ڈیماگوگ کون ہوتا ہے؟


ڈیماگوگ بنیادی طور پر رومن زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ایک ہجوم کا لیڈر جو بیان بازی میں منطقی استدلال کی بجائے لوگوں کے جذبات اور تعصبات کو بھڑکائے۔

ایک ایسا لیڈر جو اصل مسائل کو پس ہشت ڈال کر دوسرے متنازعہ معاملات پر فوکس کرے۔ اور لوگوں کو اپنے بارے میں یقین دلائے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہی عوام کے لئے بہتر ہے اور اسی میں ان کی بقا ہے۔ یہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ اس کو لوگوں کے جذبات ابھارنے کا فن اور اسے استعمال کرنا بہت اچھے طریقے سے اتا ہے۔ اسے الفاظ سے کھیلنا اور اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا بھی اتا ہے۔

وہ کبھی بھی عقلی دلیل کی نہ بات کرتا ہے اور نہ ہی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ بلکہ اس کی ساری توجہ معاشرے میں تقسیم اور تعصبات کو ہوا دینے پر ہوتی ہے۔ ایک ایسا شخص جس کی انگلیاں عوام کے نبض پر ہوتی ہیں۔ یہ الفاظ میں ہیرا پھیری کر کے شاطرانہ انداز میں لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کا ہنر جانتا ہے۔ اس کا واحد مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے چاہے اس کے لئے اس کو خون کی ندیاں کیوں نہ بہانا پڑیں۔

یہ فن تقریر کے ذریعے عوام کو جوش دلانے کا ماہر ہوتا ہے

وہ عوام کی ذہنوں پر اس طرح سوار ہوجاتا ہے کہ لوگوں کو غور فکر کرنے سے روک کر صرف اپنے ایجنڈے ہر چلاتا ہے۔ یہ اپنی تقریروں سے ایسا سماں باندھتے ہیں کہ لوگ عقل و فہم سے عاری ہو کر جنون کی حد تک اس کی باتوں پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ یہ سیاست کے رائج کردہ اصولوں اور ضابطوں کو تھوڑ کر عوام کو قانون شکنی کی راہ ہر ڈالتے ہیں۔ یہ چاپلوسی میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ اقتدار کی حصول کے لئے یہ عوام سے ایسے وعدے کرتا ہے کہ جس کا پورا ہونا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہوتا۔ جیسا کہ سابقہ دور میں عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا۔ نسلی اور مذہبی جذبات کو ہوا دینا اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ڈیمگوگس کے ہتھیار ہوتے ہیں۔ جیسے کہ خان صاحب کا ریاست مدینہ کے قیام کی بات۔

قدیم ایتھنز میں یہ لوگ جمہوریتوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اقتدار میں آئے۔

ڈیماگوگس عام طور پر اعتدال پسند اور مثبت سوچ رکھنے والے مخالفین پر کمزوری یا غداری کا الزام لگاتے ہوئے اقتدار تک پہنچتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بہ آئین کو پامال کر کے آمریت نافذ کرتے ہیں۔

جیمز فینیمور کوپر نے 1838 میں ڈیماگوگس کی چار بنیادی خصوصیات کی نشاندہی کی۔

وہ اپنے آپ کو عام لوگوں کے طور پر پیش کرتے ہیں، یعنی اشرافیہ کے مخالف۔ ان کی سیاست کا دار و مدار عوام کے ساتھ ایک بصری تعلق پر ہوتا ہے۔ جس سے ان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے اہداف کے حصول تک عوام سے جڑا رہتا ہے۔ وہ قوانین، اداروں اور یہاں تک کہ قانون کو بھی دھمکی دیتے ہیں یا انہیں توڑ دیتے ہیں۔

تاریخ میں اولین ڈیماگوگ سمجھے جانے والے ایتھنز کے کلیون کو بنیادی طور پر اس کی حکمرانی کی بربریت اور ایتھنز کی جمہوریت کی قریب قریب تباہی کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔

جدید تاریخ کے چند مشہور ڈیماگوگس میں ایڈولف ہٹلر (جرمنی) جوزف میکارتھی (امریکہ) ، پول پوٹ (کمبوڈیا) بینیٹو مسولینی (اٹلی) صدام حسین (عراق) جوآن پیرون (ارجنٹینا) روڈریگودو تیرتے (فلپائن) کے نام آتے ہیں۔ ان سب نے تقریباً کلیون ہی کی طرح اقتدار پر قبضہ کر کے بعد ازاں اپنے اصولوں اور آمرانہ انداز میں حکومتیں کیں۔ مثال کے طور پر، چانسلر مقرر ہونے کے دو ماہ کے اندر، ہٹلر  نے اپنے اقتدار کے شروعات میں تمام آئینی حدود کو پامال کرنا شروع کر دیا۔ ہٹلر نے کچھ مہینوں کے اندر ہنگامی اختیارات استعمال کرنے شروع کیے۔ اور شہری آزادیوں کو معطل کر دیا۔ آہستہ آہستہ اس نے تمام آئینی پابندیاں ختم کر کے ایک مطلق العنان حکومت بنائی۔

اس نے اعلیٰ عہدوں پر نا اہل لوگوں کو تعینات کیا۔ ڈیماگوگس عام طور پر لوگوں کو ذاتی وفاداری کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرتے ہیں، جو کہ بدعنوانی کے لیے غیر معمولی راستے کھولتے ہیں۔

ڈیماگوگس کے ساتھ پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف منطق اور سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں بلکہ وہ عوام کو بھی مشتعل کرتے ہیں۔ بیرونی خطروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اور ہر وقت طبل جنگ بجا کر رکھتے ہیں مخالفین سے تضحیک آمیز سلوک اور ان کی تذلیل اپنا مقصد سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ ان کا انجام نہایت بھیانک ہوتا ہے۔

ڈائیونیسس جو روم کا فلسفی اور تاریخ کا استاد تھا انہوں نے 20 قبل مسیح میں کہا تھا کہ ”کسی ملک کو برباد کرنے کا سب سے مختصر طریقہ یہ ہے کہ ڈیماگوگس کو اقتدار دیا جائے“ ۔

اتنی لمبی تمہید کے بعد آپ کو اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ تقریباً تمام سیاسی لیڈروں میں ڈیماگوگ کی کچھ خاصیتیں ہوتی ہیں لیکن تمام خاصیتیں اگر کسی ایک بندے میں ہیں تو اس کا نام عمران خان ہے۔ جمہوریت کے نام پر پاکستان کے پارلیمنٹ کے اندر گھسا۔ وزیراعظم بننے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا۔ لیکن طرز حکمرانی آمروں والا رہا۔ پارلیمنٹ کو جس طرح عمران خان کے دور میں بے توقیر کیا گیا اتنا کبھی ملکی تاریخ میں نہیں ہوا۔ اپنے مطلب کی قانون سازی کے لئے صدارتی آرڈینینس کا بے دریغ استعمال کیا۔ سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا۔ ملکی معیشت کو تباہی سے دوچار کیا۔ لیکن اس پر بات کرنے کی بجائے اپوزیشن کو گالیاں اور طعنے دینے اور اپنی نالائقی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کی۔ جب اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو اس کا سامنا کرنے کی بجائے ایک سازشی خط اور بیرونی مداخلت کا جھوٹا بیانیہ پیش کرنا شروع کیا۔ قومی اسمبلی اور پنجاب میں آئین کے ساتھ جس طرح کھلواڑ کیا وہ ہماری تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

اقتدار کی حصول کے لئے جس طرح لوگوں کو ایک جھوٹے بیانیہ کی مدد سے سڑکوں پر لایا گیا یہ سب ایک ڈیماگوگ کی خاصیتیں ہیں۔ تاریخ میں جہاں بھی اور جب بھی کوئی ڈیماگوگ اقتدار میں آیا تو اس نے ہمیشہ اپنے ملک اور قوم کو تباہی سے دوچار کیا۔ اور ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا واسطہ ایک ڈیماگوگ سے پڑ گیا ہے۔ ایک ایسا شخص جو جمہوریت کے نام پر ایک آمرانہ نظام قائم کرنے کے لئے عوام کو قربانی کا بکرا بنانے اور موجودہ جمہوری اور پارلیمانی نظام کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔

13 مئی کو مردان کے جلسے میں خان صاحب نے تو ‏رعونت اور خودغرضی کی انتہا کردی۔ کہا کہ جو لوگ اقتدار میں ہیں ان سے بہتر کہ اس ملک پر ایٹم بم گرا دیتے۔ ‏با الفاظ دیگر کہ اگر مجھے تخت پہ نہی بٹھانا تو اپنے ہی ملک کو ایٹم بم سے اڑا دو۔ اپنے مفاد کے لئے ملک کو بھی اڑانا پڑے تو اڑا دو۔ یہی ہے ڈیماگوگ کی اصلی تعریف۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments