ترکی واقعات: کیا جنسی ہراسانی پاکستانی مردوں کا شیوہ ہے؟


ساحل پر افراتفری مچی ہوئی تھی۔ سب لوگ رک رک کر ایک جانب دیکھ رہے تھے۔ چلتے ہوئے لوگ بھی اب وہاں کھڑے منظر کی سنگینی کو جانچ رہے تھے۔ کچھ لوگ اپنے کم سن بچوں کو لے کر وہاں سے جانے کو ترجیح دے رہے تھے۔ اب وہاں صرف پولیس کے آنے کا انتظار ہو رہا تھا۔ ساحل پر ایک پندرہ سے سولہ سالہ عرب بچہ ایک پاکستانی مرد جس کی شلوار قمیض سے اس کی قومی شناخت واضح ہو رہی تھی کو گردن سے زور سے پکڑے ہوئے تھا کہ کہیں وہ ملزم بھاگ نہ جائے۔

اس پاکستانی نے سمندر میں شوہر اور بیٹے کے ساتھ لہروں میں کھلتی ہوئی ایک عرب عورت کو پانی کے اندر غلط طریقے سے چھوا تھا۔ شور مچانے پر بیٹے نے ماں کو ہراساں کرنے والے مرد کو گردن سے زور سے دبوچ لیا اور کسی نے پولیس کو بلا لیا۔ سمندر میں ہراساں ہونے والی عورت کے لباس کا اس لئے ذکر نہیں کروں گی کہ عورت کو ہراساں کرنے والا اپنی ہوس اور عورت کو کمزور سمجھتے ہوئے وار کرتا ہے، اس کی عمر دیکھتا ہے نہ اس کا لباس۔ اپنے روایتی لباس میں ملبوس عرب عورت کو اس بات کا آنے والے بہت عرصے غم نہیں رہا ہو گا کہ کسی مرد نے اس کے بدن پر غلیظ ہاتھ پھیرا اور اس کو سزا نہ ہوئی۔ پولیس بھی آ گئی اور سب کی سامنے ہراساں کرنے والے کو موقع پر سبکی بھی ہوئی۔

پھر کچھ عرصہ گزرتا ہے تو اپریل 2022 کی چھ تاریخ کو ڈیرہ دبئی میں دور سے ایک محافظ دیکھتا ہے کہ ایک شخص پل سے ایک بڑا سا تھیلا نیچے پھینک رہا ہے۔ چونکہ شہر میں چیزیں یوں پھینکنا منع ہے اور شک کی بنا کر محافظ نے اپنے نگہبان کو مطلع کرنے پر پولیس کو اطلاع دی۔ تفتیش پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک پاکستانی مرد نے فلپائن سے تعلق رکھنے والی ایک محنت کش لڑکی کو گلہ گھونٹ کر ناصرف قتل کیا بلکہ اس کی لاش کو ایک تھیلے میں ڈال کر پل سے نیچے پھینک دیا۔

دبئی کے ایک ساحل پر کیا دیکھتی ہوں کہ کئی پاکستانی مرد فون نکال کر مسلسل وہاں موجود خواتین کی ان کی اجازت کے بنا فلم بندی کر رہے ہیں۔ ساحل سے گزرنے والا ہر تیسرا پاکستانی مرد ساحل پر استراحت کرتی دوسرے ملکوں کی خواتین کی ویڈیوز بنا رہا تھا۔ کوئی اپنے دوست کی تصویر بنانے کے بہانے پیچھے بیٹھی لڑکی کی ویڈیو بناتا ہے تو کوئی اپنی سیلفی بنانے کی غرض سے ساحل پر کتاب پڑھتی غیر ملکی عورت کی تصویر کھینچتا ہے۔ ساحل کی پٹی کے ایک کونے سے ویڈیو بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے تو ساحل کے دوسرے کونے پر ہی ختم ہوتا ہے۔

ایک پاکستانی ویڈیو بناتے بناتے ایک گورے کے عتاب کا اس لئے نشانہ بنتا ہے کہ اس گورے کو شک ہوتا ہے کہ کہیں وہ اس کی ساتھی کی فلم بندی تو نہیں کر رہا۔

ترکی میں ہونے والے واقعات کوئی بند کمرے کے واقعات نہیں ہیں۔ یہ حادثاتی یا اتفاقیہ نہیں ہیں۔ یہ صدیوں میں ایک بار نہیں ہوتے، نہ ہی یہ غلطی سے ہوتے ہیں۔ یہ ہماری قوم کے کثیر تعداد میں مردوں کا وتیرہ ہے۔ ان واقعات کو قوموں کا شیوہ بنایا جاتا ہے اور یہ واقعات اس صورت میں ہوتے ہیں کہ کسی قوم کا شیوہ ہوتے ہیں۔ ان حرکات و سکنات کے بیج گھر، محلے، شہر اور معاشرے میں بوئے جاتے ہیں۔ بیٹا جب پہلی بار بہن پر آواز اونچی کرتا ہے، ہاتھ اٹھاتا ہے تو اس کو اپنے سے کم تر اور بے کار سمجھ کر ایسا فعل کرتا ہے۔

وہ بہن کو بہن نہیں ایک انسان نہیں ایک شے اور عورت ذات سمجھ کر ایسے کرتا ہے۔ اس کا ہاتھ ماں روکتی ہے نہ باپ۔ وہی بھائی گھر سے باہر خاندان اور محلے میں جب کسی لڑکی کو ہراساں کر کے آتا ہے تو وہی ماں باپ اور خاندان نشانہ بننے والی لڑکی کی توہین اور کردار کشی کرتے ہیں۔ ”بیٹا تو مرد ہے اور مرد تو ایسے ہی کرتا ہے، لڑکیوں کو اپنی عزتوں کا پاس نہیں رہتا“ ۔ ایسے کلمات مردوں کو اچھا شہری سے مجرم بنانے میں پہلی اینٹ رکھتے ہیں اور رفتار پکڑتے پکڑتے یہ معذرت خواہانہ رویے عورتوں کے خلاف نفرت اور توہین آمیز اقدار کو جلا بخشتے ہیں۔ یہی قوم کا شیوہ بنتے ہیں جو ملک میں جرائم کو بڑھاوا دیتے اور ملک سے باہر قوم کی اصل تذلیل اور دہائیوں تک آنے والی پہچان بنتے ہیں۔

ان تمام پاکستانی مردوں کو اس بات کا احساس ہوتا کہ ایسے جرائم کا انجام گھر خاندان محلے دوستوں اور معاشرے کی تحسین اور تحفظ کی بجائے سزا کا ہو سکتا ہے تو آج یقیناً پاکستانی قوم وہاں شرمسار نہ ہوتی جہاں اس کی عزت تھی۔ جب ملک میں ایسے مجرموں کو متاثرہ خواتین کی کردار کشی کی صورت میں بخشش عطا کی جاتی رہی ہو، وہاں ان واقعات کو روکا نہیں جاسکتا۔

یہ بات بھی یاد رکھی جانی چاہیے کہ پاکستانی قوم نے حالیہ برسوں میں ترک نوجوان خواتین کو جنسی طور پر مقرر یا sexualy objectified بھی خوب کیا ہے۔ اس میں قوم کے سیاسی رہنماؤں سے لے کر ایک عام شہری سب برابر کے شامل ہیں۔

ترک خواتین کے حسن اور خوبصورت کے چرچے ہوئے۔ ہر شہری، ہر شخصیت، ہر برانڈ کی زبان پر ترک خواتین کے حسن و جمال اور جسمانی ساخت کے قصیدے تھے۔ ہر شخص نے ہی ترک لڑکیوں کو حسن کی اعلیٰ مثال کے طور پیش کیا، اداکاراؤں کی فنی صلاحیت کم اور ان کا ظاہری حسن اور خدو خال زیادہ سراہے گئے۔

ہماری قومی سفید چمڑی کی تڑپ اور ہم مذہبیت تکمیل تک پہنچتی محسوس ہوئی۔ یہ سلسلہ اتنا سنگین اور مضر ثابت ہوا کہ ترک اداکاراؤں نے پاکستانیوں کے اس جنونی لگاؤ پر تنقید کی۔ جیسے پاکستان کی اداکاراؤں نے اپنے سوشل میڈیا پر لوگوں کی رائے دہی کو محدود کر رکھا تھا، ویسے ہی پاکستانیوں کے عورت عناد رویوں کے باعث عوامی رائے دہی محدود کی۔ مختصراً پاکستان کے عوام و خواص نے ترک خواتین کو sexualized کیا، جنسی تسکین کا باعث سمجھا اور ترک خواتین کو مافوق الفطرت بنا کر پیش کیا۔

جب قوم نے ان کو یہ سمجھ رکھا تھا کہ اب سے ترک خواتین ہماری قومی متشدد امنگوں اور ہیجانی خواہشات کے مطابق ہی نظر آئیں گی۔ ان کی جرآت بھی کیسے ہو کہ وہ اپنی مرضی یا اپنی قومی سیاسی اقدار کے مطابق قدامت پرستی سے آزاد زندگی گزاریں۔ جیسے پاکستان میں عورتوں کی تصاویر اور فلم بندی عام ہے ویسے ہی ترکی میں پاکستانی مردوں کے قریب ان کو یہ اختیار تھا کہ دیار غیر میں جا کر بھی یہ جرائم وہ کر سکتے ہیں اور پاکستان کی طرح ان کا احتساب نہیں ممکن۔

یہ جرائم پاکستان میں عام ہوتے ہیں۔ اس قدر عام ہیں کہ پاکستانی عورت نے اس کو روز کا معمول سمجھ لیا ہے کہ ان کو کوئی لگام نہیں ڈال سکتا۔ یہ واقعات اس قدر عام ہو چکے ہیں کہ پولیس اور عوام کیا خود متاثرہ عورت یہ کہہ کر شکر کرتی ہے کہ اس کا ریپ نہیں ہوا اور ریپ ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ جان سے تو نہیں مارا اور جان سے مار دیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ شکر ہے جان سے مار دیا، سہنے کے لئے زندہ نہیں چھوڑا۔

سماجی روابط کے ذرائع پر ترکوں کے آگے اپنی قوم کی پاکیزگی کی بین بجاتے پاکستانی مرد معذرت خواں تو بہت نظر آ رہے ہیں۔ ترکوں کو بار بار باور کرایا جا رہا ہے کہ پاکستانی مرد عام طور پر ایسے ہیں نہ ایسے لوگ پاکستان کی اصل پہچان ہیں۔ ان کے قریب عورت کی برابر کی عزت اہم نہیں ہے بلکہ ان کے قریب ان کی وہ انا رکاوٹ ہے کہ کوئی ان کو برا نہ کہے، کوئی ان کو ویسا نہ جان لے جیسے وہ ہیں۔

اس لئے آج یہ ان سے معافی مانگتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہم پاکستانی عورتوں سے معافی کیوں نہیں مانگتے جب ہم ان کے وحشی رویوں کا نشانہ بنتی ہیں؟ یہ ہمارے حق میں تب سامنے کیوں نہیں آتے جب سڑک پر یہی مرد پاکستانی عورت کی تصویر یا فلم بناتے ہیں، ان پر آواز کستے ہیں، ان کو چھوتے ہیں، دوپٹے کھینچتے ہیں، نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں۔ تب یہی مرد ہم پر ہنس کر چلے جاتے ہیں، دل ہی دل میں ہمارے کردار کے ٹکڑے جدا کرتے اپنی راہ لیتے ہیں۔

یہی آج ترک قوم سے معافی مانگ کر اپنے کون سے گناہ جھاڑ رہے ہیں؟ یہ پاکستانی صارفین تو ترک عورتوں کو الزام نہیں دے رہے جیسے پاکستانی عورتوں کو اپنے کیے ہر جرم اور گناہ کا مورد الزام ٹھہراتے ہیں؟ یہ ایک خاص طبقے اور سوچ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو عورت مارچ کے دنوں اور کسی بھی جنسی ہراسانی یا عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات پر پاکستانی عورت کے کردار اور زندگی میں کیے فیصلوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ یہی لوگ پاکستانی عورت کی ذات کے خلاف ہیش ٹیگ اور ٹرینڈ چلاتے ہیں۔ آج دنیا نے ان کا اصل روپ جانا ہے تو ان کو بھی عورت کے وجود کی توقیر یاد آئی ہے کہ کسی عورت کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہونا چاہیے۔

ترکی کے واقعات پاکستانی قوم کو جنسی ہراسانی کے مسئلہ پر سنجیدگی سے سوچنے پر کیوں مجبور نہیں کر رہے کہ کہیں یہ ان کا قومی شیوہ تو نہیں؟ یہ ابھی بھی اس بات کو سمجھنے سے کیوں انکاری ہیں کہ پاکستان میں اس موضوع پر متاثرین پر الزام دینے کی بجائے سنجیدہ ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری اقوام سے معافی مانگنے کے اچھے عمل کا آغاز گھر سے کریں اور اپنے گریبان میں متواتر جھانکیں کیونکہ عورتیں تو ساری دنیا میں ایک طرح سے ہی پدرشاہی کا نشانہ بنتی ہیں اور تسلیم کریں کہ ہمارے نظام میں عورت انسان کہیں بعد میں اور جنسی نمونہ پہلے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments