ایک ارب ڈالر کی خاطر غلامی اور امیروں کا اربوں ڈالر کا ڈاکا


ہم محض ایک ارب ڈالر کے لیے پوری دنیا میں ذلیل ہوتے ہیں۔

اس ایک ارب ڈالر کے لیے کبھی ہم سعودی عرب کی منتیں کرتے ہیں اور کبھی آئی ایم ایف کے پاؤں پکڑتے ہیں۔ عالمی ساہوکار ہماری حالت پر ترس کھا کر اپنی جیب سے چند ڈالر نکالتا ہے اور سادہ کاغذ پر درجنوں شرائط لکھوا کر دستخط کروا لیتا ہے تاکہ ہم اس کا قرضہ سود سمیت واپس کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس کے بعد ہم ایک ’غیرت مند‘ قوم کی طرح وہ تمام کام کرنے میں جت جاتے ہیں جس کا آئی ایم ایف ہمیں حکم دیتا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہم ہر سال تقریباً سوا ارب ڈالر ملک کے آٹھ سو امیر ترین خاندانوں پر یوں لٹا دیتے ہیں جیسے کوئی تماش بین گانا دیکھتے ہوئے ’ویلیں‘ دیتا ہے۔

یہ آٹھ سو خاندان وہ ہیں جو ٹیکسٹائل مل مالکان اور ایکسپورٹرز بن کر ملک پر دن دیہاڑے سوا ارب ڈالر کا ڈاکا ڈالتے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ اصل میں شاید ان کی تعداد آٹھ سو سے بھی کم ہو کیونکہ یہ ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں اور کئی کمپنیوں میں بیک وقت حصہ دار ہیں۔ یہ ملک کے وہ امیر ترین لوگ ہیں جو ڈالروں کروڑ پتی ہیں مگر ریاست پاکستان ان کو سالانہ 1.2 ارب ڈالر کی رعایت دیتی ہے۔

طریقہ واردات ان کا بہت دلچسپ ہے۔ ریاست کے ان لاڈلے خاندانوں کا دعویٰ کہ ہم ملک کی خدمت پر مامور ہیں، ہم وہ کماؤ پوت ہیں جو اربوں ڈالر کی ایکسپورٹ کرتے ہیں جس سے ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے، ملک کی سیکورٹی اور دفاع کا نظام چلتا ہے لہذا ہمیں خصوصی مراعات دی جائیں۔ یہ کہانی سنانے کے بعد یہ لاڈلے خاندان حکومت سے فرمایش کرتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے ایکسپورٹ کے لیے نہایت مہنگی اور جدید مشینری لگائی ہوئی ہے اور یہ مشینری واپڈا کی ’ناقابل اعتبار‘ بجلی پر نہیں چلائی جا سکتی کیونکہ واپڈا کی بجلی کی ترسیل کا نظام ناقص ہے لہذا انہیں نہ صرف بجلی بنانے کے لیے اپنا پاور پلانٹ لگانے کی اجازت دی جائے بلکہ اس پاور پلانٹ کے لیے گیس بھی مہیا کی جائے۔

بات اگر یہاں تک رہتی تو قابل قبول تھی مگر اصل ڈکیتی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ جس گیس سے یہ بجلی بناتے ہیں وہ گیس ریاست پاکستان مہنگے داموں امپورٹ کر کے ان لاڈلے خاندانوں کو ارزاں نرخ پر مہیا کرتی ہے اور یوں اس مد میں ریاست کی جیب پر سوا ارب ڈالر کا اضافی بوجھ پڑتا ہے اور یہ سوا ارب ڈالر سیدھا ملک کے ان آٹھ سو امیر ترین خاندانوں کی تجوری میں چلا جاتا ہے جو پہلے ہی ارب پتی ہیں۔

اس بات کو سادہ الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ہمارے ملک میں جو گیس پیدا ہوتی ہے اس کے ایک یونٹ کی قیمت آپ چار ڈالر فرض کر لیں اور وہی گیس جب ہم باہر سے امپورٹ کرتے ہیں تو وہ ہمیں (فرض کریں) پندرہ ڈالر میں منگوانی پڑتی ہے مگر ہم ریاست کے ان ’دامادوں‘ سے پندرہ ڈالر کی لاگت وصول کرنے کی بجائے انہیں رعایتی قیمت یعنی چار ڈالر میں فروخت کر دیتے ہیں اور یوں ریاست اپنے ان دامادوں کو سوا ارب ڈالر کی سلامی پیش کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان نام نہاد ایکسپورٹرز نے جو پاور پلانٹ لگا رکھے ہیں وہ اس قدر فرسودہ ہیں ہیں کہ محض پچاس فیصد افادیت پر چلتے ہیں گویا جو مہنگی گیس حکومت پاکستان انہیں خرید کر دیتی ہے، یہ لاڈلے اس گیس میں سے بھی آدھی ضائع کر دیتے ہیں۔ اگر ان کے پاور پلانٹ ہی بہتر ہو جائیں تو کم از کم سوا ارب ڈالر کی رعایت گھٹ کر نصف ارب ڈالر رہ جائے گی مگر یہ لاڈلے اس بات کا بھی تردد نہیں کرتے۔ ریاست کے داماد جو ٹھہرے۔

ہمارے ملک میں ایک فضا بنا دی گئی ہے کہ پاکستان دو چیزوں پر چل رہا ہے، ایک، تارکین وطن کی ترسیلات زر اور دوسرے ایکسپورٹر کا کمایا ہوا زر مبادلہ۔ کسی بھی قسم کی بحث میں پڑے بغیر اگر ہم یہ دونوں باتیں درست بھی مان لیں تب بھی ان ٹیکسٹائل کمپنیوں اور نام نہاد ایکسپورٹرز کی مراعات کو نرم سے نرم الفاظ میں ڈاکا ہی کہا جائے گا۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ان نام نہاد ایکسپورٹرز کی جھولی میں ہر قسم کی مراعات ڈال کر بھی ملک کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ ہماری ایکسپورٹ اب بھی پچیس ارب ڈالر کے گرد ہی گھوم رہی ہیں جن میں سوا دو ارب ڈالر چاول کی برآمدات ہیں اور یہ وہ فصل ہے جس میں سب سے زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے، دوسرے معنوں میں ہم اپنا پانی ایکسپورٹ کر رہے ہیں اور بلوچستان میں لوگ پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔

ہم ساڑھے چھ سو ملین ڈالر کی صرف چائے امپورٹ کرتے ہیں جو کسی بھی ملک کی چائے کی سب سے زیادہ درآمد ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ریاست ان امیر ترین خاندانوں کو سوا ارب ڈالر کس خوشی میں دیتی ہے؟ اس کا ملفوف جواب اتنا ہی دیا جا سکتا ہے کہ یہ امیر ترین خاندان ریاست کے طاقتور لوگوں کو خوش رکھتے ہیں، انہیں اچھی طرح علم ہے کہ اس ملک میں کس شخص کو کیسے رام کرنا ہے اور کس طریقے سے ریاست کے وسائل پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنی ہے۔ یہ اپنے ذاتی جہازوں میں بیٹھ کر آتے ہیں اور پالیسی سازوں کو بتاتے ہیں کہ اگر ایکسپورٹ کے لیے ’ساز گار‘ ماحول نہ دیا گیا تو یہ بھوکے مر جائیں گے اور ان کے مرنے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

ہمارے ملک میں سالانہ جتنی گیس پیدا ہوتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ اگلے بارہ برس تک کے لیے ہے، اسی لیے ہمیں ہر سال باہر سے مہنگی گیس امپورٹ کرنی پڑتی ہے۔ اس مہنگی گیس کا ایک حصہ تو ہم آٹھ سو امیر خاندانوں کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں جبکہ باقی گیس عام صارف کو لگ بھگ اسی قیمت پر مہیا کی جاتی ہے جس قیمت پر ہمیں مقامی گیس ملتی ہے۔ عام صارف کو مہیا کی جانے والی گیس اگر عالمی قیمت کے مطابق مہیا کی جائے تو حکومت پاکستان کو دس ارب ڈالر کی اضافی آمدن ہوگی مگر ظاہر ہے کہ اس کے لیے گیس مہنگی کرنی پڑے گی۔ آپ یوں سمجھیں کہ اگر آپ کا گیس کا ماہانہ بل دو ہزار روپے آتا ہے تو گیس کی عالمی قیمت کے مطابق وہ بل بیس ہزار ہونا چاہیے لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بھی حکومت یہ ’رسک‘ نہیں لیتی۔

اصولاً یہ ہونا چاہیے کہ لوگ اپنے گھروں میں گیس کی بجائے بجلی پر کھانا بنائیں، جیسا کہ باقی دنیا میں ہوتا ہے، لیکن بجلی پر کھانا بنانے کی صورت میں آپ کا گیس کا بل تو ختم ہو جائے گا مگر بجلی کا بل بڑھ جائے گا تاہم بیس ہزار والی بریکٹ سے نیچے ہی رہے گا۔ اس سارے مسئلے کا کوئی آسان حل تو نہیں البتہ اتنا ضرور کیا جا سکتا ہے کہ عام صارف کے لئے گیس کی قیمت بڑھانے سے پہلے آٹھ سو امیر ترین خاندانوں کی سوا ارب ڈالر کی سبسڈی ختم کی جائے اور اس کے بعد گیس کی قیمت میں بتدریج اضافہ کر کے دس ارب ڈالر کے اضافی بوجھ کو کم کر کے پانچ ارب ڈالر تک لایا جائے جبکہ باقی کے پانچ ارب ڈالر کی گیس ارزاں نرخ پر ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو مہیا کی جائے۔ اگر ہم یہ دونوں کام کر جائیں تو ہماری ریاست کے پاس اگلے چند ماہ میں کم ازکم تین سے چار ارب ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے جبکہ ہم ایک ارب ڈالر کے لیے رسوا ہو رہے ہیں۔

مجھے رتی برابر بھی خوش فہمی نہیں کہ ان میں سے کسی ایک تجویز پر بھی عمل ہو گا۔ حکومت پاکستان کے پاس ایک سے بڑا ایک بزرجمہر موجود ہے جو انہیں بہترین مشورے دے سکتا ہے۔ یہ دو تجاویز تو چاولوں کی دیگ کے دو دانے ہیں، اس طرح کی کئی تجاویز ہمارے معاشی ماہرین دیتے رہے ہیں، ان میں سے کچھ قابل عمل ہوتی ہیں اور کچھ نہیں۔ لیکن سوا ارب ڈالر کا جو ڈاکا اس ملک کے زر مبادلہ پر ڈالا جا رہا ہے اسے روکنا کوئی مشکل نہیں۔ صرف دو کام کرنے ہیں، پہلا، ملک کے صاحب استطاعت طبقے سے گیس کی وہی قیمت وصول کرنی ہے جو ہم امپورٹ کے وقت ادا کرتے ہیں، دوسرا، پرائیویٹ جیٹ میں بیٹھ کر میٹنگز میں آنے والوں کو اپنا داماد سمجھنا چھوڑ دینا ہے۔ یقین کریں اس کے بعد ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments