محترم سیاستدان ایک رات یہ سوچ کر دیکھیں


مسجد نبوی میں وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کے جانے کے موقع پر ایک ناخوشگوار واقعہ ہوا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کے کئی ممبران پر بلاسفیمی کے قانون کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ اس پر مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن نے مذمتی بیان جاری کیا کہ مذہب کا استعمال کر کے اس طرح کے مقدمات قائم نہیں کرنے چاہییں تھے۔ تحریک انصاف کی قیادت اور کئی صحافیوں نے بھی اس کی مذمت کی۔ تحریک انصاف کی سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری صاحبہ نے اقوام متحدہ کے عہدیداروں کو ایک خط بھی لکھا ہے کہ ان واقعات کی بنا پر عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کے دوسرے ممبران پر اس قسم کے مذہبی مقدمات قائم کرنے سے ان کی زندگیوں کو خطرہ ہو گیا ہے۔ اس لئے اقوام متحدہ مداخلت کر کے ان مقدمات کا سلسلہ رکوائے۔

تحریک انصاف کے دور میں طاہر اشرفی صاحب کو بہت ممتاز عہدوں پر فائز کیا گیا تھا۔ انہیں پاکستان علماء کونسل کا چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان صاحب کا نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ اور بین المذاہب ہم آہنگی مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے شیریں مزاری صاحبہ کے اس خط کی مذمت کی اور کہا ان مقدمات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اس خط کو بنیاد بنا کر بین الاقوامی سازش کرنے والے اس قانون کو کمزور بنانے کی کوشش کریں گے۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ طاہر اشرفی صاحب کو مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے تنخواہ ملتی تھی اور ان کے برادر اصغر حسن معاویہ صاحب نے درجنوں افراد پر بلاسفیمی کے مقدمات درج کرائے تھے تاکہ طاہر اشرفی صاحب کا دفتر مصروف رہے۔ اس وقت محترمہ شیریں مزاری صاحبہ انسانی حقوق کی وزیر کے عہدے پر متمکن تھیں۔ افسوس مصروفیات کی وجہ سے انہیں ان مقدمات کی مذمت کا موقع نہیں ملا۔ ورنہ ممکن تھا کہ وہ اس سلسلہ کو روکنے کے لئے موثر آواز اُٹھاتیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی اسی رپورٹ میں یہ المیہ بھی درج ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے لیاقت علی صاحب نام کے ایک شخص کو بلاسفیمی کے مقدمہ میں بے گناہ قرار دے دیا۔ انصاف ہو گیا لیکن انصاف کے حصول میں کتنی دیر لگی۔ ملاحظہ فرمائیں یہ شخص گیارہ سال تک جیل میں سڑتا رہا۔ اور ٹرائل کورٹ میں کس نے اس کا مقدمہ لڑا؟ کسی نے نہیں۔ کوئی وکیل تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ وکلا جو آئین اور قانون کی سربلندی کے لئے سڑکوں پر دھینگا مشتی کرتے رہتے تھے وہ کہاں سوئے ہوئے تھے؟ کیا کسی بار نے مذمت کی قرارداد منظور کی ؟ کیوں کرتی؟ کوئی کیمرہ نہیں دیکھ رہا تھا۔ کوئی چینل انٹرویو نہیں کر رہا تھا۔ کوئی اینکر مائیک لے کر سامنے نہیں کھڑا تھا۔

ایک اور مقدمہ میں انصاف کا بول بالا ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ نے ایک مسیحی جوڑے شگفتہ کوثر صاحبہ اور شفقت مسیح صاحب کو بھی بلاسفیمی کے مقدمہ میں بری کر دیا۔ ان کی سزائے موت ختم ہوئی۔ انصاف کا سایہ ہمیشہ سلامت رہے۔ کتنی دیر لگی؟ فقط آٹھ سال جیل میں رہنے کے بعد یہ جوڑا اہل انصاف کو دعائیں دیتا ہوا قید سے رہا ہوا کہ انہیں بے قصور قرار دیا گیا ہے۔ شفقت مسیح صاحب معذور بھی ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ ان کے چار بچوں نے ارباب حل و عقد کو اس فوری انصاف مہیا کرنے پر کتنی دعائیں دی ہوں گی۔

ہماری رواداری اور مذہبی آزادی کی جے ہو۔ کاش اہل مغرب ہم سے کچھ سیکھ لیں اور اپنے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں سے برا سلوک نہ کریں۔ بہر حال اگر اب شیریں مزاری صاحبہ کو یہ خیال آ گیا ہے کہ وہ ان مقدمات کی مذمت کریں جو مذہب کی بنیاد پر تحریک انصاف کے لیڈروں پر قائم کئے گئے ہیں اور انہیں اس کا اتنا دکھ ہوا ہے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کو بھی اپیل کی ہے تو انہیں یہ یاد کرانا ضروری ہے کہ خود پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 2021 میں 585 افراد پر بلاسفیمی کے مقدمات قائم کئے گئے تھے۔ ذرا مجھے سوچنے دیں کہ اس وقت پاکستان میں انسانی حقوق کا وزیر کون تھا ؟ اوہو! یاد آیا اس وقت یہ قلمدان محترمہ شیریں مزاری صاحبہ کے پاس تھا۔ آپ نے آج اقوام متحدہ کو خط لکھا ہے کہ اس طرح عمران خان صاحب کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ عمران خان صاحب تو لاکھوں مداحوں میں گھرے ہوئے ہیں، زیادہ خطرہ تو ان بے کس ملزمان کو تھا جن کا مقدمہ لڑنے کو بھی کوئی تیار نہیں ہوتا تھا۔

شیریں مزاری صاحبہ کی وزارت کے عہد میں ایک ورلڈ ریکارڈ بھی بنا۔ رحیم یار خان میں ایک آٹھ سال کے ہندو لڑکے پر بلاسفیمی کا مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ اس کا جرم کیا تھا؟ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے ایک مدرسہ کی لائبریری میں پیشاب کیا تھا۔ کیا اس وقت شیریں مزاری صاحبہ نے صدائے احتجاج بلند کی تھی ؟ کئی اینکر صاحبان ہیں جن کے اشتہارات ہم چوبیس گھنٹے سنتے ہیں کہ  احباب ان کے دبنگ، نڈر اور بے باک تجزیوں سے ضرور مستفید ہوں۔ یہ دبنگ،نڈر اور بے باک تجزیے اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب کسی پر بلاسفیمی کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا جاتا ہے؟

ہر شخص کو جس پر بلاسفیمی کا الزام ہو،جیل میں نہیں رکھا جاتا۔ مثال کے طور پر سری لنکا کے ایک باشندے پر جب یہ الزام لگا تو اسے جیل میں نہیں رکھا گیا تھا بلکہ سڑک پر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بہر حال جو واقعہ مسجد نبوی میں ہوا وہ قابل مذمت تھا لیکن جس طرح مذہبی الزامات لگا کر عمران خان صاحب اور ان کے ساتھیوں پر مقدمات قائم کئے گئے ہیں، یہ بھی قابل مذمت ہے۔ اس طرح ایک اور خطرناک روش کا اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن میری محترم عمران خان صاحب، محترمہ شیریں مزاری صاحبہ اور ان کے ساتھیوں سے گذارش ہے کہ کسی رات کو کمرہ بند کر کے، رات کی تنہائی میں، اپنے ضمیر کو حاضر کر کے اپنے آپ سے سوال کریں کہ اگر خدانخواستہ، خاکم بدہن انہیں اس طرح کے مقدمات میں ملوث کر کے پابند سلاسل کر دیا جائے۔ کوئی وکیل ان کا مقدمہ لڑنے کی حامی نہ بھرے، ان کے سروں پر سزائے موت کی تلوار لٹکتی رہے اور آٹھ دس سال جوتیاں چٹخانے کے بعد کوئی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ انہیں باعزت طور پر بری کردے کہ آپ تو معصوم ہیں۔ تو ان پر، ان کے عزیزوں کے دلوں پر اور ان سے محبت کرنے والوں کے دلوں پر کیا بیتی گی۔ اور میری یہی گذارش ملک کے باقی سیاستدانوں سے بھی ہے کہ وہ ایک رات اگلے جلسے کی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے، اس زاویہ پر سوچیں۔ اور دل کی گہرائیوں سے کوئی جواب موصول ہو تو قوم کو ضرور مطلع فرمائیں کیونکہ آپ سب جلسوں میں اکثر کہتے ہیں کہ میں قوم سے کچھ نہیں چھپائوں گا۔ حقائق سچ سچ بیان کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments