بد زبانی بھی کی ان نے تو کہا بسیار خوب


کہیں پڑھا تھا کہ زمانے میں مروج اقدار فی زمانہ لوگوں کہ مزاج کا پرتو ہوتی ہیں۔ مطلب جو کثرت کا مزاج ہو گا ویسی ہی اقدار مروج ہوں گی۔ اور یہ بھی پڑھا تھا کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ اب ان دونوں باتوں کو ملا کے دیکھا جائے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ انسان کا مزاج زمانے کے ساتھ اگر بدلتا ہے تو کہیں نہ کہیں پھر اسی ڈگر پہ لوٹ آتا ہے جہاں کبھی ہوا کرتا تھا۔ اس کے لئے پنجابی کا ایک مقولہ بھی ہے جو با وجہ میں یہاں استعمال نہیں کر سکتا۔

مضمون کہ عنوان کے طور پہ میں نے ”میر“ کے جس شعر کا مصرع ثانی منتخب کیا ہے اس میں وہ ایک مغل زادے سے ہوئی تکرار کی روداد سنا رہے ہیں، جن کی بدزبانی پر بھی میر کو اس کی مدح سرائی کرنی پڑی۔ اس سے یہ پتا تو چلتا ہے کہ اس دور میں مغل زادوں کی اقدار اس نہج پر تھیں کہ میر صاحب نے بسیار خوب کہنے میں ہی عافیت سمجھی۔

میر صاحب کو گزرے دو سو سال سے زائد عرصہ ہوا، اور سلطنت مغلیہ کو سقوط پائے بھی ڈیڑھ سو سال سے بیشتر ہو چلے پر طاقت کے زوم میں بدزبانی کی قدر جیسے آب حیات پی کر آئی ہو۔ آج بھی ویسی ہی تروتازہ ہے جیسے میر نے اسے اپنے دؤر میں پایا تھا۔ البتہ جیسے زمانہ آگے بڑھا ہے تو بدزبانی میں بھی جدت سی آ گئی ہے۔ پہلے مخالف کو چوراہے پر رسوا کرنے کے لئے آوازیں کسی جاتی تھی اب کیونکہ زمانہ ڈجیٹل ہو چلا ہے تو بدزبانی میں بھی اختراع نمایاں ہے۔ اب کہ گالی کس کے نہیں منہ بھر کے دی جاتی ہے۔

دیکھا جائے تو دشنام درازی بھلے ہی ہر دؤر میں قدر معترضہ رہی ہو اس کے باوجود یہ کثیر خلق کی اپنائی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک عامیانہ طرز مکالمت ٹھہرا۔ مگر پھر بھی پسندیدگی کی حدوں سے یہ ہمیشہ کوسوں دور ہی رہی ہے۔ اور ایک عام سا بندہ بھی جو اس قدر کا حامل ہی کیوں نہ ہو اس کی توصیف کرتا بہرحال دکھائی نہ دے گا۔

مگر جب اس قدر بدزبانی کے حامل افراد عوام کے بجائے خواص ہوں تو پھر وہی ہوتا ہے جو میر صاحب نے کیا۔ اب بدزبانی غلیظ حرکت کے بجائے ہنر و حرفت بن جاتی ہے جس کی مدح سرائی میں لاؤ لشکر، بھیڑ بھڑکا نیز انبوہ خلائق بس بسیار خوب ہی کی مالا جپتے ہیں۔

اس عالم میں عدو تو ویسے ہی پتلی گلی لے لیتے ہیں، اور صاحب دستار وعز اپنی پگڑی کے پیچ سنبھالے دیوار کی اوٹ لے لیتے ہیں۔ جبکہ مصاحب اس بدزبانی میں ادب کے پہلو ڈھونڈ کر شاہ زادے (شہزادے ) کا وقار بلند کرنے کے لئے ہر قسم اور ہر سطح کی اختراع کو اس طرح اپناتے ہیں کہ توصیف تخلیق کی جاتی ہیں، جہاں توقیر کی وصف شاہ زادے سے عہد و پیما ہوتی ہے وہیں اس کی مخالفت مستحق تحقیر ٹھہرتی ہے۔

یہی حقیقت حال ہے اور یہی فی زمانہ قدر مروجہ۔ مجھے تو یہی سمجھ آیا ہے اب اگر آپ کا خیال مختلف ہے تو بھی بسیار خوب۔ آپ مختلف سوچ سکتے ہیں یہ آپ کا پیدائشی انسانی حق ہے۔ بس بات اتنی ہے کہ مغل زادہ ہو یا شہزادہ، طاقتور کی بدزبانی کی توصیف و تکریم و تشہیر نیز اس کی توثیق اور اس پر تفخر کرنے والا اپنے آپ کو چاہے کچھ بھی سمجھے پر وہ ایک آزاد انسان نہیں ہو سکتا ۔ اور جو خود آزاد نہ ہو وہ دوسروں کی آزادی کے لئے بھلا کیا کر سکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ شہزادے کی ہر بات پر بسیار خوب کہتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments