اب پیچھے مڑ کر دیکھنے کا وقت نہیں


بحران میں گھرے پاکستان کی اتحادی حکومت کا وزیر اعظم پانچ روز لندن میں قیام کے بعد براستہ ابوظہبی اسلام آباد پہنچا ہے۔ اس دوران روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 195 کی حد کے قریب جا پہنچا اور کراچی اسٹاک ایکسچینج میں سوموار کو مارکیٹ کھلتے ہی ایک ہزار پوائنٹ کی کمی دیکھنے میں آئی۔ اقتصادی ماہرین اس المناک صورت حال کو حکومتی تساہل اور فوری مناسب فیصلے نہ کرنے کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

شہباز شریف کی سرکردگی میں اتحادی جماعتوں کی حکومت قائم ہوئے ایک ماہ سے زیادہ بیت چکا ہے لیکن اس دوران سابق وزیر اعظم عمران خان پوری طرح منظر پر چھائے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت نہ تو سیاسی بیانیہ میں تحریک انصاف کی پرجوش اور کسی حد تک اشتعال انگیز مہم کے مقابلے میں اتری ہے اور نہ ہی کابینہ کی حد تک کسی موثر، قابل عمل اور مناسب معاشی حکمت عملی کا کوئی اشارہ سامنے آیا ہے۔ سیاسی میدان میں مریم نواز کو ضرور میدان میں اتارا گیا ہے لیکن ان کے جلسوں کو وہ پذیرائی نصیب نہیں ہو سکی جو عمران خان کے امریکہ مخالف کے بعد اب فوج مخالف بیانیہ کو مل رہی ہے۔

یہ درست ہے کہ عمران خان اسٹبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے تقاضا کر رہے ہیں کہ اسے تحریک انصاف کی سرپرستی سے ہاتھ نہیں کھینچنا چاہیے تھا۔ تاہم ان کے جلسوں میں شریک یا سوشل میڈیا پر انہیں فالو کرنے والوں کی اکثریت کو یہی لگتا ہے کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا جو نعرہ پہلے نواز شریف اور مریم نواز لگاتی تھیں، اب اس کا عٔلم عمران خان نے اٹھا لیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اس تاثر کو فوج مخالف پروپیگنڈا کے ذریعے تقویت دیتے ہیں۔ آئی ایس پی آر نے ایک دو بار ’فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے‘ قسم کے بیانات ضرور جاری کیے ہیں لیکن اس مشورہ پر عام طور سے عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ عمران خان اپنے بیانیہ کے ذریعے بزعم خویش بنیادی حقوق اور جمہوریت کے داعی بنے ہوئے ہیں اور امریکہ سے آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے خود کو قوم کے مسیحا کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ جبکہ حکومت سنبھالنے والی پارٹیوں کو ’چوروں کا ٹولہ‘ قرار دے کر موجودہ صورت حال کو جمہوری روایت اور آئین و قانون کی صریحاً خلاف ورزی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ حکومتی اتحاد اس سیاسی بیانیہ کا کوئی جواب دینے میں ناکام ہے۔

مریم نواز کی تقریروں میں عمران خان پر الزام تراشی اور سابقہ حکومت کی ناکامیاں بیان کرنے کے سوا کوئی بات نہیں ہوتی۔ نہ وہ یہ بتا پاتی ہیں کہ عوام کی مشکلات کا کیسے حل نکالا جائے گا، ملک میں بے چینی کیسے ختم ہوگی، معاشی استحکام کے لئے کیا تدبیر کی جائے گی اور چار برس تک ملک پر حکمرانی کرنے والی پارٹی کو بظاہر ایک ’جمہوری و آئینی طریقہ‘ سے ہٹانے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس سوال کا جواب ہنوز دستیاب نہیں ہے کہ اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ اب یہ کہنے سے حکومتی پارٹیوں کا بوجھ کم نہیں ہو گا کہ ’ہم عمران خان کے چار سالوں میں ڈالے ہوئے گند کا ٹوکرا کیوں اٹھائیں‘ ۔ یہ ٹوکرا تو آپ اٹھا چکے ہیں، اب تو آپ کو مسئلہ کا حل پیش کرنا ہے۔ یا بتایا جائے کہ کیا وجوہ تھیں جن کی بنا پر باور کر لیا گیا کہ اگر عمران خان مزید ایک آدھ سال وزیر اعظم رہتے تو ملک پر کون سی قیامت برپا ہو سکتی تھی۔ مریم نواز کی تقریروں میں پہلے جمہوری جد و جہد کے حوالے سے دلائل کی وجہ سے چاشنی محسوس ہوتی تھی لیکن اب اداروں کے احترام کی وکالت کرتے ہوئے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے عوامی حکمرانی کے دعوے سے دست بردار ہو کر انہی قوتوں کے تعاون سے اقتدار حاصل کرنے میں عافیت سمجھی ہے جنہیں کل تک ملک میں تمام مسائل کی جڑ قرار دیا جاتا تھا۔

مریم نواز یا حکومتی اتحاد کے دیگر لیڈر اگر فوج کی ’غیر جانبداری‘ کی وجہ سے اقتدار ملنے کے بعد یہ بھی واضح کرتے کہ فوج کا محض نیوٹرل ہوجانا ہی تمام مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ اس ادارے کو مستقل بنیادوں پر بہر صورت آئینی حدود کے اندر رہنا پڑے گا اور حکومت اس حوالے سے ٹھوس آئینی و قانونی اقدامات کرے گی۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کو پارلیمنٹ میں کسی آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے لیکن اس حوالہ سے کوئی سیاسی موقف اور موجودہ اتحاد میں شامل جماعتوں میں واضح اتفاق رائے سے بہر حال ایک مضبوط سیاسی رائے سامنے لائی جا سکتی تھی۔ حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ عمران خان اپنے تمام تر جمہوریت کش رویہ اور موقف کے باوجود اس وقت آئین و قانون کے نمائندے بنے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ وہ فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مطالبہ سادہ اور قابل فہم ہے۔ حکومت میں شامل پارٹیوں کی اکثریت اور بطور خاص مسلم لیگ (ن) فوری انتخابات کو ہی قومی مسائل کا حل قرار دیتے تھے۔ اب یہی بات عمران خان کہتے ہیں تو اسے کیسے غلط کہا جاسکتا ہے۔ حکومتی کارکردگی سے اس موقف کے حق میں دلیل لائی جا سکتی تھی لیکن حکومت قائم ہوئے پانچ ہفتے ہونے والے ہیں اور ملکی مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اس تصویر کا یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) صدر شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ سنبھال کر فوج کی موجودہ قیادت کے ساتھ ’مصالحت اور افہام و تفہیم‘ کی تصدیق کی ہے۔ لیکن اسی قیادت کا نام لے کر نواز شریف نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ انہیں 2017 میں اقتدار سے محروم کرنے میں انہی فوجی لیڈروں نے کردار ادا کیا تھا۔ ظاہر ہے یہ کردار ملکی آئین کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے تو ادا نہیں ہو سکتا تھا۔ اب اسی پارٹی کا وزیر اعظم جب اسی آرمی چیف سے ملتا ہے اور قومی سلامتی کے اہم امور پر مل کر کام کرنے کا عزم کرتا ہے تو اس سے عوام میں بے چینی اور حیرانی و پریشانی پیدا ہونا ضروری ہے۔ یا تو شہباز شریف وزیر اعظم بننے کے لئے اپنی اتحادی جماعتوں کے علاوہ اسٹبلشمنٹ کے سامنے یہ شرط رکھتے کہ وہ اس وقت تک یہ عہدہ نہیں سنبھالیں گے جب تک جنرل قمر جاوید باجوہ فوج کے سربراہ ہیں۔ یا کسی دوسرے طریقے سے یقینی بنایا جاتا کہ اب حکومت سنبھالنے والا وزیر اعظم 2017 میں پرائم مسٹر ہاؤس میں مقیم سے زیادہ ’با اختیار و طاقت ور‘ ہے۔ ایسی کوئی وضاحت یا عملی صورت سامنے نہیں آئی۔ ایسے میں عمران خان کا جمہوریت کی بالادستی کے لئے نئے انتخابات کا نعرہ عمومی طور سے قابل فہم بنتا چلا جائے گا۔

شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے متعدد ارکان تواتر سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک کے معاشی حالات ان کے اندازوں سے بھی زیادہ خراب نکلے۔ یادش بخیر عمران خان نے بھی اقتدار سنبھالنے کے بعد اس سے ملتا جلتا بیان دیا تھا اور ماضی میں بھی ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومت کے بارے میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کر کے اپنی نا اہلی اور بے عملی کو چھپانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ عوام کے لئے اب یہ نعرہ قابل قبول نہیں ہے۔ شہباز شریف نے پانچ روز تک لندن میں نواز شریف کے دربار میں حاضر رہنے کے بعد بیان دیا ہے کہ وہ اب لندن میں کیے جانے والے فیصلوں پر اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے۔ اس حوالے سے چند نکات قابل غور ہیں :

1) نواز شریف گو کہ مسلم لیگ (ن) کی اصل طاقت ہیں لیکن قانون کی نظر میں وہ ابھی تک کرپشن کے ایک مقدمہ میں سزا یافتہ ہیں۔ اس کے علاوہ محدود مدت کے لئے طبی بنیاد پر لندن جانے کے بعد وہ وعدے اور ضمانت کے باوجود پاکستان واپس نہیں آئے اور اسلام آباد ہائی کورٹ انہیں ’مفرور‘ قرار دے چکی ہے۔ ان معاملات میں خواہ انصاف کا خون ہونے کے کیسے ہی دعوے کیے جائیں لیکن عدالتی فیصلوں کی روشنی میں اس قانونی حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کا وزیر اعظم جب نصف درجن اہم ترین وزیروں کے ساتھ لندن جاکر ایسے ’سزا یافتہ‘ شخص کی راہنمائی حاصل کرنے کا اعلان کرتا ہے تو اسے قانون کی حکمرانی کے تصور سے متضاد رویہ کہا جائے گا۔

2) شہباز شریف کو اقتدار سنبھالے ایک ماہ ہو چکا ہے لیکن ان کی حکومت کوئی اہم فیصلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ملک معاشی بے یقینی، سیاسی بے چینی اور آئینی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں وہ متعدد وزیروں کے ہمراہ ’نجی دورہ‘ پر عازم لندن ہو گئے۔ یہ طریقہ اس رویہ کے مماثل ہے کہ جہاز پر آگ لگی ہو اور کپتان فرار ہو جائے۔ قومی اسمبلی مکمل نہیں ہے، پنجاب میں حکومت قائم ہونے کا نام نہیں لے رہی، صدر منتخب وزیر اعظم کے مشورے ماننے پر آمادہ نہیں، دو صوبوں میں گورنر موجود نہیں ہیں اور عمران خان روزانہ کی بنیاد پر حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ایسے میں وزیر اعظم کا دارالحکومت چھوڑ کر لندن جانا کسی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔ اس پر مستزاد مسلم لیگ (ن) یا حکومت نے اس کا کوئی ٹھوس جواز فراہم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔

3) موجودہ اتحادی حکومت دس سیاسی پارٹیوں پر مشتمل ہے۔ کیا شہباز شریف نے ایک ایسے ’نجی دورہ‘ پر لندن جانے سے پہلے کابینہ یا اتحادی پارٹیوں کو اعتماد میں لیا تھا۔ یا کیا انہوں نے یہ سوچا تھا کہ اس یک طرفہ فیصلہ سے حکومتی اتحاد میں دراڑ بھی پڑ سکتی ہے۔ اہم امور پر نواز شریف کے ساتھ مل کر فیصلے کرنے کے بعد اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی بات کی جا رہی ہے۔ حالانکہ نواز شریف کی بجائے اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے اور ان کے ساتھ مل کر فیصلے کرنے کی ضرورت تھی۔ کسی اتحادی حکومت میں اعتماد و تعاون کی فضا برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جائے اور سب فریقین کے ساتھ مل کر فیصلے کیے جائیں۔ فیصلے کرنے کے بعد ’اعتماد‘ میں لینے کا رویہ ہمیشہ بداعتمادی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ شہباز شریف، موجودہ حکومت یا پاکستان اس وقت ایسی بداعتمادی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

4) معیشت کے حوالے سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی منڈی کے حساب سے اضافہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ایک فیصلہ سے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے مالی تعاون کا آغاز ہو گا۔ شہباز شریف کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ انہیں بجٹ سے بہت پہلے یہ مشکل فیصلہ کرنا ہو گا۔ اس کے باوجود سیاسی بنیاد پر اس فیصلہ کو مؤخر کیا جا رہا ہے۔ ماضی قریب میں اتحادی حکومت میں شامل پارٹیاں عمران حکومت کی طرف سے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کو ’عوام دشمنی‘ پر محمول کرتی رہی ہیں۔ کیا عدم اعتماد لاتے ہوئے انہیں علم نہیں تھا کہ حکومت سنبھالنے کے بعد بالآخر انہیں یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اس ایک فیصلہ کی وجہ سے امور مملکت تعطل کا شکار ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اتحادی جماعتیں جن امور پر اب مشاورت کے ذریعے فیصلے کرنا چاہتی ہیں، ان پر تحریک عدم اعتماد اور اقتدار سنبھالنے سے پہلے غور کر کے اتفاق رائے نہیں کیا گیا۔ کیا ملکی سیاسی قیادت اس حد تک سطحی سوچ رکھتی ہے کہ اسے نوشتہ دیوار بھی دکھائی نہیں دیتا؟

5) اب یہ غور کیا جا رہا ہے کہ جلد از جلد انتخاب کروا کر عمران خان نامی چیلنج اور مشکل معاشی فیصلوں سے بچا جائے۔ یا ہمت کر کے مزید ڈیڑھ برس تک حکومت سنبھالے رکھنے کا عزم کر کے اصلاح احوال کا اقدام کیا جائے۔ کیا یہ طریقہ گھوڑے کے سامنے ٹھیلا باندھنے کی کوشش کے مترادف نہیں ہے؟ جو فیصلے حکومت سنبھالنے کا اہم اقدام کرنے سے پہلے ہونے چاہئیں تھے، ان پر اب مواصلت کی کوشش ہو رہی ہے۔

درحقیقت شہباز شریف اور اتحادی حکومت کے پاس اب نئے فیصلے کرنے کی مہلت یا موقع نہیں ہے۔ سب اتحادی پارٹیوں کو آئندہ برس کے آخر تک حکومت کرنے اور ملک کو درپیش چیلنجز کا حل فراہم کرنے کے لئے کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے فوری انتخاب کی بات کی تو عمران خان کی سیاسی اپیل میں اضافہ ہو گا۔ اور یہ تاثر بھی قوی ہو گا کہ ملک کی سب سیاسی پارٹیاں اقتدار کے مزے تو لینا چاہتی ہیں لیکن فیصلے کرنے اور قوم کی رہنمائی کرنے کی اہل نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments