اگر ریاست بچانی ہے تو


میں نہ تو معاشی ماہر ہوں نہ نجومی یا سیاسی پنڈت، جو ٹی وی پر بیٹھ کر سیاست دانوں اور ملک و قوم کے مستقبل کی پیشگوئی کرتا رہوں۔ البتہ جو کچھ سامنے دیکھتا ہوں۔ اپنی سمجھ بوجھ اور تجربے کی بنیاد پر اس کا تجزیہ کرتا ہوں۔ مگر یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ جو محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں نہ کسی کو خوش کرنے کے لئے نہ کسی کو ناراض کرنے کی غرض سے، کیونکہ ہمارا رشتہ ملک و قوم اور ریاست سے ہے سیاست سے نہیں۔ آج بھی جب درجن بھر پارٹیاں اپنی اپنی سیاست بچانے اور نیم درجن ادارے اپنی ادارتی ساکھ بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔

ہم وہی لکھتے ہیں جو اس وقت اس بے چارے ملک و قوم کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اس میں تو کوئی شک نہیں کہ دو ہزار تیرہ کے بعد ملک نے معاشی استحکام کی جانب سفر شروع کر دیا تھا جسے غیر فطری اور غیر جمہوری انداز سے روک کر اس کا ستیا ناس کر دیا گیا۔ آج ہم جس سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں یہ دو چار دن کی بات نہیں ہے بلکہ اس کی شروعات دو ہزار چودہ دھرنے سے ہوئی ہے۔ میرے منہ میں خاک مگر آج جب ملک کی مثال سری لنکا جیسی تباہی کے ساتھ دی جا رہی ہے تو بے جا تو نہیں، اس لئے تو شاعر فرماتے ہیں کہ۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

آج ہم سیاست کی بجائے معیشت کے لئے چند ایسی تجاویز دیتے ہیں جو اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں سے پاک عام فہم اور نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی کی نظر سے میری تجویز ہے کہ تمام حکمران پارٹیاں آئندہ انتخابات اور ووٹر کو خوش کرنے کی کوشش ترک کر کے ملکی معیشت کے لئے درجہ ذیل ٹھوس مگر سخت فیصلے کرنے کے لئے آگے آئیں۔ اور متفقہ طور پر درجہ ذیل فیصلے کر کے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرے۔ تاکہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہو۔

1۔ ادویات اور بچوں کی دودھ کے علاوہ ہر قسم کی درآمدات پر دو سال کے لئے پابندی لگائی جائے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی استثناء نہ ہو

2۔ سکول کالج اور سڑکوں سمیت تمام نئے ترقیاتی کاموں کو دو سال کے لئے موخر کر دیا جائے جاری پراجیکٹ میں بھی صرف پیداواری پراجیکٹ کو ترجیح دے کر مکمل کیا جائے۔

3۔ صدر گورنرز، وزیراعظم وزراء اعلی سمیت تمام اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات کو پچاس فیصد کم کیا جائے، کیونکہ یہ لوگ عوامی خدمت کے نام پر سیاست کرتے ہیں پیسے کمانے کے لئے نہیں۔ اس طرح معاشی بچت کے علاوہ سیاست میں کشش اور چمک بھی نسبتاً کم ہو جائے گی۔

4۔ تمام سرکاری محکموں میں موجود پچاس فیصد گاڑیوں کو فوری طور پر نیلام کیا جائے، گریڈ سترہ سے اوپر انتظامی و دیگر افسران کو سرکاری گاڑی لینے یا اپنی گاڑی میں سرکاری پیٹرول ڈلوانے میں سے کسی ایک آپشن پر مجبور کیا جائے۔

5۔ آئندہ دو سال کے لئے سرکاری دفاتر میں پرتعیش اشیاء جیسے ائر کنڈیشنز ریفریجریٹر، ٹی وی اور قالین وغیرہ خریدنے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ اور بجلی کا بل کم کرنے کے لئے موجود ائر کنڈیشنز کے استعمال کو محدود کیا جائے۔

6۔ تمام شہروں میں موجود ایک کنال اور اس سے بڑے گھروں پر بلا تفریق ون ٹائم ٹیکس لگایا جائے۔ ایک کنال پر دو لاکھ اور اس سے بڑے گھر والوں سے پانچ لاکھ روپے لے کر سرکاری خزانے میں جمع کیا جائے۔

7۔ کسان اور جاگیر دار میں فرق کرتے ہوئے دس ایکڑ سے زیادہ کے زمین مالکان پر فی ایکڑ کے حساب سے یکمشت ٹیکس لاگو کیا جائے۔

8۔ اٹھارہ سو سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ون ٹائم بھاری ٹیکس لگایا جائے۔ کیونکہ جو بندہ کروڑوں کی گاڑی رکھ سکتا ہے اور ماہانہ لاکھوں کا پیٹرول خرچ کر سکتا ہے وہ اگر ملکی معیشت بچانے کے لئے پانچ چھ لاکھ کا ٹیکس دے تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔

9۔ سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج و تعلیم پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ البتہ پہلے سے زیر تعلیم طلباء و طالبات کو متاثر نہ ہونے دیا جائے۔

01۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام کو مکمل منجمد کیا جائے اور اے آئی پی کے نام سے اربوں کی بندر بانٹ کو مکمل بند کر کے اس کا آڈٹ کیا جائے۔

11۔ اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی ممبران کو کسی بھی قسم کا ترقیاتی فنڈز ہمیشہ کے لئے بند کیا جائے تاکہ مقامی بلدیاتی نظام کو استحکام نصیب ہو۔

21۔ پنشن کی ادائیگی کو ملازم کی زندگی یا زیادہ سے زیادہ بیوہ تک محدود کیا جائے۔ تاکہ نصف صدی پہلے ریٹائرڈ ہونے والے اور تیس چالیس سال پہلے فوت ہونے والوں کے پنشن کا بوجھ کم ہو سکے۔

31۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پنشن ایبل سرکاری نوکریوں پر پابندی لگائی جائے۔

41۔ کسی بھی سیاسی شخصیت کو بیک وقت ایک سے زیادہ حلقوں سے انتخابی امیدوار بننے پر پابندی لگائی جائے۔ یا جیت کے بعد استعفی کی صورت میں حلقے میں دوبارہ انتخابات کا خرچہ مذکورہ شخص سے وصول کیا جائے۔

مجھے امید ہے کہ اگر خلوص نیت سے درجہ بالا اقدامات کو عملی جامہ پہنایا گیا تو ملک دیوالیہ ہونے سے بچ کر معاشی استحکام کی طرف جاسکتا ہے۔ مگر سیاسی استحکام کے لئے جلد از جلد انتخابات کرانا بھی ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments