مقابل ہے آئینہ


میٹنگ ختم ہوتے ہی میں اس شاندار بلڈنگ سے باہر آ گئی جو دنیا کی ایک مشہور ترین کمپنی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں واقع یہ شہر ویوے میری جائے پیدائش ہے زندگی کے پینتالیس سال میں نے یہیں گزارے کیونکہ مجھے اس کا حسن اور سکون پسند ہے میری ہر شام یہاں جھیل کے کنارے گزرتی ہے آج بھی میں اپنی مخصوص جگہ آ بیٹھی تھی لیکن آج میری توجہ جھیل کے نیلگوں پانی اور اس میں بہتی رنگ برنگی بوٹس کی طرف نہیں تھی۔ میرے ذہن میں ابھی بھی کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کی میٹنگ چل رہی تھی جس میں دس سال بعد ایک بار پھر مجھے پاکستان بطور کنٹری مینیجر بھیجے جانے کی تجویز پیش کی گئی تھی اور جسے میں مسترد کر آئی تھی۔

مجھے آج بھی اپنی زندگی کے وہ چھ ماہ یاد تھے جو میں نے پاکستان میں گزارے تھے۔ کمپنی کا ہیڈ آفس لاہور میں تھا۔ وہ ایک چلچلاتی دوپہر تھی جب میں نے لاہور کے ائرپورٹ سے باہر قدم رکھے تھے۔ سامنے ہی ساندرا بلوخر کے نام کا کارڈ اور پھولوں کا گلدستہ تھامے کمپنی کے دو اعلی عہدیدار کھڑے تھے جس خوش اخلاقی سے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا تھا اس نے مجھے چند لمحوں کو شدید گرمی کے احساس سے بھی بے نیاز کر دیا تھا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار جھلسا دینے والی ہوا کے تھپیڑے اپنے وجود پر برداشت کیے تھے۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے میں نے اپنی جیکٹ اتار دی اس لمحے مجھے لگا میرے میزبانوں سمیت تمام کا تمام ماحول ساکت ہو گیا ہے

پر آخر کیوں

یہ میں اس وقت سمجھ نہیں پائی تھی۔ ائرپورٹ سے آگے بڑھتے ہی میری سماعت کا امتحان شروع ہو گیا یہ امتحان وقتی نہیں تھا بلکہ ان چھ ماہ کے دوران میں جب جب اپنے لگژری سٹوڈیو اپارٹمنٹ سے باہر نکلی مجھے یہ اذیت جھیلنی ہی پڑی تھی۔

میں آج بھی جب ان دنوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ پاکستان ایک دلنواز قوم ہے مگر اس دلنوازی کے باوجود ان کے بیچ رہنا ایک یورپین کے لئے بہت مشکل کام ہے۔ وہاں کا ٹریفک اژدھام اور اس کا شور ایک کہرام کی صورت برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان جانے سے پہلے میں نے سوچا تھا کہ میں اپنی سہولت کے لیے وہاں ایک کار خرید لوں گی اور اسے چلانا بھی سیکھ لوں گی کیونکہ یہاں اور وہاں میں رائٹ اور لیفٹ کا فرق تھا لیکن میں اس بے ہنگم ٹریفک میں ایک دن بھی گاڑی چلانے کی ہمت نہیں کر سکی بھلا ہو میرے جونیئر عباس کا جس نے مجھے پورے چھ ماہ فری پک اینڈ ڈراپ کی سروس دی۔

ایک روز جب میں اس کے ساتھ آفس سے واپس آ رہی تھی تب میں نے سگنل پر ایک موٹر سائیکل والے کو دیکھا جس نے اپنے آگے دو بچے اور پیچھے ایک برقعہ بردار خاتون کو بٹھا رکھا تھا بظاہر پاکستان میں ایسے لوگ عام نظر آتے ہیں لیکن اس میں خاص بات یہ تھی کہ وہ ایک تواتر سے مجھے گھور رہا تھا پہلے میں نے اسے مسکرا کر دیکھا پھر تعجب سے اور پھر گہرے تعجب سے پر وہ مستقل مزاج انسان ٹس سے مس نہ ہوا۔ میں نے عباس سے پوچھا یہ آدمی مجھے ایسے کیوں دیکھ رہا ہے جیسے اس نے زندگی میں پہلے کبھی عورت دیکھی ہی نہیں تو وہ ہنس کر بولا ممکن ہے آپ جیسی پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔ عباس نے وہ بات مذاق میں کی تھی مگر جلد میں نے اس حقیقت کو جان لیا کہ یہ قوم خواتین اور خوراک کے معاملے میں حد اعتدال سے گزری ہوئی ہے۔

مجھے آج تک وہ رات یاد ہے جب عباس مجھے لاہور فوڈ سٹریٹ کی مشہور کڑاہی کھلانے لے گیا تھا۔ دھتورا مرچوں سے بھری کڑاہی کھانا میری برداشت سے باہر تھا اس لیے دو نوالے کھانے کے بعد ہی میں نے ہاتھ کھینچ لیے اور اپنے لیے سادہ چائنیز رائس کا آرڈر دیا لیکن وہ پیسے پورے کرنے کے چکر میں کڑاہی کے پیندے میں لگا مصالحے کا آخری ذرہ تک صاف کر گیا تھا۔ پاکستانیوں کی اکثریت صحت تباہ کر سکتی ہے مگر یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ لگا ہوا پیسہ حرام ہو جائے۔

میں ایک ورکنگ وومن ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ گھومنا پھرنا میرا محبوب مشغلہ ہے جس نے مجھے لاہور کی شدید گرمی میں بھی صرف گھر میں ہی بیٹھے رہنے نہیں دیا تھا۔

گھر سے باہر نکلتے ہی ایک خاص چیز مجھے اذیت پہنچاتی تھی جس سے مجھے زندگی میں پہلے کبھی اس طرح واسطہ نہیں پڑا تھا ویسے تو بہت سی چیزیں مجھے گراں گزرتی تھیں مگر طوعاً و کرہاً برداشت کرنی ہی پڑتی تھیں مثلاً جب جس کا دل چاہا جہاں دل چاہا وہاں تھوک دیا۔ راہ چلتے جو کھایا پیا اس کا ڈبہ چھلکا کاغذ یا لفافہ وہیں پیچھے آنے والوں کے لئے نشان راہ کے طور پر چھوڑ دیا۔ پاکستان میں مردوں کے لئے باتھ روم کی چار دیواری کا ہونا قطعی ضروری نہیں بس ایک دیوار کا سایہ بھی بہت ہوتا ہے۔ لاہور کے گلی محلوں اور بازاروں سے گزرتے میں نے مردوں کے منہ سے پیار اور غصے میں بولتے کچھ کامن ورڈز بہت سنے جن کے بارے میں عباس نے مجھے بتایا کہ ان کا من ورڈز کے لیے صرف ایک کامن ورڈ استعمال کیا جاتا ہے جسے گالی کہتے ہیں۔

سکول سے آتے جاتے بچوں اور مال بردار گدھوں میں مجھے کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا تھا ان بچوں کو دیکھ کر میں نے ہمیشہ یہ بات سوچی کہ منوں وزنی تعلیم کا بوجھ لدا ہے ان بچوں پر پھر اس قوم میں تنظیم کیوں نہیں پیدا ہوتی۔ اتنی عدم برداشت کیوں ہے کہ دس روپے کے ایک نوٹ کے لیے دست و گریباں ہو جاتے ہیں میری اکثر شامیں لاہور کی سڑکوں پر پیدل گھومتے گزرتی تھیں یہ میں نے شروع میں ہی جان لیا تھا کہ وہاں پورے لباس میں نکلے بغیر چارہ نہیں ہے کیونکہ وہاں کے مردوں کو ماس بہت مرغوب تھا وہاں فقیروں کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اذیت کسے کہتے ہیں تپتی ہوئی زمین پر ننگا مڑے ہوئے بازو والا فقیر گھسیٹتا چلا جاتا تھا اور دعائیں فروخت کرتا جاتا تھا۔

یہاں ویوے میں جھیل کنارے بھی کچھ فقیر کھڑے ہوتے ہیں ہاتھوں میں گٹار اور وائلن لیے ہوئے سیاحوں کو موسیقی سے محظوظ کرتے ہیں۔ میں کچھ دیر قریب کھڑے ایک ماوتھ آرگن بجاتے فقیر کی دھن میں گم رہی۔ جلد ہی مجھے کچھ اور دھنیں یاد آئیں جنہیں لاہور میں ڈھول باجے کہا جاتا تھا جس بلڈنگ میں میرا اپارٹمنٹ تھا بدقسمتی سے اس کے بالکل ساتھ ہی ایک شادی ہال تھا شروع شروع میں جب کوئی بارات آتی تو بارات کے رنگین مناظر دیکھتے میں بھی ڈھول کی مست کر دینے والی تھاپ پر مست ہو جاتی تھی اور جیسے جیسے لوگ باہر روڈ پر اچھل رہے ہوتے تھے میں اپارٹمنٹ کی کھڑکیوں کے پیچھے اچھلا کرتی تھی لیکن ایک ہفتے بعد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ روزانہ ڈھول باجے فائرنگ آتشبازی برداشت کرنا نہایت صبر آزما کام تھا گو کہ کھڑکیاں بند رہتی تھیں پھر بھی آوازوں کا بس نہیں چلتا تھا کہ کھڑکیاں توڑ کر اپارٹمنٹ میں گھس آئیں۔

ان سب باتوں کے باوجود مجھے پاکستانیوں کی مہمان نوازی اور خوش اخلاقی بہت زیادہ بھائی تھی۔ ہر مشکل اور پریشانی میں وہ میرے ساتھ رہے اور قدم قدم پر مجھے سنبھالا۔ ایک دن آفس کی سیڑھیاں اترتے میرا پاؤں پھسلا تو باوجود اس کے کہ اس وقت وہاں اکا دکا لوگوں کے کوئی موجود نہیں تھا لیکن مجھے تھامنے کے لئے بیس پچیس مرد نجانے کہاں کہاں سے بھاگے چلے آئے اور اگر جو ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا میں زمین سے اٹھ کھڑی نہ ہوتی تو یقیناً وہ مجھے اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر میری سیٹ پر رکھ آتے۔

وہاں رہنے کے دوران کمپنی کا تمام عملاً میرے ساتھ بہت معاون و مددگار رہا لیکن ایک چیز نے مجھے ہمیشہ حیرت میں مبتلا کیے رکھا کہ آخر حیلے بہانے تراشنے میں ان کا ذہن اتنا زرخیز کیوں ہے۔ بہرحال پاکستانیوں سے مجھے ایک عجیب طرح کی انسیت محسوس ہوتی تھی موسموں اور رویوں کی شدتوں کے باوجود میرے لیے وہاں رہنا مشکل نہیں تھا لیکن بس ایک چیز ایسی تھی جسے میں برداشت نہیں کر پاتی تھی اسی لئے میں نے چھ ماہ بعد ہی اپنی کمپنی سے واپس بلانے کی درخواست کر ڈالی تھی مجھے مایوس نہیں کیا گیا اور واپس بلا لیا گیا تھا آج دس سال بعد جب مجھے کچھ ذمہ داریوں کے ساتھ ایک بار پھر پاکستان بھیجنے کی تجویز پیش کی گئی تو صرف اس اذیت ناک چیز کو سوچ کر میں نے وہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا مجھے یاد آ گیا تھا کہ لاہور میں قیام کے آخری دن اپارٹمنٹ کو تالہ لگاتے میں نے عباس کو بتایا تھا کہ تمہاری قوم نے ایک چیز سے مجھے بہت اذیت دی ہے اور آج میں تمہاری قوم کو وہ اذیت واپس لوٹا کر جاؤں گی اس نے مجھے حیرت سے دیکھا مگر کچھ پوچھا نہیں۔

اس روز وہ میرے واپس جانے کی وجہ سے بہت اداس تھا بار بار کہتا رہا میں آپ کے بغیر یہاں اداس رہوں گا آپ واپس جاکر میرے وہاں آنے کا کچھ بندوبست کر دیں۔ میں اس کے مقابل آ بیٹھی تو اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی جیسے ہی وہ آگے بڑھا میں نے گاڑی کے ہارن پر ہاتھ رکھ دیا اور جب تک ہم ائرپورٹ نہیں پہنچے تب تک میں نے ہارن پر سے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments