حکومت اور حزب اختلاف دونوں عوام کی فلاح کا سوچیں


ملک اس وقت بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہے اور ایسے میں سیاسی عدم استحکام جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ سیاستدانوں کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ چاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو مکمل غیر جانبدار رکھنے سے قاصر ہے۔ ان کا کردار ان کو ایسے موڑ پر لے آیا ہے کہ اب وہ پاکستانی سیاست کا گھنٹہ گھر بن چکے ہیں۔ کوئی ان کی ٹانگوں سے چمٹا ہوا ہے تو کوئی تماشا دیکھ رہا ہے اور کوئی ایسی صورتحال میں اعتماد کرنے سے اجتناب کا مظاہرہ۔

پاکستان کے ذمہ داران نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے چاہا کہ سیاست کو اپنے حال پر چھوڑتے ہوئے غیرجانبدار ہوجائیں کیونکہ نئے پاکستان کا تجربہ بری طرح ناکام ہو گیا تھا اور وقت یہ تقاضا کر رہا تھا کہ جمہوریت کو نکھرنے دیا جائے جو خوش آئند ہے۔

ایک مکتبہ فکر اس غیر جانبداری کو غیر انسانی فعل سے تشبیہ دے رہا ہے۔ فکری اختلاف تو ہو سکتا ہے مگر انداز و بیان سے غصہ، تکبر اور انا کا تاثر مل رہا ہے اور لگتا ہے رواداری، سمجھ بوجھ اور اصول و ضوابط کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔

پاکستان میں بائیس کروڑ عوام رہتے ہیں اور ضروری نہیں کہ سب کی سوچ اور مزاج ایک جیسا ہی ہو، اختلاف کا مقصد اصلاح اور قومی تعمیر ہونا چاہیے۔ اس کو انتشار، بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری سوچ کو اہمیت دی جائے تو پھر ہمیں دوسروں کی رائے کا بھی احترام کرنا ہو گا۔ جس قدر اور رویے کی ہم امید کرتے ہیں اس کا دوسروں کے لئے مظاہرہ بھی کرنا ہو گا۔

ضرورت اپنی سوچ اور عمل میں پختگی، شائستگی اور دانشمندانہ رویے کا مظاہرہ کرنے کی ہے۔ بات مطالبات کی نہیں ان کے مدلل اور وزنی ہونے کی ہے۔ تاکہ یہ دوسرے کی آمادگی کو پانے کا درجہ رکھتے ہوں اور خواہ مخواہ کے انتشار کا سبب نہ بنیں۔

جو انتخابات کے لئے زیادہ بے چین ہیں ان سے گزارش ہے کہ انتخابات اتنا مسئلہ نہیں جتنا ان کے قبولیت کا درجہ پانے کا ہے۔ پہلے ہمیں ان عوامل پر توجہ دینی ہوگی جو ان کو متنازع بناتے ہیں اور یہ حکومت سازی کی بجائے سیاسی عدم استحکام کا سبب بن جاتے ہیں۔

پاکستان کو یہاں پہنچانے میں سب حکومتوں کا ، تھوڑا یا زیادہ، حصہ ہے اور اب چاہیے کہ تمام سابقہ حکومتوں میں شامل جماعتوں کے قائدین کو اکٹھے مل کر ملک کو اس بھنور سے نکالیں اور اپنی سابقہ غلطیوں کا ازالہ کریں۔

اب ذاتی مفادات اور ضد کو چھوڑ کر قومی یکجہتی کی فضا کو قائم کرنے میں ہر کوئی اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ جس ملک نے ہمیں آزادی، آسودگی اور پہچان دی اس کی بقاء کی خاطر ہم آج اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کو ان خطرات سے آزاد کروانے میں فعال کردار ادا کریں۔

کوئی اقتدار میں ہو یا حزب اختلاف میں اگر سمجھے اور چاہے تو دونوں کا کام ایک ہی ہے پاکستان کی فلاح کے لئے کام کرنا اور سب کو چاہیے کہ ان کی سوچ اور عمل سے آئینی، جمہوری اور قومی اقدار کا تاثر ملے اور عوام کو یہ احساس ہو کہ وہ ملک و قوم کے لئے مخلص ہیں۔

ہماری قومی قیادت کی صلاحیتوں کا استعمال غلط ہو رہا ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی ایسی مفاہمت کی شکل بن جائے جس سے ان صلاحیتوں کا رخ مثبت سمت میں ہو جائے۔ اس کے لئے پی ڈی ایم اور تحریک انصاف میں صبر تحمل اور بردباری کا مزاج رکھنے والے قائدین کو اکٹھے کر کے موقعہ فراہم کیا جاسکتا ہے جس میں فوج بہترین کردار ادا کر سکتی ہے۔

یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب پاکستان کی حکومت، اپوزیشن اور ذمہ داران اس بارے باہمی مفاہمت سے فیصلے کریں۔ اپوزیشن حکومت کو سازگار ماحول مہیا کرے۔ حکومت کو بھی سب کچھ بھول کر اپوزیشن کے قائدین کو ساتھ لے کر چلنے کی دعوت دینی چاہیے۔

حکومت اور اپوزیشن کے اخلاص کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کہاں تک ایسی انتخابی اصلاحات لانے میں کامیاب ہوتے ہیں جن سے عوامی مینڈیٹ چرانے سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔

حکومت اور اپوزیشن کے اخلاص کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کہاں تک ایسی انتخابی اصلاحات لانے میں کامیاب ہوتے ہیں جن سے عوامی مینڈیٹ چرانے سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔

اور اگر سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین اپنی اس انتشار کی روش کو نہیں چھوڑتے تو پھر عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اچھے اور برے کی پہچان کریں۔

عوام اپنے شعور کو استعمال کرتے ہوئے مفاد پرست طبقے کی حوصلہ شکنی کریں اور پاکستان کے عوام کی خوشحالی کے خواب دیکھنے اور اس کی تعبیریں دینے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

پاکستانی عوام کو مفاد پرست سوچ کے حامل افراد کی سیاسی چالوں کو سمجھتے ہوئے اپنی آزادانہ سوچ سے رائے قائم کرنی چاہیے اور ان کا ساتھ دینا چاہیے جو ہر مشکل حال میں پاکستان کے مفادات کے ساتھ کھڑے رہے ہیں جن کی کارکردگی کا ایک ریکارڈ ہے اور جن کی سیاسی کوششوں اور حکومت سازی سے پاکستان نے ہمیشہ ترقی کی ہے۔

جن کی کوششوں سے پاکستان آج ایک ایٹمی طاقت ہے، جن کی کوششوں سے پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور اپنے اندرونی تخریب کاری اور بد امنی جیسے حالات پر قابو پایا۔ جن کی کوششوں سے آج پاکستان کی روشنیاں بحال ہوئیں۔ جن کی کوششوں سے پاکستان کے اندر مواصلات اور معلومات تک رسائی کے ذرائع کے جال بچھائے گئے۔

عوام کا ان کا ساتھ دینا چاہیے جو اس وقت مفاہمت کی بات کرتے ہیں جو سیاسی عدم استحکام کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ جو انتقام کی سیاست کو ختم کر کے باہمی مساوات، یکجہتی اور معاشی ترقی کی بات کرتے ہیں۔

عوام کو سیاسی بہروپیوں کو بھی پہچاننا ہو گا جو منافقت کی سیاست کرتے ہیں۔ انتخابات کے دوران ان کا منشور کچھ اور ہوتا ہے اور جب وہ اقتدار میں پہنچ جاتے ہیں تو ان کے مقاصد کچھ اور نکلتے ہیں۔ ان کے قول و فعل کا تضاد، وعدہ خلافیاں اور حکومتی معاملات میں بے ایمانی کو پہچاننا اور ان کا مواخذہ کرنا ہو گا۔

ملکی وسائل اور مراعات سے آسودہ حال وہ طبقہ جن کو فراغت کے یہ لمحات عوام کا پیٹ کاٹ کر مہیا کیے گئے ہیں، سے بھی گزارش ہے کہ غریب عوام اور اس ملک پر رحم فرمائیں اور اپنی سوچوں اور ناکام تجربات سے توقف بخشیں اور اس ملک کے عوام کو ان کی خواہش کے مطابق فیصلہ کرنے دیجئے۔

ہمیں سوچنا ہو گا کہ یہ متکبرانہ، آمرانہ اور انتہا پسندانہ سوچیں کہاں پروان چڑھ رہی ہیں اور ان کا سد باب کیسے کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان کے بارے نہ سوچا گیا تو یہ ہماری معاشرت، سیاست اور حکومت کو تو تباہ کر ہی چکی ہیں وطن کو بھی تباہ کر دیں گی۔

اگر آج ہم نے وطن کی آواز پر لبیک نہ کہا تو شاید یہ ہمارے ناز نخرے اٹھانے کے قابل نہ رہے تو ایسے میں نقصان ہمارا ہو گا ہماری نسلوں کا ہو گا۔ جنہوں نے اپنی دولت اور اولاد باہر چھوڑی ہوئی ہے اور پاکستان محض سیاسی کھیل اور تفریح کے لئے آتے ہیں ان کو پہچانیں اور ان کے شر سے اپنے آپ کو بچائیں۔ آج وقت ہے کہ کچھ کر لیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments