میریٹل ریپ کی شکار خواتین اور قوانین پر بحث

دویا آریہ - نامہ نگار بی بی سی


کیا میاں بیوی کے درمیان ریپ ہو سکتا ہے؟ اب یہ سوال انڈیا کی سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔ دلی ہائی کورٹ نے جب میریٹل ریپ کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست پر سنوائی کی تھی تو اس معاملے پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا کیونکہ اس کیس کی سماعت کرنے والے دو رکنی بینچ کے جج شکدھر نے میریٹل ریپ کو غیر قانونی کہا تھا تاہم جج شنکر اس سے متفق نہیں تھے۔

اب ایک درخواست گزار نے اس معاملے میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔

شادی ایک خوبصورت اور پیار بھرا رشتہ ہو سکتا ہے تاہم کچھ معاملات میں یہ ذہنی اور جسمانی اذیت کے ساتھ ایک انتہائی مشکل رشتہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

میریٹل ریپ کی شکار خواتین اور قانون پر بحث

ایسا گھریلو تشدد جو جنسی تعلق میں بھی شامل ہو اور شوہر اپنی بیوی کے انکار کے باوجود اسے جنسی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرے تو اسے ’میریٹل ریپ‘ کہا جاتا ہے۔ دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں ’میریٹل ریپ‘ کو جرم سمجھا جاتا ہے اور ان ممالک کے قوانین میں اس جرم کی باقاعدہ سزائیں موجود ہیں۔

سنہ 2012 میں انڈیا میں چلتی بس میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی ریپ کے بعد جب خواتین کے خلاف تشدد کے قوانین کو مضبوط بنانے کے لیے جسٹس ورما کمیٹی بنائی گئی تھی اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ’میریٹل ریپ‘ کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن حکومت نے اسے قبول نہیں کیا تھا۔

دہلی ہائی کورٹ میں موجودہ عرضیوں پر حکومت نے اپنی رائے واضح نہیں کی ہے لیکن بحث کے دوران کئی دلائل سامنے آئے ہیں۔

مثال کے طور پر، ’میریٹل ریپ‘ کو جرم سمجھنا شادیوں کو ٹوٹنے کا باعث بنے گا، ’خواتین اپنے شوہروں کو ہراساں کرنے کے لیے اس قانون کا غلط استعمال کریں گی‘ اور یہ کہ ’گھریلو تشدد کے لیے پہلے سے قانون موجود ہیں‘ وغیرہ، وغیرہ۔

میریٹل ریپ پر جاری تنازع کے درمیان وزیر سمرتی ایرانی کا کہنا تھا کہ ’ان خدشات اور شکوک و شبہات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے میں نے ان ممالک کے تجربات کو جاننے کی کوشش کی جہاں میریٹل ریپ غیر قانونی ہے۔‘

’میں نے دو ممالک اور چار سوالات کا انتخاب کیا۔ پہلا نیپال ہے جو میریٹل ریپ پر قانون سازی کرنے والا واحد جنوبی ایشیائی ملک ہے اور جو ثقافتی طور پر انڈیا سے قریب ہے اور برطانیہ اپنی نوآبادیاتی تاریخ کی وجہ سے انڈیا کے قریب ہے جس کے قوانین کی بنیاد پر انڈیا کے بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں۔‘

قانون کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟

اکتوبر 1991 کی وہ سرد صبح لیزا لانگ سٹاف کو آج بھی یاد ہے۔ جب لندن کے ’ہاؤس آف لارڈز‘ میں پانچ ججوں کی بینچ نے ایک شوہر کو اپنی بیوی کے ریپ کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ریپ کرنے والا ریپ کرنے والا ہی ہوتا ہے اور اسے اس کے جرم کی سزا ملنی چاہیے، متاثرہ خاتون کے ساتھ چاہے اس کا کوئی بھی تعلق ہو۔‘

لیزا نے مجھے بتایا کہ ’ہم ہاؤس آف لارڈز کے اوپری حصے میں عوامی گیلری میں بیٹھے تھے، فیصلہ سنتے ہی ہم خوشی سے اچھل پڑے اور جشن منانے لگے، اُسی وقت گارڈز آئے اور ہمیں وہاں سے نکال دیا۔ اگلے دن یہ خبر تمام اخبارات میں صفحہ اول پر تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

‘معلوم نہیں تھا کہ شوہر کا زبردستی سیکس کرنا میریٹل ریپ کہلاتا ہے‘

’بیٹیوں کی بجائے بیٹوں کو توجہ دیں کیونکہ بعض مرد بالغ ہو کر جانور بن جاتے ہیں‘

’میریٹل ریپ کے موضوع پر لڑکیاں کسی سے بات نہیں کر سکتیں، اپنی ساس سے بھی نہیں‘

یہ لیزا اور ان کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کی 15 سالہ طویل جنگ کی فتح تھی۔

یہ سب 1970 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب برطانیہ میں خواتین کے خلاف تشدد، ان کے روزگار کے حق، معاشی آزادی جیسے کئی مسائل پر تحریک تیز ہوئی تھی۔

خواتین کا کہنا تھا کہ جب پرائے مرد کی جانب سے تشدد پر انصاف کی بات ہو رہی ہے تو شادی کے اندر جبر پر کیوں نہیں؟ وہ بھی اس وقت جب شوہر پر معاشی طور پر منحصر ہونے کی وجہ سے بیوی کے لیے اس کے خلاف آواز اٹھانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

علامتی تصویر

کچھ معاملات میں عورتیں تشدد برداشت کرتی رہتی ہیں

رفتہ رفتہ یہ آوازیں متحد ہوتی گئیں اور ’وار‘ بنا جو لیزا اور دوسری خواتین کے حقوق کے لیے لڑنے والی تنظیم ہے۔ سنہ 1985 میں ’وار‘ نے لندن میں 2000 خواتین کا سروے کیا جس میں ہر سات میں سے ایک خاتون نے کہا کہ ان کے ساتھ میریٹل ریپ ہوا ہے۔

پھر تنظیم نے پارلیمنٹ میں بل پیش کیے، ’کرمینل لا ریویژن کمیٹی‘ کو میمورنڈم دیے، میڈیا میں بات کی، دستخطی مہم چلائی اور مفاد عامہ کی درخواستیں دائر کیں۔

بالکل اسی طرح نیپال میں بھی ایک تنظیم نے یہ ذمہ داری اٹھائی۔ سنہ 2000 میں، فورم فار ویمن ان لا اینڈ ڈیویلپمنٹ (ایف ڈبلیو ایل ڈی) کی میرا ڈنگانہ نے سپریم کورٹ میں ایک کیس دائر کیا جس میں ریپ کے معاملات میں شادی شدہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم کرنے اور میریٹل ریپ کو جرم کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

میرا کے مطابق ’ہمارے معاشرے میں ایک عورت مرد کے خاندان میں اکیلی جاتی ہے، میرے خیال میں یہ ایک قسم کا تشدد ہے۔ مردوں کے غلبے والے معاشرے میں عورت کو ایک چیز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور عورت کو اس کی جگہ بتانے کے لیے ریپ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ شادی میں بھی ہم جنسی تشدد کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔‘

سنہ 2001 میں عدالت نے اُن کے حق میں فیصلہ دیا لیکن پارلیمان کو اس پر قانون بنانے میں پانچ سال لگے۔ سنہ 2006 میں جب یہ قانون بنایا گیا تو اس میں صرف تین سے چھ ماہ قید کی سزا رکھی گئی تھی۔

علامتی تصویر

’میریٹل ریپ کے معاملے میں عورت کا اپنا بیان سب سے اہم ہوتا ہے

کیا قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے؟

غلط استعمال کے خدشے کو تمام وکلا نے ایک خیال قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ شادی کا ڈھانچہ کسی قانون سے نہیں ٹوٹتا بلکہ مردوں کے اپنی بیویوں کے ساتھ ہونے والے تشدد سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔

نیپال کے ’لیگل ایڈ اینڈ کنسلٹنسی سینٹر‘ (ایل اے سی سی) کی سینیئر لیگل آفیسر پُنیے شیلا داواڑی نے اپنے 21 سال کے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ ایک عورت اپنے خاندان کو توڑنا نہیں چاہتی اور وہ اس وقت تک برداشت کرتی ہے جب تک کہ معاملہ برداشت کے باہر نہ ہو۔‘

پُنیے شیلا نے کہا کہ ’خواتین ہم سے بات کرنے میں ہچکچاتی ہیں لیکن جب وہ اپنی شرمندگی کے احساس سے باہر نکل کر کھلتی ہیں تو وہ بتاتی ہیں کہ کیسے ان کے شوہر انھیں رات بھر بغیر کپڑوں کے رہنے پر مجبور کرتے ہیں، بلیو فلم دکھا کر بالکل ویسا ہی کرنے پر مجبور کرتے ہیں جیسا فلم میں دکھایا ہوتا ہے اور غیر انسانی طریقے سے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں۔‘

نیپال میں شادی میں اس طرح کے تشدد پر کھل کر بات کرنا اب بھی مشکل ہے۔ بیس سال پہلے آنے والے عدالتی فیصلے کے بعد بھی پڑھے لکھے لوگوں میں اس حوالے سے احساس یا بیداری پیدا کرنا ایک چیلنج تھا۔

نیپال میں ‘لیگل ایڈ اینڈ کنسلٹنسی سینٹر’ کے چار مراکز ہیں اور اس میں آنے والے زیادہ تر مقدمات گھریلو تشدد کے ہوتے ہیں۔

پُنیے شیلا نے بتایا ’شروع میں ہمارے ساتھی ایڈووکیٹ کہتے تھے کہ اب ہمیں گھر جانے سے پہلے بیوی کو چھونے کے لیے پوچھنا ہو گا ورنہ وہ جیل بھیج دے گی، لیکن اب جب انھوں نے ’میریٹل ریپ‘ کے کئی دردناک واقعات دیکھے تو اس بارے میں مذاق کرنا بند کر دیا اب وہ مانتے ہیں کہ عورت کو دبا کر رکھنا درست نہیں ہے۔‘

مسئلہ غلط استعمال سے زیادہ قانون تک خواتین کی رسائی کا ہے

شمال مشرقی برطانیہ میں ایوا ویمنز ایڈ اینڈ ریپ کرائسز سینٹر چلانے والی رچنڈا ٹیلر کے مطابق ان کے پاس ہر سال تشدد کا نشانہ بننے والی ایک ہزار خواتین آتی ہیں لیکن ان میں آدھی سے زیادہ پولیس اور عدالت کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتیں۔

انھیں رہنے کے لیے جگہ، بچوں کی دیکھ بھال اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے روزگار حاصل کرنے میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیزا لانگ سٹاف کے مطابق ریپ اور گھریلو تشدد کی جھوٹی شکایات بہت کم ملتی ہیں لیکن برطانیہ میں انشورنس اور موبائل فون چوری کے کیسز میں سب سے زیادہ جھوٹے کیسز دیکھنے میں آئے ہیں۔

کون سی خواتین میریٹل ریپ کی شکایت کرتی ہیں؟

نیپال اور برطانیہ دونوں ملکوں میں شادی میں ’میریٹل ریپ‘ کے واقعات کی شناخت علیحدہ سے نہیں کی جاتی۔ پولیس اور عدلیہ کے پاس ریپ کے مجموعی کیسز کے صرف اعداد و شمار موجود ہیں۔

ایسے میں یہ جاننا مشکل ہے کہ پولیس میں ’میریٹل ریپ‘ کے کتنے کیس درج ہیں اور ان میں سزا کی شرح کیا ہے۔

برطانیہ میں گھریلو تشدد اور ریپ کے مقدمات لڑنے والی معروف وکیل ڈاکٹر این اولیوارس کے مطابق خواتین کو بااختیار بنانے کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں ’میریٹل ریپ‘ کا قانون بہت کم استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر اولیواراس کا کہنا تھا کہ ’یہاں طلاق کے کیسز بڑھ رہے ہیں، خواتین کو پرتشدد شادیوں میں رہنے پر مجبور نہیں کیا جاتا، وہ وقت پر ایسے رشتے سے باہر نکل جاتی ہیں، طلاق کے بعد اکیلے رہتے ہوئے خواتین کے بچوں کی پرورش پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی اور وہ نئے تعلقات بنانے کے لیے بھی آزاد ہوتی ہیں۔‘

اس کے ساتھ ہی برطانیہ میں گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے جگہ جگہ ‘سیف ہاؤسز’ بنائے گئے ہیں۔ اگر وہ اپنے شوہر کا گھر چھوڑنا چاہتی ہے تو وہ وہاں پناہ لے سکتی ہیں۔

علامتی تصویر

اکثر عورتیں بچوں کے بڑے ہونے تک تشدد برداشت کرتی رہتی ہیں

لیزا لانگ سٹاف کے مطابق جو خواتین ایسے جرائم رپورٹ کر رہی ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق امیر طبقے سے ہے۔

انھوں نے کہا کہ زیادہ پیسے کمانے والی یا معاشرے میں اعلی عہدے پر فائز یا پھر اثر و رسوخ رکھنے والی عورتیں ہی پولیس کے پاس جاتی ہیں اور ان کے مقدمات میں بہتر تفتیش اور سزا ملنے کی توقع کی جاتی ہے۔

برطانیہ کے مقابلے میں نیپال میں خواتین کے لیے ’سیف ہاؤسز‘ اور مفت قانونی امداد کم ہے، لیکن ’خاندان کی عزت‘ کو برقرار رکھنے کے لیے سماجی دباؤ بھی بہت زیادہ ہے۔ سشما نے کہا کہ ’وہ قانون سے واقف ہیں، لیکن ہمارے پاس آنے کے بعد بھی ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ پولس اور عدالت کے بغیر کوئی راستہ نکل آئے۔

بہت سی خواتین تشدد کی اطلاع دینے سے پہلے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار کرتی ہیں۔ صرف شدید ترین تشدد کی شکایتیں ہی عدالت تک پہنچتی ہیں۔

قانون کا کیا فائدہ ہوا؟

’میریٹل ریپ‘ قانون نہ ہو تو شادی میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خاتون کے پاس صرف گھریلو تشدد کی شکایت درج کرانے کا اختیار رہ جاتا ہے۔

گھریلو تشدد کی سزا کی مدت مختصر ہے اور ایسے میں بار بار تشدد کا شکار بننے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔

’میریٹل ریپ‘ کے لیے علیحدہ قانون کی تشکیل صرف پہلا قدم ہے۔ ریپ کے معاملات کی طرح، گھر کی چار دیواری کے اندر ہونے والے ’میریٹل ریپ‘ کو ثابت کرنا مشکل ہے۔

عورت کا اپنا بیان سب سے اہم ہوتا ہے کیونکہ طبی ثبوت اکثر مل ہی نہیں پاتے۔

سشما گوتم کے مطابق ’اکثر خواتین رضامند نہیں ہوتیں لیکن وہ شوہر کو جنسی تعلق بنانے دیتی ہیں کیونکہ وہ اسے جان سے مارنے یا اس کے جنسی اعضا کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دیتا ہے۔ جب تک وہ پولیس کے پاس جانے کی ہمت کرتی ہیں تب تک کپڑے دھل جاتے ہیں اور جسم کے زخموں کے نشان ہلکے پڑ جاتے ہیں۔‘

برطانیہ میں ’میریٹل ریپ‘ کی شکایت کی تحقیقات میں خاتون کا موبائل فون لینا، طبی اور ذاتی ریکارڈ لینا شامل ہے۔ اس سے عورتیں پریشان ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ دوسرے ریپ کی طرح ہے جب ہماری نجی زندگی کو ادھیڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔‘

ساتھ ہی رچنڈا کا کہنا ہے کہ ثبوت جمع کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں بار بار ہونے والے تشدد کی تاریخ اور وقت کی ڈائری رکھنا، کسی دوست کو مسلسل بتاتے رہنا، زخموں کی تصاویر لینا، اور فون پر ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

ان سب کی نظر میں قانون کی سب سے بڑی کامیابی یہ پیغام ہے کہ اس طرح کا تشدد غلط ہے۔

ڈاکٹر این اولیوارس کہتی ہیں ’برطانوی بچے جانتے ہیں کہ شادی میں جنسی تشدد ایک جرم ہے۔‘

اب یہ انڈیا اور نیپال جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی بحث کا موضوع ہے۔

شادی میں عورت کے کردار کے حوالے سے جو سماجی سوچ ہے وہ بھی عورت کو شکایت کرنے سے روکتی ہے۔

پُنیے شیلا داواڑی کہتی ہیں کہ انھیں عورتوں کی کاؤنسلِنگ کر کے یہ بتانا پڑتا ہے کہ جب شوہر ان کے ساتھ زبردستی کرتا ہے تو انھیں ’نہیں‘ کہنے کا حق حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32548 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments