پلکوں سے کرچیاں اٹھانے کا وقت


غالب خوش نصیب تھے کہ خواب ہی میں سہی، خیال کو خوشی سے معاملہ تو رہا۔ ہماری خاک پریشاں تو بیدل دہلوی کی لحد سے اٹھائی گئی۔ ہر کجا رفتم، غبار زندگی در پیش بود۔ درویش ایک مدت سے بے خوابی میں مبتلا ہے۔ ضمیر کا بوجھ اور کوتاہ قدمی کا ملال اپنی جگہ مگر آدھی درجن خواب آور دوائیں پھانک کے رات کے آخری پہر تکیے پر سر رکھتا ہوں تو دن بھر کی کلفت نیند کے منطقے میں مداخلت کرنے چلی آتی ہے۔ فرائیڈ نے کہا تھا کہ خواب ہماری خفتہ خواہشوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ مجھے اختلاف ہے۔ کم از کم خواب کی تعبیر کے ضمن میں میرا تجربہ کارل یونگ (Carl Jung) کی تشریحات سے مطابقت رکھتا ہے۔ آپ کو تو خوب یاد ہو گا کہ سوئس نفسیات دان نے کہا تھا Who looks outside, dreams; who looks inside, awakes. ۔ کیسا اچھا ہو اگر اس کا ترجمہ بیسویں صدی کے پنجابی شاعر منظور حسین جھلا کے لفظوں میں کیا جائے، لگی والیاں نوں نیند نہیں آﺅندی، تیری کیویں نی اکھ لگ گئی۔ درویش کے خوابوں میں ایک بستی ہے جس کے مکان ادھورے ہیں یا کھنڈر ہیں۔ مجھے راستے معلوم نہیں ہوتے۔ بار بار بھٹکتا ہوں۔ سفر درپیش ہے اور سواری کی خبر نہیں۔ نلکوں میں پانی نہیں آ رہا۔

گزشتہ رات کی افتاد سنیے۔ صبح کالم لکھنے کی فکر تھی۔ خواب میں لکھنے کا کاغذ نہیں مل رہا۔ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر کچھ نکات لکھے تھے، انہیں کسی دہلیز پر رکھ کے بھول گیا۔ اب جو ڈھونڈنے نکلا تو اجنبی گلیوں کا ایک سلسلہ ہے جہاں کوئی آشنا صورت تک دکھائی نہیں دیتی کہ کلام کر سکوں اور اگر پوچھوں بھی تو کیا کہوں گا؟ اٹکل پچو سطریں ایک کٹے پھٹے صفحے پر لکھی تھیں، ان کی کیا پہچان بتاﺅں؟ کارل یونگ نے آرکی ٹائپ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ خوابوں کے علائم (Image) اور موضوعات (theme) اجتماعی لاشعور سے جنم لیتے ہیں۔ آرتھر کوئسلر (Arthur Koestler) نے یونگ کے نظریے کی روشنی میں اپنا ایک خواب بیان کرتے ہوئے اسے موت اور کائناتی تشدد کے مقابل فرد کی حتمی تنہائی کا اشارہ قرار دیا تھا۔ یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔ درویش حقیر اپنے خوابوں کو شہری کے خلاف ریاستی جرائم کا استعارہ سمجھتا ہے۔

آئیے وطن کی خبر لیں۔ ہماری موجودہ حکومت دستور کی شق 95 کی روشنی میں تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد قائم ہوئی اور پارلیمنٹ کو اگست 2023 تک دستوری میعاد دستیاب ہے۔ زمینی صورت حال مگر مختلف ہے۔ وفاق میں صدر مملکت اور حکومت میں خاموش کشمکش جاری ہے۔ صدر نے عدالت عظمیٰ کے نام ایک مکتوب میں وفاقی حکومت کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے کی استدعا کر رکھی ہے۔ تحریک انصاف کے قریب 125 ارکان قومی اسمبلی نے استعفے دے رکھے ہیں لیکن اسپیکر سے ان کی تصدیق کرانے پر آمادہ نہیں۔ تحریک انصاف نے ایوان بالا سے مستعفی ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا منصب تادم تحریر عدالت میں زیر سماعت ہے۔ بارہ کروڑ کے صوبے میں گورنر موجود نہیں، صوبائی کابینہ کا نشان نہیں۔ سندھ میں نامزد گورنر نسرین جلیل ابھی حلف نہیں اٹھا سکیں۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت موجود ہے سو وفاق اور صوبائی اکائی میں تعاون کی صورت معلوم۔ بلوچستان میں مدت سے اسمبلی اور حکومت سمیت کل بندوبست ’ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘ کے عالم سکرات میں ہے۔ عمران خان نے ملک کے طول و عرض میں جلسوں کی لین ڈوری باندھ دی ہے۔ اسے احتجاج کہیے یا انتخابی مہم، عمران خان فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور 20 مئی کے بعد اسلام آباد میں طویل مدتی احتجاج کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ہیئت مقتدرہ بار بار سیاست میں مداخلت سے ہاتھ کھینچنے کا اعلان کر رہی ہے لیکن عمران صاحب کا شکوہ ہی یہ ہے کہ ان کے حق میں ماورائے دستور مداخلت کیوں نہیں کی جاتی۔ نجی مجلسوں میں ان کے فرمودات نقل نہیں کیے جا سکتے لیکن ہر خاص و عام کے علم میں ہیں۔ عمران خان اب ایک سیاسی فریق کی بجائے اجتماعی نفسیاتی روگ بن چکے ہیں۔ کچھ زیر زمین معاملات ایسے حساس ہیں کہ ان کا ذکر نہ کرنا بہتر ہے۔ وفاقی حکومت بے دست و پا دکھائی دیتی ہے۔

یہ تو رہا سیاسی منظر۔ معیشت کا بحران اس سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔ ہماری دیرینہ معاشی تحدیدات سے قطع نظر، عمران حکومت نے 28 فروری کو عالمی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود اور آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں دس روپے فی لٹر اور بجلی کی قیمت میں پانچ روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کر دیا نیز یہ بھی بتا دیا کہ آئندہ بجٹ تک یہ قیمتیں بڑھائی نہیں جائیں گی۔ یہ اقتصادی طور پر ایک تباہ کن اقدام تھا اور اس کا مقصد ممکنہ عدم اعتماد کی صورت میں آئندہ حکومت کو مفلوج کرنا تھا۔ اڑھائی ماہ میں سبسڈی کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا خوفناک امکان پیدا ہو گیا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات تار عنکبوت سے معلق ہیں۔ کوئی دوست یا دشمن ایک ٹکہ دینے کا روادار نہیں۔ غیر معاشی سوچ کے حامل تجزیہ کار اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں لیکن ایسا کرنے سے معاشی بحران رفع ہونے کی بجائے مزید خوفناک ہو جائے گا۔ عاجز معیشت کی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا لیکن جانتا ہے کہ معیشت کی منطق بے رحم ہوتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ عوام کو اعتماد میں لے کر سخت معاشی فیصلوں کا کڑوا گھونٹ بھر لیا جائے۔ معیشت کو سیاست سے منفک نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کو معیشت سمجھاتے ہوئے یہ بھی بتانا چاہیے کہ ’دو برس کی محنت‘ سے کانچ کے جو بلوریں برتن ہمارے ایوانوں میں سجائے گئے تھے، اب پلکوں سے ان کی کرچیاں چننے کا وقت آ گیا ہے۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے، عزت دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments