خزانے کو بھرنے کے طریقے


تین سو سال قبل مسیح ہندوستان میں ایک ایسا سیاسی مفکر پیدا ہوا جس نے اس وقت کے حساب سے ہندوستان میں سیاست اور حکومت کرنے کے اصول وضع کیے۔ اس کتاب کا نام ارتھ شاستر ہے۔ جس میں کوتلیہ چانکیہ سیاست کے ہر موضوع کو زیر بحث لاتا ہے۔ گو کہ یورپ والے میکاولی کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔ مگر میری ناقص رائے کے مطابق چانکیہ میکاولی سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ارتھ شاستر میں ایک باب خزانے کو بھرنے کے طریقوں پر بحث کرتا ہے۔ اگرچہ یہ طریقے اس وقت اخلاقی طور پر جائز نہیں تھے مگر سیاسی اور معاشی طور پر جائز تھے۔

پاکستان جو اس وقت خراب معیشت کی گہری دلدل میں پھنس چکا ہے اور معیشت کے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ عنقریب پاکستان دوسرا سری لنکا بن جائے گا۔ نالائق بیوروکریسی اور سیاسی کرپشن نے ہمیں اس نہج پر پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم ہر سال آئی ایم ایف اور دوسرے اداروں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

کوئی بھی حکومت جو معاشی استحکام کی حامی ہوتی ہے وہ اپنے کمائی کے طریقے ڈھونڈتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں کروڑوں کی تعداد میں ریٹیل شاپس ہیں۔ چھوٹے دکاندار تاحال ٹیکس کی مد میں کچھ بھی نہیں دیتے جبکہ ان کی آمدنی ہزاروں سے لے کر کروڑوں تک ہوتی ہے۔ اگر کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں دیکھیں تو ہر دکان پر ایک کمرشل ٹریڈ لائسنس ہوتا ہے جس کے لیے ایک خاص فیس ادا کی جاتی ہے۔ دکان کے سائز اور بزنس کے حساب سے یہ فیس طے ہوتی ہے۔

حکومت صرف یہ کرے کہ تھوک اور پرچون کی دکانوں کے الگ الگ ٹیرف بنائے اور لائسنس کی صورت میں فیس اکٹھی کرے۔ پھر پاکستان میں پرائیویٹ سکولوں اور ہسپتالوں پر لائسنس لینے کی پابندی لگا دے۔ ڈاکٹر اور طالبعلموں کی فیس کا ایک خاص حصہ حکومت کو جائے۔ ہر اسٹیبلشمنٹ کے لیے کچھ قوانین بنائے جائیں اور جو بھی خلاف ورزی کرے اس پر جرمانے لگائے جائیں چانکیہ کے مطابق تمام مندروں کی آمدنی ایک جگہ پر اکٹھی ہو اور حکومت ایک خاص مقدار میں اس سے اپنی آمدنی الگ کرے۔ اسی طرح پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں دربار موجود ہیں ان درباروں میں چندے صرف گدی نشینوں کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ اگر انہی پر چیک اینڈ بیلنس لگا دیا جائے تو ایک اچھی خاصی رقم خزانے میں جمع ہو سکتی ہے۔

بالکل اسی طرح پاکستان کی موٹر ویز اور دوسری شاہراؤں پر سپیڈ لمٹ کیمرے لگائے جائیں۔ جو بندہ بھی سپیڈ لمٹ کراس کرے اس پر خودکار طریقے سے جرمانہ عائد ہو۔ اس کے علاوہ ہر بندے پر ہیلتھ انشورنس، مکان کی انشورنس، کار انشورنس اور دکان کی انشورنس لازمی قرار دی جائے۔

اس کے علاوہ ہر پرائیویٹ ملازم کی تنخواہ صرف بینک اکاؤنٹ میں آئے۔ اس سے بینکوں کی آمدنی بڑھے گی اور تمام لوگوں کا ڈیٹا آسانی سے جمع ہو سکے گا۔

گو کہ ان میں بہت سی چیزوں پر فیس وصول کی جاتی ہو مگر حکومتی فیس بہت ہی کم ہوتی ہے ان فیسوں کو اگر زیادہ کر دیا جائے اور مکمل کمپیوٹرائز نظام بنایا جائے تو چند ہی سالوں میں پاکستان کی معیشت اپنے پاؤں پر خود کھڑی ہو سکتی ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ کوئی بھی بندہ خود سے ٹیکس دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس طرح کے اصول لاگو کر دیے جائیں تو ہم بہت حد تک اس معاشی دلدل سے باہر نکل سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ بے شمار ایسے طریقے ہیں جن سے حکومت پیسہ کما سکتی ہے۔ ضرورت صرف نیت کی ہے۔ اگر نیت صاف ہو جائے تو ہمیں ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments