فوج کا سیاسی کردار کیسے محدود کیا جائے؟



پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں دو سو روپے کی حد عبور کر گیا۔ اس کی متعدد تکنیکی معاشی وجوہ بیان کی جا سکتی ہیں لیکن اس تاثر کو زائل نہیں کیا جاسکتا کہ ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشی انحطاط کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی بے عملی ہے۔ شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی حکومت ابھی تک تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا بنیادی فیصلہ بھی نہیں کر سکی حالانکہ پاکستان کو اسی ایک فیصلہ کی بنیاد پر آئی ایم ایف اور دیگر اداروں و ممالک سے امداد مل سکتی ہے۔

حکومت کے علاوہ پس پردہ کٹھ پتلیوں کو نچانے والوں کی طرح فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھنے والے عناصر بھی یہ سب تماشا خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اتحادی حکومت کو قائم ہوئے پانچ ہفتے مکمل ہونے والے ہیں لیکن اب یہ مبہم کا سا اعلان سامنے آیا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ اسمبلیوں کی موجودہ مدت پوری ہونے تک قائم رہے گا۔ اتحادی جماعتوں کے ایک اجلاس میں فوری انتخاب کروانے کے امکان کو رد کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ حکومت انتخابی اصلاحات، نیب کے ڈھانچے میں تبدیلی اور معاشی چیلنج سے نمٹنے کے اقدامات سے پہلے اقتدار سے دست بردار ہو کر نئے انتخابات کروانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ اعلان تاخیر سے ہی سہی پھر بھی خوش آئند ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے کم از کم ایک بے یقینی کا خاتمہ تو کیا گیا ہے۔ تاہم جس اعلان میں حکومت نے قدم جمائے رکھنے اور پائدار اور دوررس فیصلے کرنے کا اعلان کیا ہے اسی میں ایک ایسا عنصر بھی شامل ہے جس سے موجودہ انتظام کی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا اسلام آباد میں قائم حکومت واقعی فیصلے کرنے اور ان پر عمل درآمد کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اتحادی حکومت اول تو دس گیارہ اتحادی شراکت داروں کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ ان میں سے ایک پارٹی کے چند ارکان بھی ادھر ادھر ہوجائیں تو حکومت کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں رہے گی۔ اسی حوالے سے یہ بھی حیران کن امر ہے کہ جب کئی ماہ کی بھاگ دوڑ اور مشاورت کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے اور ان کی جگہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تھا تو کیا اس وقت یہ طے نہیں کیا جانا چاہیے تھا کہ اتحادی حکومت چند ہفتوں کے لئے قائم ہوگی، چند ماہ کام کرے گی یا باقی ماندہ مدت پوری کرنے تک کسی صورت حکومت کو چیلنج کرنے اور اس کے مقاصد کی تکمیل میں روڑے اٹکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہی مقاصد کے لئے ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی منتخب وزیر اعظم کو طویل اور وسیع تر گٹھ جوڑ سے فارغ کرنے کا اہم فیصلہ کیا گیا تھا۔

ایک فنکشنل حکومت کو گرانے اور نئی حکومت قائم کرنے سے پہلے نئی حکومت کی مدت کے بارے میں باقاعدہ اعلان کی ضرورت تھی تاکہ عوام کو بھی قدرے اطمینان نصیب ہوتا کہ نیا بین الجماعتی اتحاد مسائل حل کرنے کے لئے ٹھوس کام کرنے کی نیت سے اقتدار سنبھال رہا ہے۔ اور اس کے پاس مشکلات کے بھنور سے نکلنے کا قابل عمل منصوبہ موجود ہے جس میں عمران خان مخالف عناصر کے بقول ملک کو پھنسا دیا گیا تھا۔ اگر مزید ڈیڑھ برس تک انہیں حکومت میں رہنے دیا جاتا تو ملک کو ناقابل یقین نقصان ہوجاتا۔ تاہم اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ کسی واضح پلان کے بغیر اقتدار سنبھالنے والے شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں نے محض کسی انجانے خوف سے بچنے کے لئے عدم اعتماد جیسا انتہائی اقدام کیا تھا۔ گزشتہ روز اتحادی جماعتوں کے لیڈروں نے ایک اجلاس میں اگرچہ آئندہ سال اگست تک حکومت قائم رکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے اپنی بے بسی اور کمزوری کا برملا اعتراف بھی کر لیا ہے کہ اس فیصلہ سے ملٹری اسٹبلشمنٹ کو آگاہ کیا جائے گا۔ فوج کے ترجمان ایک سے زائد بار سیاست سے تائب ہونے اور غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ حکومت میں شامل تمام لیڈر اپنے اپنے طور یہ بتاتے رہے ہیں کہ اب فوج کا سیاسی فیصلوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اتحادی پارٹیوں کے سربراہی اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے فوج کو مطلع کرنے یا دوسرے لفظوں میں اس سے ان فیصلوں کی تائید حاصل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے؟

کیا اس اعلان سے حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ فوج خواہ سیاست سے دور بھاگنے پر تیار ہو لیکن سیاسی پارٹیاں بہرصورت اسے ساتھ ملا نے کی خواہش رکھتی ہیں۔ یہ اعلان اس شبہ کی تائید کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کسی سیاسی ضرورت کے تحت فوری طور سے عدم اعتماد لانے اور نئی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کا مقصد عمران خان کو بطور وزیر اعظم پاک فوج کا کوئی ایسا سربراہ مقرر کرنے سے روکنا تھا جو نہ صرف ایک بار پھر تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کو یقینی بناتا بلکہ اپوزیشن لیڈروں کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتا۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو تمام سیاسی جماعتوں کا عمران خان کے خلاف اتحاد کسی بڑے سیاسی مقصد یا انقلابی معاشی حکمت عملی نافذ کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ اس اقدام کے ذریعے درحقیقت اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب یہ صورت حال ہے کہ عمران خان اس بنیاد پر فوج کے خلاف مہم چلا رہے ہیں کہ اس نے ’غیر جانبدار‘ ہونے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اور حکومت ملکی حالات کی سنگینی کا واسطہ دیتے ہوئے فوجی قیادت کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اسے کمک فراہم کی جائے تاکہ وہ عمران خان کے چیلنج کا مقابلہ کرسکے۔ دونوں سیاسی گروہ دراصل اپنے اپنے طور پر فوج کو اپنی سیاسی کامیابی کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف ملک کو بحران میں چھوڑ کر چار پانچ روز لندن میں گزار کر آئے ہیں تاکہ نواز شریف سے مشورے کرسکیں۔ پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ ان سے یہ مشورہ کرنے گئے تھے کی ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کو دفن کرنے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کیا جائے؟

دوسری طرف عمران خان بدستور حکومت کے علاوہ اداروں پر دباؤ بڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ چند روز پہلے تک سپریم کورٹ پر رات گئے عدالتیں کھولنے کے فقرے اچھالنے والے عمران خان اب شق 63 اے کے حوالے سے مشورہ نما فیصلہ کے بعد چیف جسٹس اور عدالت عظمی کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اس تعریف کا مقصد کسی درست فیصلے کی توصیف نہیں ہے بلکہ ملک کے طاقت ور اداروں کو یہ پیغام دینا مطلوب ہے کہ اگر انہیں شدید تنقید اور گمراہ کن کردار کشی نما پروپیگنڈا سے محفوظ رہنا ہے تو وہ بہر طور تحریک انصاف اور عمران خان کے موقف کی تائید کریں۔ فوج غیر جانبداری چھوڑ کر اعلان کرے کہ ملک کا وزیر اعظم ’چور‘ ہے، الیکشن کمیشن فیصلہ کرے کہ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس محض جھوٹ کا پلندا ہے، سپریم کورٹ تحریک انصاف کو ہر معاملہ میں ریلیف دے اور عمران خان کے ہر جھوٹے اور بے بنیاد دعوے پر از خود نوٹس لے کر حکومت کو زچ کرنے میں تحریک انصاف کا دست و بازو بن کر دکھائے۔

گزشتہ روز سامنے آنے والے اکثریتی فیصلہ کو بنچ کے دو ججوں کے علاوہ آئینی ماہرین کی بڑی اکثریت نے عدالتی اختیار سے غیر ضروری تجاوز قرار دیا ہے۔ آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استغاثہ کے کام میں مداخلت کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے سوموٹو اختیار کے ذریعے پانچ رکنی بنچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدام سپریم کورٹ میں ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے ججوں کی طرف سے بالواسطہ طور سے عمران خان کو ’مطمئن‘ کرنے کا اشارہ ہے۔ اگر چیف جسٹس برطرف کیے گئے وزیر اعظم کو رجھانا ہی چاہتے ہیں تو وہ فطری طور سے انتقال کرنے والے افسروں کی موت کی تحقیقات کا کام بھی اپنے ہاتھ میں لے لیں کیوں کہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے متعدد کو زہر دے کر مارا گیا ہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں کے کیسز کی تحقیقات کر رہے تھے۔ ملکی بیوروکریسی کو یوں سیاسی و عدالتی کھینچا تانی کا حصہ بنا کر کسی بھی حکومتی انتظام کو کمزور تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے ملک میں کوئی فعال اور فیصلے کرنے کی اہل حکومت کو کام کرنے کا موقع نہیں مل سکتا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے تو اس میں سپریم کورٹ کا ادارہ بھی شامل ہے جسے اپنی خواہش کے مطابق نہ تو آئین کی تشریح کرنی چاہیے اور نہ ہی انتظامی معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی روایت راسخ کرنی چاہیے۔

گوجرانوالہ میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان نے اب خود کو کسی حکومتی عتاب سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ ترپ کا پتہ پھینکا ہے کہ پولیس افسروں کے اہل خاندان ان کے حامی ہیں اور اسلام آباد کی طرف مارچ میں فوجیوں کے اہل خاندان بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ ملکی تاریخ میں فوج کو تقسیم کرنے اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی ایسی گھناؤنی کوشش اس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی۔ کیا ملک کی کسی عدالت اور فوجی قیادت کو سابق وزیر اعظم کے یہ سارے حربے دکھائی نہیں دیتے۔ یا وہ جان بوجھ کر حکومت وقت کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے عمران خان کے عتاب کا سامنا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ وہی صورت حال ہے جو اگست 2014 میں ڈی گراؤنڈ پر تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران دیکھنے میں آئی تھی۔ ملک کے سپہ سالار اگر اپنے نائبین کی سیاسی وابستگی یا فوجی خاندانوں کے دباؤ کی وجہ سے عمران خان کو منہ زور ہونے کا موقع دینا چاہتے ہیں تو حکومت وقت کو معاملات میں فوج سے تعاون کی درخواست کرنے کی بجائے خود فیصلے کرنے اور قوم کو اعتماد میں لینے کا اقدام کرنا ہو گا۔

ایسا اقدام مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور اتحاد میں شامل دیگر سیاسی پارٹیوں کے وعدوں کے عین مطابق ہو گا۔ اس حوالے سے یہ فیصلے اہم ہوں گے : 1 ) نئے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں سنیارٹی کا اصول نافذ کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔ 2 ) مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون منسوخ کیا جائے۔ 3 ) فوج کو وزارت دفاع کے اعلامیہ کے ذریعے مطلع کیا جائے کہ حکومت سے کوئی بھی درخواست صرف سیکرٹری وزارت دفاع ہی کے ذریعے کی جائے۔ 4 ) قومی سلامتی کمیٹی میں عسکری قیادت کی نمائندگی محدود کی جائے۔ 5 ) واضح کیا جائے کہ قومی سلامتی سمیت تمام اہم امور پر فیصلے کرنے کا اختیار ملک کی سول حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے کسی فیصلے پر فوج کی رائے ضرور سنی جائے گی لیکن فیصلہ سیاسی قیادت کرے گی۔ 6 ) آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سیاسی شعبوں کو بند کیا جائے۔ 7 ) وہاں سیاست دانوں کے بارے میں جمع کیا گیا سارا مواد کسی مناسب طریقے سے ضائع کیا جائے۔ یہ اصول طے کیا جائے کہ کسی عسکری ادارے کو سیاست دانوں سمیت ملک کے شہریوں کی نگرانی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

70 برس تک فوج قومی مفاد کا نام لے کر تمام اہم قومی فیصلے کرتی رہی ہے۔ ون یونٹ جیسے ناکام منصوبے سے لے کر مشرقی پاکستان میں فوج کشی اور اب عمران خان کی صورت میں ہائبرڈ نظام تک کے سب فیصلے غلط ثابت ہوئے اور ان کی بھاری قیمت اس ملک کو ادا کرنا پڑی ہے۔ بلوچستان، خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقوں اور سندھ میں بڑھتی ہوئی ناراضی عسکری اداروں کی زیادتی اور نگرانی ہی کا نتیجہ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاست دان تمام فیصلے کریں اور ان کی ذمہ داری قبول کریں۔ فوج کو سختی سے اس کے آئینی کردار تک محدود کیا جائے۔ یقین کیا جائے اب یہ کام نہ ہوسکا تو فوج اور سیاست میں چوہے بلی کا کھیل کبھی ختم نہیں ہو گا۔ اس کھینچا تانی میں ملک کا مستقبل اور یہاں آباد عوام کی فلاح و بہبود داؤ پر لگی رہے گی۔

ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف کمزور وزیر اعظم ہوں لیکن وہ محمد خان جونیجو سے زیادہ کمزور نہیں ہیں جنہوں نے منہ زور فوجی آمر ضیا الحق کو چیلنج کرنے کا حوصلہ کیا اور ملکی سیاسی تاریخ میں تکریم حاصل کی۔ اس وقت فوجی قیادت مارشل لگا کر تمام سول حقوق مسدود کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ فوج کا سیاسی کردار اب ختم نہ کیا گیا تو شاید بہت عرصہ تک اس کا موقع نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments