فحش ویڈیوز کا کھیل یا عوام کے حقیقی مسائل؟


ہم دو انتہاؤں کے بیچ جھولنے والے لوگ ہیں اور انہی کے درمیان رہ کر اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ جب کسی شخص پر بھروسا کرتے ہیں تو اندھے ایمان کی حد تک جا کر اس کا شخصی بت ایک اوتار یا مستقل مسیحا کی مانند اپنے ذہن کے شعور اور لاشعور میں ایک خوبصورت فریم کی مانند سجا لیتے ہیں، پھر ایک دن اچانک سے اسی اوتار کے متعلق کچھ ایسا سامنے آ جاتا ہے جسے سن کر یا دیکھ کر ہم فوری طور پر ایکسٹریم فیصلہ لیتے ہوئے اسی اوتار کو شیطان قرار دے کر دھڑام سے نیچے پھینک دیتے ہیں۔

دیوتا سے شیطان بنانے کے یہ دو انتہائی ذہنی رویے ایک ایسی بیمار قوم اور معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں جو ہر وقت اپنی سوچ کو کسی بھی مذہبی، سیاسی یا روحانی شخصیت کے آگے بطور ہدیہ گروی رکھنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ہم اپنے مسیحا پر آنکھیں بند کر کے بھروسا کرنا چاہتے ہیں، اس کے کردار میں کسی بھی قسم کی کجی یا ٹیڑھا پن دیکھنا یا سننا نہیں چاہتے اور آج کل کے پس منظر میں بات کریں تو یہ کردار نامی مایا جال ننگی ویڈیوز پر ٹکا ہوا ہے، چونکہ ہم کردار کو مرد اور عورت کی دو ٹانگوں کے درمیان ڈھونڈتے ہیں۔

نجی زندگی یا پرسنل اسپیس ہر انسان کا نجی معاملہ ہوتا ہے، اپنی نجی لائف یا بیڈ روم میں کوئی کیا کرتا ہے ہے اس سے معاشرے کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کے نجی معاملات سے معاشرتی بندوبست پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق اس وقت پڑتا ہے جب وہ کسی بھی عوامی عہدے پر براجمان ہو کر اپنے فرائض منصبی دیانت دارانہ طریقے سے نہیں نبھا پاتا یا کوتاہی کا مظاہرہ کرتا ہے، قول و فعل میں تضاد یا مالی کرپشن کا مرتکب ہوتا ہے تو اس صورت میں وہ ریاست و معاشرہ کا مجرم یا گناہ گار کہلائے گا۔

اپنی نجی زندگی میں وہ کس قسم کا نشہ کرتا ہے یا اپنے بیڈروم میں کتنی عورتوں یا مردوں کے ساتھ سوتا ہے یہ اس کا نجی معاملہ کہلائے گا اور ہمارے اخلاقی پیمانے اتنے بلند ہونے چاہئیں کہ ہم کسی کی بھی ذاتی زندگی میں کسی قسم کی مداخلت نہ کریں۔ اس سے بڑی کمینگی کیا ہو سکتی ہے کہ ہم کسی کے بیڈروم میں تاک جھانک کرتے پھریں؟ میوچل کون سی نٹ یا باہمی رضامندی یہ دو بالغوں کو حق دیتا ہے کہ وہ اپنے وجود کے متعلق جو بھی فیصلہ کریں اس میں مداخلت کرنے کا کسی کو بھی اختیار نہیں ہوتا اور تہذیب یافتہ معاشروں میں باہمی رضامندی کے حق کو تسلیم کیا جاتا ہے۔

اگر کوئی مرد یا عورت اس بات کا اظہار کر دے کہ اس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہے تو مہذب معاشروں میں اسے جرم تسلیم کر کے گناہ گار کو عبرت انگیز سزا دی جاتی ہے۔ بند معاشرے جہاں انسانی جسم سے جڑے ہوئے مسائل پر سنجیدگی سے گفتگو کرنے کی بجائے ملفوف کرنے کا چلن ہوتا ہے وہاں جنسی درندے یا ”پیپنگ ٹام“ یعنی دوسروں کو ننگے دیکھنے کے شوقین پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ حقیقتوں پر مصلحت یا منافقت کا غلاف ضرور چڑھایا جاسکتا ہے مگر ان حقائق کو ہمیشہ کے لئے دفن نہیں کیا جاسکتا بلکہ حقائق اپنی جگہ پر ہی رہتے ہیں، بھلے بزرگی کے درجنوں چولے پہن کر انہیں رام کرنے کی جتنی بھی ناکام کوششیں کر لی جائیں۔

دھرم یا مذہب ہر انسان کا ذاتی عقیدہ ہوتا ہے، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس خدا، مذہب یا عقائد پر یقین رکھتا ہے یا وہ روزانہ کتنے نوافل ادا کرتا ہے، اپنی زندگی میں کتنے حج و عمرے کی سعادت حاصل کر چکا ہے یا ہر وقت ہاتھ میں تسبیح پکڑے رکھتا ہے۔ اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی یہ دعویٰ کرتا پھرے کہ یورپ کے طرز زندگی کو اس سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا یا جانتا۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اپنی ہر تقریر میں ریاست مدینہ کی مالا کتنی بار جپتا ہے۔

اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اپنی ذات کے طواف میں اتنا محو ہو جائے کہ اسے اس بات کا وہم ہو جائے کہ تمام دنیا کے کفار بشمول امریکہ نے ایک سازش کے تحت اس کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا ہے، اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بطور پلے بوائے یا کرکٹنگ لائف وہ دنیا کی ہر عیاشی سے لطف اندوز ہونے کے بعد سابقہ زندگی سے سجدہ سہو کر لینے کے بعد تن تنہا عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئے بطور مسیحا کے آسمانوں سے نازل ہوا ہے۔

فرق پڑے گا تو صرف اس بات سے پڑے گا کہ ساڑھے تین سالوں میں ڈلیور کیا کیا گیا ہے؟ توشہ خانہ سے کیا کچھ چرا کر بیچا گیا ہے؟ فرح گوگی کی مبینہ کرپشن کے تانے بانے کس سے ملتے ہیں؟ ننگی ویڈیوز یا بیڈ روم کی داستانوں سے عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ تو عوام کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ویڈیو ویڈیو کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ باقی سب جانتے ہیں کہ یہ ویڈیوز کیسے بنتی ہیں، کون بناتا ہے اور اس کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہوتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments