سکنات کرتا ہے تو اسے پیار اور ڈانٹ ڈپٹ سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ، مار دھاڑ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ خاندان، محلے اور سکول میں اس کا خوب مذاق اڑایا جاتا ہے۔ چھیڑ چھاڑ کے ساتھ ساتھ جنسی ہراسانی کی کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں یا تو بچہ ہمیشہ کے لئے گھر میں قید ہو جاتا ہے یا پھر گھر چھوڑ کر بھاگ جانے میں اپنی فلاح محسوس کرتا ہے۔

یہ پہلا مرحلہ جس میں اس کے گھر والے، رشتہ دار اور عزیز و اقارب اسے خود سے دور کر دیتے ہیں۔ خواجہ سراء کرائے پر گھر ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو رہائشی علاقوں میں کوئی انھیں گھر کرائے پر نہیں دیتا۔ کیونکہ ایسی صورت میں محلے والے برا مان سکتے ہیں۔ اس کی پراپرٹی کی قیمت بھی گر سکتی ہے۔ خواجہ سراؤں کو جب رہائشی علاقوں میں گھر نہیں ملتا تو یہ انسانی آبادیوں سے دور، قبرستانوں، نالوں وغیرہ کے قریب رہنا شروع کر دیتے ہیں۔

اس طرح دوسرے مرحلے میں ہم انھیں رہائشی علاقوں سے باہر نکال دیتے ہیں۔ تیسرے مرحلے میں گھروں سے بھاگے نوجوان خواجہ سراء جب کوئی عزت والے کام کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کوئی انھیں نوکری دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ کسی مل، فیکٹری، دکان وغیرہ میں کام مل بھی جائے تو عزت کے ساتھ جینے نہیں دیا جاتا۔ لے دے کر پیٹ بھرنے کے لئے ان کے پاس صرف تین ہی کام بچتے ہیں۔ پہلا ناچ گانا، دوسرا بھیک مانگنا اور تیسرا سیکس ورک کر کے پیٹ بھرنا ہے۔

چوتھے مرحلے میں ہمارے معاشرے کے غلط لوگ اور پولیس والے خواجہ سراؤں کے ان ڈیروں کا رخ کر لیتے ہیں۔ انھیں ناجائز فروشی پر لگاتے ہیں۔ ان کے ساتھ زناء کرتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے ڈیروں پر ان افراد کے جانے سے مار پیٹ اور قتل جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ چاروں مراحل مل کر خواجہ سراؤں کو عام لوگوں کے لئے قابل نفرت بنا دیتے ہیں۔ لوگ ان کے قریب جانے اور بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔

ہماری تجویز یہ ہے کہ حکومت ایک پورے سال کو خواجہ سراء، خواتین، معذور اور اقلیتوں کی آگاہی کے حوالے سے مختص کرے۔

خواجہ سراء کون ہیں؟ جنسی خرابیاں کیا ہوتی ہوتیں ہیں جو بچے کو خواجہ سراء بنا دیتی ہیں۔ کامیاب خواجہ سراؤں کی زندگیوں پر ڈرامے، فلمیں اور ڈاکیومینٹریز بنائی جائیں، انھیں خبروں اور اشتہارات میں کاسٹ کر کے میڈیا پر نمائندگی دی جائے۔ کیونکہ آگاہی کے حوالے سے میڈیا سے بڑا کوئی پلیٹ فارم نہیں۔ خواجہ سراؤں کو گھروں سے نکالنے، جائیداد سے بے دخل کرنے اور ہراسانی کے واقعات کا سختی سے نوٹس لیا جائے۔ خواجہ سراء، معذور افراد اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ورک شاپس کا انعقاد کیا جائے۔ مہینے میں کم از کم ایک ایکٹیوٹی ایسی رکھی جائے جس میں ان کے حقوق کے حوالے سے بات کی جائے۔

خواجہ سراء، معذور افراد اور اقلیتوں کی نوکریوں کے کوٹے پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی اس سلسلے میں بھر پور حوصلہ افزائی کی جائے۔ سرکاری اور نجی ہاؤسنگ سکیموں میں تینوں کمیونٹیز کے لئے پلاٹ اور گھر مختص کیے جائیں۔ آسان اقساط پر قرضہ، کاروبار میں معاونت اور پروفیشنل کورسز کے ذریعے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔ علما، مفتیوں اور مولیوں کو ہدایت جاری کی جائیں کہ تینوں کمیونٹیز کے حوالے سے دین کے احکامات کو لوگوں تک بھر پور انداز میں پہنچائیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایک سال کے مختصر سے عرصے میں ہم اپنی چار کروڑ سے زائد کی افرادی قوت کو ترقی کے دھارے میں لے آئیں گے۔ جس سے متوازن معاشرہ تشکیل پائے گا۔ متوازن معاشرے تیزی سے ترقی بھی کرتے ہیں اور دنیا میں اپنا مقام بھی بناتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments