یہ دسترخوان پر پہلا لقمہ خود اٹھاتے ہیں


کیا یہ سچ نہیں کہ اس ملک کے لوگ پیشانی ٹیکنے کی جبلت لے کر پیدا ہوئے ہیں، جس پتھر کو چاہیں خدا بنا لیں۔ مرشد اقبالؒ نے سمجھایا تھا:

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

لیکن ہم بدبخت سمجھے بھی تو کیا سمجھے۔ ایک خدا کو ماننے کی بجائے کوئی نہ کوئی خدا ماننا ضروری ٹھہرا۔ لیکن اس میں سارا قصور ہمارا بھی نہیں۔ سنتے جائیں۔ یہ بھی تو ہے۔

آسماں والے نے اتنا نہ پلٹ کر دیکھا

وہ جو مسجود ملائک تھا بشر کیسا ہے ؟

اور سنئے حضور !

دعا نہ مانگو تو غم سے رہائی دیتا نہیں

سنائی تو دیتا ہے اس کو دکھائی دیتا نہیں

پھر یہ بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کے بندے ہیں سو ہم دیکھتے ہیں اس کی طرف

وہ شہ چارہ گراں کس کی طرف دیکھتا ہے

کعبہ نشیں سنے تو کہوں حال دل امیر

کعبے میں جا کے اینٹ اور پتھر سے کیا کہوں

خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن

رہے ہے خوف بہت اس کی بے نیازی کا

پھر یہ مسئلہ بھی تو ہے :

عجب سوال اٹھائے ہیں کیا کہوں یا رب

کیا ہوا ہے پریشان دہریوں نے مجھے

پیر صاحب پگاڑا شریف کے حُروں اور سیاسی کارکنوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ حُر صرف حکم سنتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ پیر جی سے سوال ان کی شریعت میں حرام ہے۔ اب سوال اور کرید ان کی فطرت ہی نہیں رہی۔ ادھر ہمارے سیاسی کارکنوں نے بھی اپنے اپنے سیاسی قائد کو” پیر صاحب پگاڑا شریف“ ہی بنا لیا ہے۔ ان سے کوئی سوال پوچھنا وہ بھی ناجائز سمجھتے ہیں۔ ہم سب اپنے اپنے سیاسی آقاﺅں کے غلام ہیں۔ بے مول خریدے ہوئے غلام۔

کیا کوئی جیالا ایان علی کی منی لانڈرنگ کا ذکر کر سکتا ہے ؟

کیا کوئی ن لیگی مقصود چپڑاسی کے بینک اکاﺅنٹ میں اربوں روپے آنے پر زبان کھول سکتا ہے ؟

کیا کوئی انصافی فرح گوگی کی لوٹ مار پر رائے دے سکتا ہے ؟

ہم سبھی ایک ہی عقیدہ رکھتے ہیں۔

ہمارے چور زندہ باد۔

تمہارے چور مردہ باد۔

گوجرانوالہ سیشن کورٹ کے نوید انور نوید ہال کے ایک کونے میں برادرم سلیمان کھوکھر اپنی مجلس جمائے بیٹھے رہتے ہیں۔ ان دنوں موصوف بذریعہ ق لیگ عمران خان کے حامی ہیں۔ در اصل وہ اپنی افتاد طبع کے باعث ہر اس شخص کے حامی ہیں جو نواز شریف کا مخالف ہے۔ فرح گوگی کے حوالے سے موصوف کہہ رہے تھے کہ بات فرح گوگی سے بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ جبکہ کالم نگار کی رائے تھی کہ کرپشن کو کوئی معافی نہیں۔ پھر جمہوری جماعتوں کی آمریت ہی ہمارے ہاں کرپشن کو فروغ دے رہی ہے۔ اپنے اپنے سیاسی قائدین سے محبت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ان کی کرپشن پر ہم اپنی آنکھیں میچ لیں۔ ایک سیاسی قائد کی ضد میں ہم دوسرے سیاسی قائد کو سوال کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجائے پرستش کے سنگھاسن پر بٹھا لیتے ہیں۔ حامی نواز شریف اور ان کی سیاست کا کالم نگار بھی نہیں۔ قرضے۔ قرضے۔ قرضے۔ آج کے لیجنڈ انور مسعود نے دو مصرعوں میں پورا سالم نواز شریف لکھ دیا ہے۔

اللے تللے ادھارے ترے

بھلا کون قرضے اتارے ترِے

لاہور کی میٹرو ٹرین شاہی مسجد لاہور کی طرح ہی بادشاہوں کا شوق ہے۔ اسی شاہی مسجد کی سیڑھیوں میں دفن شاعر مشرق مرمر کی سلوں سے ناخوش و بیزار ہے۔ وہ مٹی کے حرم کی خواہش لئے مٹی میں دفن ہے۔ میٹرو ٹرین کے منصوبے کی اعلیٰ منصوبہ بندی یہ ہے کہ ہمیں ٹکٹ میں بھی سبسڈی دینا پڑتی ہے۔ پھر اس کا قرض بھلا کیسے چکایا جا سکے گا ؟ پھر یہ کسی پاکستانی بینک سے لیا ہوا قرضہ بھی نہیں جہاں کھلے دل سے قرضے معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

بغیر کسی تبصرے کے ایک واقعہ لکھوں گا۔ اس میں سمجھنے سوچنے والوں کیلئے بہت کچھ موجود ہے۔ کالم نگار کے ایک دوست کینیڈا کی شہریت رکھتے ہیں۔ وہ اکثر وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں وہ چند ہفتے کینیڈا میں گذار کر آئے۔ وہ بتا رہے تھے کہ وہاں ایک سکھ جاٹ کینیڈا کا نیشنل ہے۔ ان دنوں اس سکھ جاٹ کا عزیز اسے ملنے ہندوستان سے آیا ہوا تھا۔ یہ دو تین برس پہلے ہی ہندوستان کی سول سروس سے ریٹائرڈ ہوا تھا۔ وہ بتانے لگا کہ جالندھر شہر کے ساتھ ہماری کچھ آبائی زرعی زمین تھی۔ اس میں سے کچھ زمین وراثتاً اسے بھی مل گئی۔ اب اس نے اپنے حصے کی زمین فروخت کر لی۔ اس طرح وہ ایک کنال کا گھر بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ ورنہ اسے بھی اپنے دوسرے بیس اکیس گریڈ کے ریٹائرڈ بیورو کریٹ دوستوں کی طرح پانچ مرلے کا گھر ہی بنانا تھا۔ ہندوستان میں کسی افسر کو سرکار کی جانب سے کوئی پلاٹ نہیں ملتا۔ ہر محکمے اور طبقے سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے افسر بھی پانچ پانچ مرلے کا گھر بنانے پر مجبور ہیں۔

ایک جیالا محترمہ بینظیر بھٹو سے اپنی پارٹی کیلئے خدمات گنوا رہا تھا۔ کسی منصب عہدے کی خواہش ہوگی بیچارے کے دل میں۔ محترمہ نے پورے تحمل سے اس کی پوری عرضداشت سنی۔ پھر اک ادائے بے نیازی سے فرمایا۔ پھر تو آپ کو پارٹی کا احسان مند ہونا چاہئے کہ آپ کو موقع مہیا کیا گیا کہ آپ اپنی پارٹی کیلئے کچھ کام کر سکیں۔ ہمارے سیاسی قائدین بھی کیا قسمت لے کر آئے ہیں۔ اختیارات ان کے پاس مغل بادشاہوں جیسے ہیں۔ پھر ولی عہد بھی وفادار ہوتے ہیں۔ انہیں شک شبہات کے مارے مغل بادشاہوں کی طرح پہلا لقمہ اپنے ولی عہد کو نہیں کھلانا پڑتا۔ یہ دسترخوان پر پہلا لقمہ خود اٹھاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments