مجید امجد کی نظم :جیون دیس کا تنقیدی مطالعہ


پیلے چہرے، ڈوبتے سورج، روحیں، گہری شامیں!
زندگیوں کے صحن میں کھلتے، قبروں کے دروازے!
سانس کی آخری سلوٹ کو پہچاننے والے گیانی،
ڈولتی محرابوں کے نیچے آس بھرے اندیشے!
بوڑھی، کبڑی دیواروں کے پاؤں چاٹتی گلیاں،
ٹوٹتے فرش، اکھڑتی اینٹیں، گزرے دنوں کے ملبے!
دکھے دلوں کے سجدے چنتی پلکیں، بچھڑے پریمی!
بجھے جھروکوں سے ٹکراتی یادیں، ڈھلتے سائے!
بجتی ڈھولک، گاتی سکھیاں، نیر بہاتی خوشیاں،
جاگتے ماتھے، سوچتے نیناً، آنے والے زمانے!
خونی بازاروں میں بکتی اک اک میلی چوڑی،
پنکھیاں جھلتی ننگی بانہیں، نیند آنند پنگھوڑے،
کنٹھا پہنے اک متوالا بالا، ریہڑی والا،
موڑ موڑ پہ جیون رت کی زخمی کلیاں بانٹے!
جینے کے یہ سارے جتن، انمول سمے کی مایا،
سدا رہیں ان سدا بہار دکھوں کے روپ سہانے
تو بھی رک کر اس بھنڈار سے اپنی جھولی بھر لے
تیری تڑپ کا انت یہی ہے، اے دل، اے دیوانے۔ ۔

مجید امجد کی مذکورہ بالا نظم کی تفہیم کے چند خوبصورت اشارات مجھے ڈاکٹر وزیر آغا کے ایک خط سے ملے ہیں، یہ خط انھوں نے اطہر ناسک کو لکھا، مجید امجد کی نظم پر تبصرہ کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے فیض احمد فیض کے حوالے سے اس موقف کی تائید و توثیق کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ”نظم جدید کی کروٹیں“ میں اختیار کیا تھا۔ آئیے! اس مکتوب سے لطف اندوز ہوتے ہیں :

58۔ سول لائنز، سرگودھا
27 جولائی، 1985 ع

محترم اطہر ناسک صاحب

السلام علیکم۔ آپ کا خط ملا۔ آپ نے مجید امجد صاحب کی نظم ”جیون دیس“ کے بارے میں پوچھا ہے کہ اس کا موضوع کیا ہے؟ گزارش ہے کہ ان میں سے ہر پہلو کا امتیازی وصف سامنے آ گیا ہے۔ اس نے عہد پیری کو ایک کہنہ عمارت سے تشبیہ دی ہے۔ فرش ٹوٹ رہے ہیں، اینٹیں اکھڑ رہی ہیں اور دیواریں کبڑی ہو گئی ہیں، گویا گئے دنوں کا ملبہ ایک جگہ جمع ہو گیا ہے۔ شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ عہد پیری پر ماضی اور اس سے وابستہ یادیں مسلط ہو گئی ہیں۔

دوسری طرف مستقبل کو اس نے ایک دلہن کے روپ میں دیکھا ہے جس کے ”سوچتے نیناں“ آنے والے دنوں کے بارے میں کچھ نہ جاننے کے سبب طرح طرح کے وسوسوں کا شکار ہیں۔ مستقبل خوابوں کا مسکن تو ہے مگر ساتھ ہی خطرات کا مسکن بھی ہے۔ ہماری زندگیوں کے زیادہ تر دکھ مستقبل کی جانب ہی سے آتے ہیں۔

گویا ماضی انسان کو احساس زیاں بخشتا ہے اور مستقبل اسے آنے والے خطرات کے خوف میں مبتلا رکھتا ہے لیکن حال کا زمانہ ایک متوالا بالا ریڑھی والا ہے جس کے گلے میں کنٹھا ہے اور جو ہر گزرتے لمحے سے مسرت کشید کرنے کی طرف راغب ہے۔ دکھ اس ریڑھی والے کو بھی ہیں اور وہ زخمی کلیاں بھی بانٹتا ہے مگر۔ ان دکھوں کے روپ سہانے ہیں اور یہ خالص کرب کے مقابلے میں کرب انگیز مسرت مہیا کرتے ہیں۔

مجید امجد اصلاً حال کے لمحے کا شاعر ہے، وہ حال کے نقطے کو ایک لبالب بھرے ہوئے پیالے سے تشبیہ دیتا ہے۔ اکثر لوگ یا تو ماضی میں رہتے ہیں یا مستقبل میں۔ مجید امجد نے اصل زندگی حال کے اس لمحے کو گردانا ہے جس میں دکھ اور خوشیاں باہم مدغم ہو کر انمول سمے کی مایا میں ڈھل جاتی ہیں۔

آپ نے ”فیض۔ انجماد کی ایک مثال“ کے حوالے سے فیض کی شاعری کے بارے میں بھی پوچھا ہے، اس سلسلے میں صرف یہی کہوں گا کہ میں نے جو کچھ فیض کے بارے میں لکھا تھا وہ ان کے بعد کے کلام نے حرف بہ حرف سچ ثابت کر دیا ہے۔

والسلام۔ مخلص
وزیر آغا
—————————————-

وزیر آغا نے اس نظم کا مرکزی خیال زندگی بتایا ہے جب کہ اطہر ناسک نے اپنے مطبوعہ مضمون جو جنید امجد کی مرتبہ کتاب ”صورت معنی اور معنی صورت“ میں مجید امجد کی اس نظم کا مرکزی خیال فلسفہ جبر و اختیار بتایا ہے۔ آگے چل کر وہ ڈاکٹر وزیر آغا کے بیان کردہ تصور کو بنیاد بنا کر لکھتے ہیں کہ مجید امجد نے زندگی کو ایک دائرے میں شکل میں ماضی، حال اور مستقبل کی صورت میں پیش کیا ہے۔

پہلے منظر کے شروع میں یہ دکھایا گیا ہے کہ زندگی کا سورج نصف النہار پہ ہے، انسانی چہرے شام کے دھندلکوں میں کھو گئے ہیں، زندگی ایک کونے میں پڑی اوبھ رہی ہے۔ اب گزرے لمحوں کی یادیں ہی فرد کا اثاثہ بنتی ہیں۔ یاسیت، تاریکی اور افسردگی کو پینٹ کرنے کے لیے مجید امجد نے مختلف علامات، تراکیب اور شعری تلازمات سے کام لیا ہے۔ نظم کے پہلے حصے میں پیلے چہرے، ڈوبتا سورج، روحیں، گہری شامیں، قبروں کے دروازے، سانس کی آخری سلوٹ، بوڑھی کبڑی دیواری، پاؤ چاٹتی گلیاں، گزرے دنوں کے ملبے، سجدے چنتی پلکیں، بجھے جھروکوں سے ٹکراتی یادیں ایسے استعارات اور کلیدی علامات ہیں کہ جن کی تہہ میں ماضی اپنی یبوسیت کے ساتھ آ موجود ہوتا ہے۔ نظم کا دوسرا حصہ ایک نئے منظر کی نشاندہی کرتا ہے اور کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تشبیب کے بعد گریز کو اپنی گرفت میں لیا گیا ہو کیوں کہ اس حصے میں بجتی ڈھولک، گاتی سئیاں اور نیر بہاتی خوشیاں، جاگتے ماتھے، سوچتے نیناں میں آنے والے زمانے کے خواب چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں۔

اطہر ناسک کے بقول نظم کے پہلے منظر اور اس کے ذیلی منظر میں جو فرق پیدا ہوا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ پہلا شخص گیانی ہے، علم رکھتا ہے، صبر و آگاہی رکھتا ہے جب کہ دوسرا شخص سجدہ چننے والا ہے۔ شاعر نے دراصل جھروکے کے ذریعے سے پہلے منظر کی تمام جزئیات کو دیکھا ہے اور ان کا اس نامکمل عمارت سے رابطہ قائم کیا ہے جس میں صرف جھروکے ہوں اور یادیں ہوں۔

نظم کے دوسرے منظر می شادی بیاہ کا مرقع پھینکا گیا ہے۔ مانگ سجانے والی دلہن یہ سوچتی ہے کہ آنے والا کل کیسا ہو گا۔ ان دو مناظر کے بعد مجید امجد ایک تیسرے بڑے منظر کے کینوس کے ساتھ ہمارے سامنے آ موجود ہوتا ہے کہ جس میں میلے دامن والی ایک غریب ماں اپنی سنتان کی خوشیوں کے لیے اپنی میلی چوڑیاں تک بیچ دیتی ہے۔ میلی چوڑی، ننگی بانہیں، جھولا جھلاتی ماں اور اس کا ایک معصوم بچہ جو گلیوں میں مارا مارا پھرتا ہے اور پھولوں کی زخمی کلیاں بانٹنے کی کوشش کرتا ہے۔

وہ بچہ شاید اس کوشش میں سرگرداں ہے کہ کاش وہ اپنی ماں کو سونے کی چوڑیاں واپس لادے، وہ سڑی بسی اور بوسیدہ کلیاں بیچتے بیچتے یہ خواب پال بیٹھا ہے کہ انہی پھولوں کی کمائی سے وہ اپنی ماں کے اترے ہوئے چہرے ہر تازہ پھولوں کی سی ہنسی لا پائے گا۔ مجید امجد نے مجبور اور پسے ہوئے طبقے کی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے جو ہمیشہ تقدیر پرست اور غربت و افلاس کو مقدر کا لکھا ہوا مان کر وتایو فقیر کی سی زندگی گزار دیتے ہیں، وہ زندگی کے بھنڈار یعنی لنگر خانے سے خیرات وصول کرنے کو ہی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے مجید امجد کے فن پر کئی فکر انگیز مضامین لکھے ہیں اور ان کے خیال میں مجید امجد کسی مذہبی یا سیاسی نظریے کا پابند نہیں بلکہ اس کا تخلیقی شعور آفاقی نوعیت کا ہے۔ وزیر آغا کے نزدیک اس نظم کی لائن یعنی

”تو بھی رک کر اس بھنڈار سے اپنی جھولی بھر لے۔
اے دل اے دیوانے ”
تخلیق کی طرف آمادہ کرتی ہے۔

جیون دیس کی ترکیب بھی غیر معمولی نوعیت کی ہے گویا زندگی کا جغرافیہ بھی ہوتا ہے اور زمانہ مکان کا پیرایہ بھی اپنے خد و خال کا اظہار چاہتا ہے۔ جہاں زندگی پیلے سورج کی گہری شام بن چکی ہے۔ جہاں زندگی کا دروازہ قبر کی جانب کھلتا ہے۔ جیون دیس کی بوڑھی محرابوں کے آس بھرے اندیشے کیا تمثال نگاری کرتے ہیں۔ اس مقام پر مجید امجد ایسا وسیع النظر تخلیق کار ہی ٹھہر سکتا ہے جو سانس کی آخری سلوٹ بھی پہچان لیتا ہے۔

ایک طرف پاؤں چاٹتی گلیاں اور اکھڑی اینٹیں، دوسری طرف بجتی ڈھولک، گاتی اور اور نیر بہاتی ساعتیں کس قدر احساس کو جنم دیتی ہیں۔ یہ حسی پیکر تراشی مجید امجد کی کئی نظموں میں محسوس ہوتی ہے۔ آٹوگراف، بھکارن، توسیع شہر میں کرب ذات کا تجربہ در آتا ہے۔ اس نظم کو کھولتے ہوئے شاعر خود دو لخت ہوجاتا ہے یعنی خونی بازار میں بکتی میلی چوڑی کے احساس تک آ جاتا ہے۔ ”جیون دیس“ کے ان تغیرات کو احساسی سطح پر مس کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments