”خطرے ناک“ کی جان کو خطرہ ہے


آج کل سابق وزیراعظم عمران خان شہروں شہروں جلسے کر کے عوام کو باور کروا رہے ہیں کہ انہیں حکومت سے اس لیے نکالا گیا کیونکہ وہ امریکہ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے تھے۔ ان کے جلسوں میں اگرچہ حاضرین کی تعداد روزبروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسی لیے وہ جلسوں کے لیے نسبتاً چھوٹے گراوٴنڈ تلاش کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ فوٹو شاپ تکنیک کے ذریعے حاضرین کی تعداد کو کئی گنا زیادہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وہ حسب سابق تقریر کے نام پر لمبے لمبے بھاشن دے رہے ہیں، مذہب، حب الوطنی اور امریکی سازش کا چورن سر عام بیچ رہے ہیں اور الزام و دشنام کی وہی پرانی پٹاری کھول کر عوام کو لبھانے کے جتن کر رہے ہیں، جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔ خیر سے انہیں پیروکار بھی اپنے جیسے ملے ہیں۔ ایک جلسے کے دوران جب ایسے ہی جذباتی قسم کے مقلد سے جب اینکر نے پوچھا کہ جلسے میں کتنے لوگ تھے تو اس نے آوٴ دیکھا نہ تاوٴ فوراً جواب دیا کہ ساڑھے تین چار لاکھ لوگ تو ہمارے ساتھ آئے ہیں۔ یہ جواب سن کر اینکر کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ پھر بھی اس نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا کہ آپ کے ساتھ آنے والے قافلے میں کتنی گاڑیاں آئی ہیں؟ اس پر مقلد نے فخریہ انداز میں ترنت جواب دیا کہ ہمارے ساتھ ماشا اللہ چار کوسٹرز آئی ہیں۔ یہ سن کر اینکر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔

پچھلے دنوں جب عمران خان کی کال پر ان کے ارادت مند اور مقلدین ڈی چوک میں جمع ہوئے تھے اس موقعے پر بھی ایک جوشیلے پیروکار نے حاضرین کی تعداد بائیس ارب بتائی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ خان صاحب اپنے جلسوں اور دھرنوں میں شرکا کی کمی کا حل راگ رنگ، رقص و سرود، گانے بجانے اور عشوہ طرازیوں کے ذریعے تلاش کرنے میں ید طولٰی رکھتے ہیں۔ جلسہ بڑا نہ بھی ہو ان کے جوشیلے پیروکار جن میں بڑی تعداد نوجوان مردو خواتین کی ہوتی ہے، اپنی سرگرمیوں، کرتب بازیوں اور حرکات و سکنات سے رنگ جما ہی لیتے ہیں۔

سابق وزیراعظم اپنے مخصوص لب و لہجے میں امریکی سازش، امپورٹڈ حکومت، اداروں پر الزام تراشی، حقیقی آزادی، امریکی غلامی اور اپنی ”جان“ کے خطرے وغیرہ جیسے موضوعات پر بے تکان بولتے جاتے ہیں۔ نہیں بولتے تو اپنی ساڑھے چار سالا کارکردگی پر نہیں بات کرتے۔ وہ مسلسل اس بات پر مصر ہیں کہ

مجھ سے 4 سال کی تباہی اور بربادی کا نہ پوچھو۔

مجھ سے فرح گوگی کی کرپشن اور اس میں سے سابق خاتون اول کو ملنے والے نذرانوں کی صورت میں حصے کے بارے میں نہ پوچھو۔

یہ بھی نہ پوچھو کہ میرے وزرا کے اثاثے ان ساڑھے تین سالوں میں ڈھائی سو فیصد تک کیسے بڑھ گئے؟
کرونا فنڈ کے 1200 ارب کا بھی نہ پوچھو۔
20000 ارب کا قرضہ لے کے کہاں لگایا، اس کے متعلق بھی مت پوچھو۔
رنگ روڈ جیسے کرپشن سکینڈل کا تو ذکر بھی مت کرو۔
چینی کی قیمت باون روپے کلو سے ایک سو دس تک کیسے پہنچی یہ بھی نہ پوچھو۔
آٹا 35 روپے کلو سے 90 روپے کلو کیسے ہو گیا اس کا بھی مت پوچھو۔
ڈالر 105 سے 189 کا کیسے ہو گیا یہ بھی نہ پوچھو۔
پیٹرول 70 سے 160 کا کس نے کیا اس متعلق بھی سوال نہ کرو۔
فی یونٹ بجلی 8 روپے یونٹ سے 21 روپے تک کیسے پہنچی یہ بھی نہ پوچھو۔
مہنگائی کی شرح 4 % سے 14 پر کیسے پہنچی مت پوچھو۔

خبردار اگر کسی نے مجھ سے 1 کروڑ نوکریوں، 50 لاکھ گھروں، 350 ڈیموں، 200 یونیورسٹیوں اور 150 نئے ہسپتالوں، پانچ ارب درختوں، نوے دن میں کرپشن کے خاتمے، آئی ایم کے پاس جانے، تعلیم و صحت پر بجٹ کا مثالی حصہ لگانے اور نیا پاکستان و ریاست مدینہ کے بارے میں پوچھا تو!

تم سب پاکستانی ایسے سوالات پوچھنے کا بالکل حق نہیں رکھتے کیونکہ
میری جان کو خطرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments