فتح مکہ کا پیغام


فتح مکہ تاریخ انسانی کا انتہائی منفرد دن ہے۔ تاریخ انسانی نے اس سے قبل اور نہ اس کے بعد انسانیت کے شرف کی وہ معراج دیکھی جو فتح مکہ کے موقعہ پہ سرکار دوعالم (ص) نے دکھائی۔ مکہ نبی کریم (ص) کی ولادت گاہ تھی۔ آپ نے اپنا بچپن اور جوانی اسی شہر کی گلیوں میں بسر کی۔ اپنی سب سے محبوب زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ انتہائی خوبصورت یادیں اسی شہر کا حصہ تھیں۔

اسلام کی دعوت نے قریش مکہ کی آنا کے بت کو اس قدر ٹھیس پہنچائی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے رفقا کے لیے مکہ کی سر زمین تنگ کردی۔ نئے موقعوں کی تلاش میں صحابہ اکرام نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ ہجرت کی۔ کفار مکہ مسلمانوں کو اپنی روایات کا باغی سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ ان کے اس عمل کو قابل تعزیر گردانتے ہوئے ان کی ہجرت گاہوں میں بھی ان کے تعاقب میں گئے۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی ناصرف قوت میں قریش مکہ سے بڑھ کر تھا بلکہ حبشہ عرب کے ساتھ کسی آسان خشک راستے کے ذریعے متصل بھی نہ تھا اس لیے قریش وہاں مسلمانوں پہ چڑھائی نہ کر سکے جبکہ دوسری طرف مدینہ میں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو اپنے دفاع میں کئی بار جنگ کرنا پڑی۔ ہر جنگ میں ایک چیز نمایاں نظر آئی اور وہ تھا نبی کریم ﷺ کا غالب رہنے کے باوجود خون ریزی سے گریز کی پالیسی۔

صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی صورت میں پیدا ہونے والی اپر چیونٹی کی صورت میں 20 رمضان سن 8 ہجری نبی کریم ﷺ نے دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ کا محاصرہ کر لیا اور بہترین جنگی حکمت عملی اپناتے ہوئے مکہ بغیر جنگ کے فتح کر لیا۔

بھلا کون سا مکہ؟ جہاں آپ کو جھٹلایا گیا، آپ کے الہامی کلام کے آگے لاجواب ہو کر آپ کو کاہن، سحر زدہ اور مجنون سمجھا، آپ کی اولاد نرینہ کے زندہ نہ بچنے پہ آپ کو ابتر کہہ کر رنجیدہ کیا، راہوں میں کانٹے بچھا کر ، گلی میں گزرتے ہوئے سر پہ کوڑا پھینک کر اور دوران عبادت آپ پہ گندی اونٹ کی اوجھڑی ڈال کر آپ کو ذاتی حیثیت میں اذیت دی گئی۔ وہی مکہ جہاں شعب ابی طالب میں تین برس آپ اپنے صحابہ کی مختصر جماعت کے ساتھ سماجی مقاطعہ کی تکلیف سہنے پہ مجبور رہے لیکن آپ (ص) کے پایہ استقلال میں زرہ برابر لغزش نہ آئی۔

وہ مکہ جہاں قبول اسلام ناقابل معافی جرم تھا۔ ابوجہل اسلام قبول کرنے کی پاداش میں حضرت یاسر اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت سمعیہ (رض) کو مجمع عام میں شہید کر دیتا، جہاں امیہ بن خلف حضرت بلال کے جسم کو جلا دیتا۔ یہ سلسلہ عمار بن یاسر (رض) ، خباب بن الارت (رض) ، صہیب رومی (رض) اور عبداللہ بن مسعود جیسے کمزور لوگوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ حضرت عثمان غنی جیسے متمول افراد بھی اپنے قبیلے کے ہاتھوں اذیت سے محفوظ نہیں تھے۔

پھر وہی مکہ آج ہتھیار ڈالے اپنے قسمت کا منتظر تھا۔ فتح مکہ کے موقعہ پہ قبیلہ بنو خزرج کی کمان حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں تھی۔ جب انھوں نے ابو سفیان کو دیکھا تو پہچان لیا اور جوش میں آ کر انھوں نے کہا ”اے ابوسفیان! آج جنگ کا میدان گرم ہے۔ آج خون کی ندیاں بہیں گی اور حرمت حلت میں بدل دی جائے گی۔ قریش کو اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ذلیل و رسوا کر دیا ہے۔“

کمانڈر کے ان الفاظ پر ابو سفیان جو کہ ایک رات قبل نبی کریم (ص) کے لشکر جرار کے خوف سے نبی کریم (ص) سے پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا خوفزدہ ہو گیا اور فوراً آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ سعد نے یہ اور یہ الفاظ کہے ہیں۔ حضرت سعدؓ کے یہ الفاظ خاص طور پر ابو سفیان کو پریشان کر گئے ”الیوم یوم الملحمہ۔“ یعنی آج کا دن خون کی ندیاں بہانے کا دن ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:الیوم یوم المرحمہ آج خون کی ندیاں نہیں رحمت کا دریا بہے گا۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت سعد بن عبادہ ؓسے منصب واپس لے لیا اور ان کے بیٹے قیس بن سعدؓ کو بھیجا کہ وہ جا کر کمان سنبھال لیں۔

وہ اہل مکہ آج مفتوح کی حیثیت سے سرنگوں کھڑے تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر حبشہ اور مدینہ کی جانب ہجرت پہ مجبور کیا، جنہوں نے بدر، احد اور خندق میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے زمین آسمان ایک کر دیا تھا۔ ان میں ایک طرف وہ ابوسفیان بھی تھا جو احد اور خندق میں لشکر جرار لے کر گیا۔ دوسری طرف وہ حبشی غلام وحشی بھی تھا جس نے حضرت حمزہ (رض) کو نیزہ مار کر شہید کیا اور تیسری سمت وہ ہندہ زوجہ ابوسفیان بھی کھڑی تھی جس نے نبی کریم ﷺ کے چچا کا جگر نکال کر اپنے غلیظ دانتوں سے چبا لیا تھا۔ چوتھی سمت عکرمہ بن ابو جہل، سہیل بن عمرو جیسے افراد بھی تھے جن کی اسلام مخالفت کی حد کا شمار بھی ممکن نہ تھا۔

اہل مکہ کی آنکھوں کے آگے پچھلے دو عشرے ایک فلم کی طرح چل رہے تھے اور مروجہ قوانین کے تحت وہ اپنا انجام بھی خوب جانتے تھے۔ نبی پاک (ص) ان سے پوچھا: ”آج تم مجھ سے کس سلوک کی امید لگائے بیٹھے ہو؟“ تو اہل قریش نے معرفت سے بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا: جو یوسف (ع) نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا ”یعنی انہوں نے خود کو غلطی پہ تسلیم کرتے ہوئے ندامت کا اظہار کیا۔ اس پہ نبی کریم (ص) نے سیدنا یوسف (ع) کے جواب کو دہراتے ہوئے فرمایا:“ جاؤ آج تم سب آزاد ہو تم سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔ ”

امت نے اپنے رویوں میں نہ اپنوں کے لیے نہ غیروں کے لیے رحم، عفو درگزر اور معاف کرنے والے اعمال صالح کو جگہ نہیں دی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اہل اسلام کی تنگ دلی اور سنگدلی سے اسلام کے دامن میں چھید کیا۔ یہ دن محض مکہ فتح کرنے کا دن نہیں ہے بلکہ یہ دل فتح کرنے کا دن بھی تھا۔ تاریخ نے دیکھا کہ نبی کریم (ص) کی وفات کے بعد عالم اسلام فتنہ ارتداد کی لپیٹ میں آ کر منحرف ہو گیا لیکن جن کے دل مفتوح تھے وہ قائم رہے اور اسلام کی قوت بنے۔ یہ دن معاف کر دینے کی سنت رسول کو اپنے رویے میں ترجیح دینے کا دن ہے۔ یہ دن عیدین کی طرح عالم اسلام میں معافی کے دن کے طور پہ منایا جانے لائق ہے۔

بلاشبہ یہ دین رحمت ہے۔ اور ہادی برحق جناب حضرت محمد ﷺ رحمت العالمین ہیں۔ اگر ریاستی سطح پہ اسلام نافذ کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنے رویوں میں اسلام کو جگہ دی جائے۔ ہم اپنے اردگرد وہ اس گریس کا مظاہرہ کریں جس کا نبی کریم (ص) نے فتح مکہ کے موقعہ پہ کیا تھا۔ ساتھ ہی ریاست بھی اپنے شہریوں سے جو ریاستی حکمت عملی سے ناراض ہو کر مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں ان کے بارے اسی رویے کا مظاہرہ کریں۔ تلوار دلوں کو چیر سکتی ہے جبکہ معافی چیرے ہوئے دلوں پہ مرہم کا کام کر کے جوڑ سکتی ہے۔ ریاستیں تبھی مضبوط ہوتیں اگر شہری اس سے جڑ کر رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments