مریخ پر دریافت ہونے والا دروازہ: غار یا گزرگاہ؟


یہ تصور برسوں سے مسلسل ہمارے بحث کا موضوع رہا ہے کہ ذہین زندگی یا کسی بھی طرح کی زندگی دوسرے سیاروں پر موجود ہو سکتی ہے؟ کچھ کا دعویٰ ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ماورائے زمین مخلوقات کی کائنات میں کسی نہ کسی کونے میں موجودگی ہو۔

امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ”ناسا“ (نیشنل ایروناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن / قومی انتظامیہ برائے ہوا بازی اور خلائی تحقیق) نے ایسے آثار کی تلاش کی کوشش کرنے کے لیے بے شمار تحقیقات کی ہیں، جو اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ آیا زمین کے پڑوسی سیاروں پر کوئی ذہین تہذیب موجود ہے / رہی ہے یا نہیں۔

آج کل، ”کیوریوسٹی روور“ نامی ’ناسا‘ کی مریخ پر جاری تحقیقاتی مہم (جو ایک دہائی سے زائد عرصے سے اس سرخ سیارے پر موجود ہے ) پر سوار ’مسٹ کیم‘ نامی مخصوص خلائی کیمرے کے ذریعے حال ہی میں لی گئی کئی تصاویر کے منظر عام پر آنے کے بعد سے مریخ دنیا کا مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔ مگر ان تصاویر کے حوالے سے کئی تنازعات بھی پائے جاتے ہیں۔

ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیارے کی چٹانی سطح میں ایک کمال کا دروازہ ہے، جس نے سوشل نیٹ ورکس اور ”ریڈٹ“ جیسے فورمز پر دنیا بھر کے لوگوں میں بہت زیادہ حیرت پیدا کی ہے، جن میں سے اکثریت کے مطابق یہ دروازہ ’ماورائے زمین زندگی‘ کا ثبوت ہو سکتا ہے، مگر ’ناسا‘ نے اپنے طور پر اس عجیب و غریب واقعے اور چٹانی وجود کی سائنسی وضاحت کی ہے۔

فلکیات اور خلا کے معاملات پر کام کرنے والے معروف محقق اور ان موضوعات پر کئی کتب کے مصنف ’اسٹورٹ اٹکنسن‘ نے اس متعلق کہا ہے کہ: ”مارس کیوراسٹی (مشن) کو مریخ پر کوئی ’خفیہ دروازہ‘ نہیں ملا، جو مریخ کے کسی ممکنہ چیمبر، مقبرے یا شاپنگ مال کی طرف جاتا ہو۔ یہ کسی قدیم چٹان میں فطری طور پر صرف ایک فریکچر ہے، جو بمشکل اتنا بڑا ہے کہ وہاں سے شاید کوئی بلی بھی گزر سکے۔“

معروف برطانوی سائنسی مصنف اور ویڈیو گیم پروگرامر، ’مک ویسٹ‘ کا اس بارے میں خیال ہے کہ ”بہت وسیع تناظر میں، مریخ پر یہ ’دروازہ‘ محض ایک ٹوٹی ہوئی چٹان کے نتیجے میں بننے والا صرف ایک خلا ہے۔“

’ناسا‘ کے سائنسدانوں نے اس ’بیرونی دروازے‘ کو سیارے پر ہونے والی زلزلے کی حرکات سے منسوب کیا ہے۔ ماہرین یقین سے کہتے ہیں کہ کرۂ ارض کی طرح کرۂ مریخ پر بھی زلزلے بہت عام ہیں، اور ایسا زلزلہ آخری مرتبہ رواں برس 4 مئی کو ریکارڈ کیا گیا تھا، جو ممکن ہے کہ اس ”دروازے“ کی تشکیل کا سبب بنا ہو۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک قدرتی حرکت ہے، جسے ”شیئر فریکچر“ کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے چٹان زلزلے کی حرکات سے تناؤ جمع کرتی ہے اور بالآخر ٹوٹ جاتی ہے۔

سائنس کی دنیا میں مقبول ہونے والے کئی حقائق کی تصدیق کرنے کی ذمہ دار ویب سائٹ ’سنوپ‘ نے اس عجیب و غریب ’دروازے‘ کے بارے میں اپنا حتمی تجزیہ دینے سے پہلے، اپنے ماہرین کے ذریعے مزید معلومات کے حصول کے لیے ”ناسا“ کی ’جیٹ پروپلشن لیبارٹری‘ (جے پی ایل) سے رابطہ کیا۔ ’سنوپس‘ ویب سائٹ کے مطابق ”ایجنسی کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری (جے پی ایل) نے کہا کہ یہ دراصل ایک چٹان میں ایک چھوٹے سے شگاف سے بنا ایک بہت بڑا سوراخ تھا“ ۔

’ناسا‘ کے جے پی ایل کے ترجمان کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے ’سنوپ‘ ویب سائٹ کی جانب سے بتایا گیا کہ: ”سائنسدانوں کی ٹیم کے مطابق یہ شگاف تقریباً 30 سینٹی میٹر آر پار اور 45 سینٹی میٹر چوڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ’آؤٹ کرپ‘ کے ساتھ لکیری فریکچر ہیں، اور یہ وہ جگہ ہے، جہاں کئی لکیری فریکچر آپس میں ملتے ہیں۔“

اس متعلق ’ٹام میٹکلف‘ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے : ”اگرچہ جمعرات کو ’ناسا‘ کے ’کیوریوسٹی روور‘ کی جانب سے جاری کی گئی ایک تصویر میں یہ“ اجنبی دروازہ ”ظاہر ہونے کے بعد انٹرنیٹ صارفین حیرانی اور تجسس کے مارے اچھل پڑے ہیں، مگر یہ دروازہ مریخ کے ممکنہ باشندوں کے لیے نہیں ہے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ یہ مریخ کے منظر نامے کی کئی میں سے صرف ایک قدرتی خصوصیت ہے۔

’کیوروسٹی‘ (مشن) نے 7 مئی 2022 ء کو ”مسٹ کیم“ کے ساتھ مذکورہ تصویریں کھینچیں، جنہیں ’ناسا‘ نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں جاری کیا۔ ’کیوروسٹی‘ کی کئی تصاویر کو ایک ساتھ ملا کر ’ناسا‘ نے ایک پینوراما تصویر بھی بنائی ہے۔ مریخ کی ارضیات کا مطالعہ کرنے والے برطانوی ماہر ارضیات، ’نیل ہڈسن‘ کو یہ ایک بہت ہی دلچسپ تصویر لگتی ہے۔ لیکن یہ انہیں کسی قدرتی کٹاؤ کی طرح کے کسی عمل کا نتیجہ لگتی ہے۔ ہڈسن نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ”یہ تصویر بتاتی ہے کہ مریخ کی اس حالیہ تحقیقاتی اور دریافتی مہم ’روورز‘ کی بھیجی گئی تصاویر مستقبل میں کتنی مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ تصویر ظاہر کرتی ہے، کہ ان تصاویر کی مدد سے مریخ کے ساتھ ساتھ کیا زمین کو بھی مزید سمجھا جا سکتا ہے؟“

فرانس کی یونیورسٹی آف نانٹیس میں سیاروں کے ماہر ارضیات ’نکولس مینگولڈ‘ جو ’کیوروسٹی‘ اور ’پرسیورنس روورز‘ کے ارضیاتی ڈیٹا کا مطالعہ کرنے پر مامور ہیں، نے ”لائیو سائنس“ کو بتایا کہ ”کئی سراغوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس تصویر میں نظر آنے والی 3 فٹ ( 1 میٹر) سے کم اونچائی والی یہ چیز دروازہ نہیں ہے۔“ انہوں نے اس حوالے سے ازراہ تفنن کہا کہ ”اگر اس چیز کو دروازہ مان لیا جائے، تو یہ اس بات کا اقرار ہو گا کہ مریخ پر اگر کوئی مخلوق بستی ہے / تھی، تو کیا اس کا قد اس قدر چھوٹا ہے؟ / تھا؟“

وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، کہ مریخ کا یہ ’دروازہ‘ قدرتی طور پر چٹان کی ساخت سے بن گیا ہے۔ ان کے مطابق، ”یہ دو سمتوں میں واقع ہونے والے فریکچر ہیں، جو دروازے کی شکل کے ساتھ ایک ’اوپن باکس‘ بناتے ہیں۔ اس سب میں کچھ بھی مصنوعی نہیں ہے۔“

انٹرنیٹ پر گردش کرتے دیگر غیر حقیقت پسندانہ اور غیر سائنسی تبصروں میں کچھ اناڑی لوگوں کا یہ تکہ بھی ہے کہ یہ یسوع مسیح (حضرت عیسیٰ) کا خلائی مقبرہ بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ کے لیے یہ ایک پالنا اور کسی کی نظر میں یہ کسی ویڈیو گیم میں استعمال ہونے والے کسی ’سیۡو پوائنٹ‘ کی طرح ہے۔ لیکن اس کا اصل حقیقت پسندانہ اور سائنسی جواب یہ ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دروازے کی طرح دکھنے والی یہ چیز درحقیقت دو چٹانوں کے مابین پیدا ہونے والا ایک خلا ہے، جو یقینی طور پر مریخ کی سطح پر زلزلے جیسی کسی حرکت یا قوت کی وجہ سے عمل میں آیا ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر یہ گزر گاہ نما نظر آنے والی چیز، دروازہ نہیں ہے تو کیا ہے؟ ’سرچر‘ نامی برطانوی جیو سائنس فرم کے نائب صدر ’ہڈسن‘ کا خیال ہے کہ ”یہ ’دروازہ‘ فطری چٹانی کٹاؤ کی وجہ سے بنا ہے۔ چٹانی پرتیں، جنہیں ’اسٹراٹا‘ کہا جاتا ہے، (جنہیں اس تصویر میں نظر آنے والی چٹان پر بائیں جانب اور دائیں جانب سے اونچے ڈوبتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ) یہ ’سلٹ بیڈز‘ (مٹی کے مجموعے ) ہیں، جن میں سخت ’سینڈی بیڈز‘ (ریت کے مجموعے ) نمایاں ہیں۔ وہ شاید 4 ارب سال پہلے تلچھٹ کے حالات میں جمع کیے گئے تھے، جو اجتماع ممکنہ طور پر کسی دریا میں یا ہوا سے اڑنے والے ٹیلے میں ہوا ہو۔“

انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ مریخ پر چلنے والی ہواؤں نے اس سطح کو ختم کر دیا ہے، جب سے وہ سطح پر ظاہر ہو گئی ہیں، اور اس تصویر میں یہاں تک کہ ”دروازے“ کے اندر بھی ان کے نشانات دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ”اس تصویر کو اگر غور سے دیکھا جائے، تو اس میں کئی قدرتی عمودی فریکچر بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایسا لگتا ہے کہ مریخ پر چٹانوں کے موسم کی وجہ سے ہونے والے فریکچر (ٹوٹ پھوٹ) سے چھوٹی سی غار یا“ دروازہ ”بن گیا ہے، جہاں عمودی فریکچر سطح کو آپس میں ملاتے ہیں۔“ انہوں نے کہا کہ ”ایسا لگتا ہے کہ دروازے کے سائز کا غار بنانے کے لیے ایک بڑا پتھر اپنے وزن کے نیچے گر گیا ہے۔ کشش ثقل مریخ پر اتنی مضبوط نہیں ہے، لیکن یہ ایسا کرنے کے لیے کافی مضبوط ہے۔“

اس سب میں اصل قصور تو اس چٹان کا ہے، جو اس ’دروازے‘ کے بالکل دائیں جانب سطح پر پڑی ہے، جس کا عمودی کنارہ ہموار دکھائی دیتا ہے۔ ممکنہ طور پر اس لیے کہ یہ (شاید) نسبتاً حال ہی میں گری ہو اور مریخ پر چلنے والی ہواؤں کی وجہ سے طویل عرصے تک بے نقاب نہ ہوئی ہو۔ یہ سب فطری عمل ہی کا نتیجہ ہے، جس قسم کے مظاہر آپ فصلوں کی طرح زمین پر بہت سے بنجر مقامات پر بھی دیکھتے ہوں گے ۔ ”

انٹرنیٹ پر جاری بھانت بھانت کی قیاس آرائیوں نے اس امکان کو بڑھا دیا ہے کہ دروازے کی شکل کی یہ چھوٹی غار، زلزلے والے ’مارسکویک‘ کی وجہ سے بنی ہوئی ہو سکتی ہے۔ مریخ پر اب تک ریکارڈ کیے گئے دو سب سے بڑے ’مارسکیوکس‘ میں سے ایک 2021 ء کے اواخر میں آیا تھا۔ لیکن مینگولڈ اپنے اس خیال پر مطمئن ہے کہ ”شاید یہ پورا پہاڑ مکمل طرح ٹوٹ گیا ہے، اس کے لیے بڑے مارسکویکوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بجائے، چٹان کے بے نقاب ہونے سے پہلے اس کی دراڑ میں پانی کے ہائیڈرولک دباؤ سے ٹوٹ پھوٹ پیدا ہونا ممکن ہے۔ یا وہ سیارے کی سطح پر درجۂ حرارت میں موسمی تغیرات کی وجہ سے تھرمل (حرارتی) تناؤ کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔“

جرمنی کے شہر بریمن میں قائم جیکبس یونیورسٹی کے ماہر ارضیات، ’اینجلو پیو روسی‘ نے اس دروازے نما وجود کے بارے میں کہا: ”یقیناً یہ ایک بہت ہی خوبصورت ٹوٹی ہوئی چٹان ہے۔ دروازے کی شکل والی غار چٹان میں نظر آنے والے فریکچر سے بنی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ”اس حوالے سے منطقی انجام تک پہنچنے والے اہم کام کا ایک حصہ مریخ پر نظر آنے والے ارضیاتی ڈھانچے کی زمین پر مشابہت تلاش کرنا بھی ہے، اور یہاں ہمارے اپنے سیارے پر بہت سے اس سے ملتے جلتے ڈھانچے موجود ہیں۔

جو ہمیں یہ معمہ سلجھانے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ اور مریخ کے (ممکنہ) ساکنین کا شاید اس کے ساتھ تعلق بہت کم ہو۔ کوئی بھی بلاک، جو فریکچر سے الگ تھلگ ہوا ہو، بالآخر نیچے کی طرف گر سکتا ہے، چاہے اس کی ڈھلوان نرم ہی کیوں نہ ہو۔ فریکچر بذات خود براہ راست ’مارسکوکس‘ سے نہیں بنتے ہیں، بلکہ صرف ارضیاتی وقت کے ذریعے اخترتی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ’اخترتی‘ سے مراد وہ تبدیلی ہے، جو کسی جسم یا چیز کو بیرونی قوتوں، جیسے کسی تناؤ یا دباؤ سے اس کے سائز یا قدرتی شکل و ہئیت میں تغیر سے پیدا ہوتی ہو۔“

غرض یہ کہ کچھ دن قبل جاری ہونے والی اس دروازے کی تصاویر کو دیکھ کر جو چہ میگوئیاں شروع ہوئیں تھیں، کہ یہ واضح طور پر مریخ پر کسی پر اسرار مخلوق کی موجودگی کا اشارہ ہے، کیونکہ بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ اس قدر صاف ستھری تعمیر شاید فطری تغیر سے ممکن نہ ہو۔ اس تصور کو سائنسدانوں اور خلائی محققین نے یکسر رد کرتے ہوئے، اس جسم کو محض فطری تغیر یا تصادم سنگ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اور دنیا کی ایک کثیر آبادی کو اس بے جا تجسس سے باہر نکالا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments