عمران خان کو ملکی معاشی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے


وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے فوری طور سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت فوری طور سے نہ بڑھانے کا اعلان کیا ہے تاہم اس کے بعد ملکی معاشی معاملات میں کچھ پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کو مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ یا تو اب کچھ مشکلات برداشت کرکے طویل المدت سہولت کا اہتمام کرلیا جائے یا پھر فوری ریلیف دے کر ملک کو مکمل معاشی تباہی کی طرف دھکیل دیا جائے۔

بلاول بھٹو زردار ی کا یہ اعلان پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ کا اشارہ ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت مکمل طور سے بےیقینی اور تعطل کا شکار ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے فوری طور سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ انہوں نے تو عالمی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے وزیر اعظم کو مشورہ دیا تھا کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ تاہم شہباز شریف اس فیصلہ کو عوام کے لئے بڑا بوجھ سمجھتے ہیں اور فوری طور سے اس کی منظوری دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

وزیر داخلہ رانا ثناللہ نے اس حوالہ سے زیادہ کھل کر بات کی ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ملک کی معاشی صورت حال کے تناظر میں مشکل فیصلے ضروری ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) تن تنہا ان فیصلوں کا سیاسی بوجھ اٹھانے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اتحادی حکومت میں شامل دیگر پارٹیاں بھی اس معاشی اقدام کی سیاسی قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ان کا مؤقف ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اس فیصلہ میں شریک ہوگی تب ہی ملکی معیشت کے لئے اہم فیصلے کئے جاسکیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر مسلم لیگ (ن) کی اسی خواہش کے جواب میں سامنے آئی ہے جو ملکی معیشت، پاکستان کی عالمی رینکنگ، اتحادی حکومت کے اتحاد و اشتراک اور قرضوں کی ادائیگیوں کی راہ ہموار کرنے کے لئے اہم قرار دی جا سکتی ہے۔

ایک طرف حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں ملکی معیشت کو موجودہ بھنور سے نکالنے کے لئے کوئی راستہ نکالنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارر رہی ہیں تو دوسری طرف اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان روزانہ کی بنیاد پر پرجوش طریقے سے ایک نئی سازش کا سرا تلاش کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی تباہ کن مہم چلا رہے ہیں۔ گزشتہ روز سیالکوٹ کے جلسے میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں مارنے کی سازش تیار کر لی گئی ہے۔ انہوں نے سازش کرنے والوں کے نام ایک ویڈیو پیغام میں ریکارڈ کروا کے محفوظ کردیے ہیں تاکہ اگر خدا نخواستہ انہیں کچھ ہو گیا تو یہ ویڈیو عوام کے سامنے آ جائے۔ آج فیصل آباد کے جلسہ میں اس سازش کی تفصیل بتانے کے علاوہ انہوں نے اپنے حامیوں سے دو عہد لئے۔ ایک : اگر عمران خان کو کچھ ہوجائے تو عوام ان کی موت کا انتقام لیں اور ویڈیو پیغام میں جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے انہیں قانون کے کٹہرے تک لایا جائے۔ دوئم: عوام کبھی غلامی قبول نہ کریں۔ وہ کبھی ایسے لوگوں کو ووٹ نہ دیں جن کے لیڈروں کی دولت بیرونی ملکوں میں جمع ہے۔

عمران خان بڑی ڈھٹائی سے موجودہ معاشی مشکل صورت حال کی ذمہ داری شہباز حکومت پر عائد کرتے ہوئے دعویٰ کررہے ہیں کہ انہوں نے اسٹبلشمنٹ کو آگاہ کر دیا تھا کہ اگر ان کی حکومت کو آنچ آئی تو ملک معاشی طور سے تباہ ہو جائے گا۔ حالانکہ یہ حقائق ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ عمران حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں اور نااہلی کی وجہ سے معاشی حالات دگرگوں ہو چکے تھے۔ ان کی حکومت کے پاس بھی آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ آئی ایم ایف جن شرائط پر معاشی ریلیف سینے پر آمادہ ہؤا تھا، وہ وہی مشکلات ہیں جن کا اس وقت شہباز حکومت کو سامنا ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا ہے کہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے مارکیٹ قیمت کے مطابق قیمتوں میں رد و بدل کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن عمران خان کو جب یقین ہوگیا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی تو آنے والی حکومت کے راستے میں کانٹے بچھانے کے لئے انہوں نے قوم سے خطاب میں اعلان کیا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں بجٹ پیش ہونے تک اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ روس یوکرائن جنگ کے تناظر میں عالمی منڈیوں میں تیل کی رسد و طلب عدم تعاون کا شکار ہونے کی وجہ سے پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ اس کے باوجود عمران خان نے ذاتی سیاسی فائدے کے لئے ملک کو معاشی تباہی کے گڑھے کی طرف دھکیلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔

اپریل کے دوران پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ نہ کر کے حکومت 75 ارب روپے کی سبسڈی دینے پر مجبور تھی۔ اگر اب بھی ان قیمتوں میں اضافہ کے ذریعے صارفین پر یہ بوجھ منتقل نہ کیا گیا تو مئی کے دوران اس مد میں حکومت کو 125 ارب روپے خسارہ کا اندیشہ ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے اگرچہ ملک کے موجودہ مالی پروگرام کو 6 ارب ڈالر سے بڑھا کر8 ارب ڈالر کرنے پر اصولی طور سے اتفاق کرلیا ہے لیکن اس کی بنیادی شرط وہی ہے کہ حکومت پاکستان ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت کی شرح سے اضافہ کرے۔ اب مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے متبادل راستہ تلاش کرنے کی درخواست کریں گے۔ بظاہر ایسا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ قرضوں کے علاوہ مالی اخراجات کے بوجھ تلے دبی پاکستانی حکومت کے پاس وسائل فراہم کرنے کے کوئی متبادل راستے نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا ہے کہ پاکستان کی درآمدات 75 ارب ڈالر، برآمدات 30 ارب ڈالر ہیں۔ اس طرح ملک کو 45 ارب ڈالر کا سالانہ تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ تارکین وطن کی ترسیلات زر 30 ارب ڈالر ہیں۔ اس طرح یہ خسارہ کم ہوکر 15 ارب ڈالر رہ جاتا ہے لیکن کوئی بھی معیشت اس ضخیم خسارے کے ساتھ توازن پیدا نہیں کر سکتی۔

آئندہ ایک ماہ کے دوران پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے چار ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ اتنی ہی رقم تجارتی خسارہ کو موجودہ شرح پر برقرار رکھنے کے لئے درکار ہوگی۔ اعداد و شمار کے مطابق سابقہ حکومت کے دور میں بجٹ خسارہ 5000 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ یہ ملکی تاریخ میں سب سے بڑا بجٹ خسارہ ہے۔ اسی طرح تجارتی خسارہ 50 ارب ڈالر کی حد عبور کرچکا ہے۔ یہ بھی پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئندہ ایک سال کے دوران پاکستان کو اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے 32 ارب ڈالر چاہئے ہوں گے۔ اس مشکل سے آئی ایم ایف سے کسی معاہدے کے بعد ہی نکلا جا سکتا ہے۔ حکومت نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں سے مالی معاونت کی بات کی ہے۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق یہ بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھی ہے۔ لیکن مبصرین کے مطابق عرب ممالک ہی نہیں بلکہ چین بھی تب ہی مزید سرمایہ فراہم کرنے پر آمادہ ہوگا اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا جائے۔

اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کوئی بھی ادارہ یا ملک کسی معیشت میں اسی وقت سرمایہ منتقل کرے گا جب اسے اس کی حفاظت کا یقین ہو اور وہ یہ دیکھ سکیں کہ کسی ملک کی حکومت معاشی ڈسپلن پر کاربند ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام اسی قسم کے ڈسپلن کو یقینی بناتا ہے۔ آج اسد عمر نے ایک بیان میں موجودہ حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں کسی بھی ملک نے ہاتھ پکڑانے سے انکار کر دیا ہے۔ حالانکہ اس صورت حال کی حقیقی ذمہ داری عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوتی ہے جو سازشی نظریے پیش کر کے خود کو اپنی تمام سیاسی و معاشی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھتے ہیں۔ عمران خان اور اسد عمر جس صورت حال کو موجودہ حکومت کی ناکامی قرار دینے پر اصرار کر رہے ہیں، درحقیقت وہ تحریک انصاف کی حکومت کے جھوٹے وعدوں اور غلط معاشی اقدامات کی وجہ سے پیش آ رہی ہے۔

عمران خان نے قومی خود داری کے خلاف امریکی سازش کے بعد اپنے قتل کی منصوبہ بندی کی سازش کا جو انکشاف کیا ہے، اس کے ثبوت فراہم نہیں کئے ہیں اور نہ ہی وزیر داخلہ رانا ثناللہ کے اس اعلان کے مطابق ایسے کوئی ’ثبوت‘ حکومتی اداروں کو دیے جائیں گے کیوں کہ عمران خان سیاسی میدان میں اپنی اہمیت بنائے رکھنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر ایک نیا جھوٹ گھڑتے ہیں۔ تاہم شہباز حکومت کے پاس عالمی اداروں سے عمران حکومت کے جھوٹے وعدوں کی صورت میں دستاویزی ثبوت دستیاب ہیں۔ سیاسی مقاصد کے لئے ان وعدوں سے انحراف کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ اب پاکستانی عوام کو ’آزادی‘ دلوانے کا نعرہ لگایا جا رہا ہے لیکن جس معاشی خود مختاری کی بنیاد پر یہ آزادی حاصل کی جا سکتی تھی، اس کا راستہ محض وقتی سیاسی مفاد کی وجہ سے مسدود کیا گیا ہے۔ کسی حکومت کی غلطی کو تو معاف کیا جا سکتا ہے لیکن اگر سابق وزیر اعظم نے سیاسی بددیانتی کی وجہ سے پاکستانی عوام کے لئے معاشی مشکلات کا گڑھا کھودا ہے تو حکومت کو ان سے جوابدہی کا قانونی راستہ اختیار کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔

یہ درست ہے کہ سیاسی لیڈر اپنے سیاسی فیصلوں کی جوابدہی کے لئے انتخابات کی صورت میں عوام کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ البتہ عمران خان انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے عوام کے سامنے حاضر ہونا نہیں چاہتے بلکہ وہ ملکی اداروں کو للکار رہے ہیں کہ کسی بھی طرح انہیں دوبارہ اقتدار واپس دلایا جائے۔ گویا وہ خود ہی انتخابات میں جوابدہی کے اصول کو مسترد کر رہے ہیں۔ ویسے بھی انتخابات میں تو سیاسی ناکامی یا غلط فیصلوں کا جواب طلب کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ملکی معاملات میں سیاسی ضد کی وجہ سے جان بوجھ کر تباہ کن فیصلے کرنے والے کسی بھی لیڈر کا احتساب ملکی عدالتوں میں ہونا چاہئے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت عمران خان کے جوشیلے گمراہ کن بیانات سے خوف زدہ ہونے کی بجائے، ان کے عوام دشمن فیصلوں کے مضمرات سامنے لائے اور ان کے خلاف پاکستانی عوام سے دھوکہ دہی کے الزام میں مقدمہ قائم کیا جائے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کی سمری نامنظور کی ہے۔ تاہم انہیں بھی اس بات کا اندازہ ہونا چاہئے کہ موجودہ حالات میں یہ فیصلہ سیاسی مقاصد کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اس طرح وہ خود بھی اسی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں جو عمران خان نے کی تھی۔ حکومت کو حوصلہ مندی سے مشکل فیصلے کرنے چاہئیں۔ لیکن یہ فیصلے صرف آئی ایم ایف کا قرض لینے کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے تک محدود نہیں رہنے چاہئے۔ بلکہ ملکی معیشت کو موجودہ بحران سے نکالنے اور قومی پیداوار میں اضافہ کے نقطہ نظر سے ٹھوس اور پائیدار اقدامات کی صورت میں سامنے آنے چاہئیں۔ شہباز شریف، تحریک انصاف کو میثاق معیشت کی پیش کش کرتے رہے ہیں۔ اب اقتدار ان کے پاس ہے، وہ ایسے قومی میثاق کی داغ بیل رکھ سکتے ہیں۔ اس کے تحت ملک میں طبقاتی تقسیم کم کرنے، مالدار طبقہ کو قومی وسائل میں زیادہ حصہ دینے پر مجبور کرنے اور انتظامی ڈھانچہ میں موجود بےاعتدالیوں کو ختم کرنے کے اقدامات ہونے چاہئیں۔

یہ درست ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت کے خلاف نفرت کی شدید مہم چلائی جا رہی ہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اگر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا فیصلہ کیا ہے تو وہ ایسے دوررس اقدامات کر سکتے ہیں جن سے ملک کے عام شہری کی زندگی میں بہتری کے آثار کی امید پیدا ہو۔ شہباز شریف اور ان کےاتحادی اگر حالات کے عطاکردہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے تو ملک کا مستقبل تاریک ہونے سے پہلے عوام ان لیڈروں اور ان کی جماعتوں کو مسترد کر دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments