سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ” تخت لاہور“


گزشتہ کئی برسوں سے ملکی سیاست کی آئینی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ کا سنایا ہر فیصلہ ”تاریخی“ پکارا جاتا ہے۔ منگل کی شام بھی آئین کے آرٹیکل 63-A کی بابت ایسی ہی تشریح سامنے آئی ہے۔ عمران خان صاحب کے مخالفین اس کی وجہ سے پریشان ہوگئے۔ ان کے دیرینہ حامیوں کو البتہ شادمانی محسوس ہوئی کیونکہ ان کی دانست میں مذکورہ فیصلے نے ”لوٹوں“ کو تباہ کر دیا۔ وہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ یہ سوچتے ہوئے انہوں نے حمزہ شہباز شریف کی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب سے فراغت کی امید بھی باندھ لی۔

سوشل میڈیا کی بدولت پیچیدہ ترین آئینی اور قانونی معاملات کے سادہ ترین جوابات کے عادی ہوئے ماحول میں ”عقل“ کا استعمال کارزیاں ہے۔ اسے لب بام کھڑے ہوکر محو تماشہ ہی رہنا چاہیے۔ عمر کے آخری حصے میں ذاتی طورپر میں بھی ایسا رویہ اختیار کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہوں۔ میری مرحوم والدہ ویسے بھی اکثر ایک پنجابی محاورہ استعمال کیا کرتی تھیں۔”دلیلے پئے تے کموں گئے“۔ اردو میں اس کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ دلائل میں الجھ کر انسان مفلوج ہو جاتا ہے۔ کسی کام کے قابل نہیں رہتا۔

منگل کی شام آیا فیصلہ سیاست کی موجودہ شکل پر کیسے اثرانداز ہو گا؟ اس سوال کا جواب میں نے ٹی وی چینلوں پر ”ماہرین قانون“ کے تبصرے سنتے ہوئے تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔لیپ ٹاپ کھولا اور جاننا چاہا کہ ٹویٹر اور فیس بک پر چھائے خواتین و حضرات مذکورہ فیصلے سے کیا نتائج برآمد کررہے ہیں۔میری جستجو نے ایک تصویر کی بدولت بالآخردل میں بیٹھے ”رانجھا“ کو راضی کر دیا۔

جس تصویر  نے دل موہ لیا اس میں پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے اور اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے صوبہ پنجاب کے عمران خان صاحب کے ہاتھوں لگائے وزیر اعلیٰ کی تصویر تھی۔ عثمان بزدار صاحب انتہائی معصوم شکل کے ساتھ ہاتھ میں تسبیح لئے آسمان پر نگاہ ٹکائے ہوئے تھے۔ اس تصویر کے نیچے جو کیپشن لکھے گئے ان کا اجتماعی پیغام یہ تھا کہ مظلوم کی آہ کی طرح عثمان بزدار صاحب کی ا?ہ بھی بہت پراثر ہے۔جو کوئی بھی ان کا بھلا نہیں چاہتا بالآخر ذلیل وخوار ہوتا ہے۔جو پیغام ابھرا اس سے وقتی طورپر لطف اندوز ہونے کے بعد میرا جھکی ذہن مگر یہ سوچنے کو بھی مجبور ہو گیا کہ بزدار صاحب کے لئے حقیقی مشکلات کھڑی کرنے کا آغاز کس نے کیا تھا۔

اگست 2018 سے رواں برس کے ابتدائی مہینوں تک عمران خان صاحب عثمان بزدار کا جارحانہ دفاع کرتے رہے ہیں۔ وہ انہیں ”وسیم اکرم پلس“ بتاتے رہے۔ ”تخت لہور“ کے غلام ہوئے اذہان نے مگر تونسہ سے ابھرے اس سادہ مزاج بلوچ کی قدر نہ کی۔ ان کی سادگی کا مذاق اڑاتے رہے۔ میانوالی سے ابھرے مگر ایک دردمند دانشور ہیں۔ ادب کے شیدائی بھی ہیں۔میں ایک بڑے معاصر کے ادارتی صفحات پر چھپا ان کا کالم باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ منصور آفاق ان کا اسم گرامی ہے۔ فقط ان کے کالموں سے علم ہوتا کہ عثمان بزدار فرہاد کی لگن کے ساتھ پنجاب کے پسماندہ علاقوں کو جدید تر شہری سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے سوا تحریک انصاف کے مستند پرستاروں میں سے کسی اور  نے بزدار صاحب کی محنت کو میڈیا میں اتنے خلوص سے پروموٹ نہیں کیا۔

لاہور میں پیدا اور بڑا ہونے کی وجہ سے میں اکثر سرائیکی وسیب کے دردمند دوستوں کے طعنوں کی زد میں رہا ہوں۔ مجھ جیسے قلم گھسیٹ کو وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی متعارف کردہ روایات کا نمائندہ تصور کرتے ہیں۔حالانکہ میں نے سکھوں کو 1960 کی دہائی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ اپنے گھر سے رنگ محل مشن ہائی سکول جاتے ہوئے ان کے جتھے مختلف دکانوں پرچند مخصوص ایام میں خریداری کرتے ہوئے دکھائی دیتے۔ہمیں بتایا جاتا کہ وہ اپنے مقدس مقامات کی ”یاترا“ کے لئے آئے ہیں۔

ہمارے دماغ میں یہ بھی بٹھایا گیا تھا کہ سکھوں کے ہر وقت ”بارہ بجے“ رہتے ہیں۔ اسے ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کسی سکھ یاتری کو اکیلے دیکھتے تو ”سردار جی ٹیم کی ہویا اے؟“ کا سوال پوچھ کر دوڑ لگادیتے۔اس مسخرہ پن کے باوجود میری نسل کے لہوریوں کو مشرقی پنجاب سے ہمارے شہر منتقل ہوئے خاندانوں کی سنائی وہ کہانیاں کبھی نہیں بھولیں جو قیام پاکستان کی وجہ سے ابھرے فسادات کا کلیدی ذمہ دار سکھوں کے جتھوں کو ٹھہراتی تھیں۔ غارت گری کی بے تحاشا داستانیں۔

1984میں لیکن جب میں پہلی بار بھارت گیا تو دلی میں مقیم کئی سکھ خاندانوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔اس برس کے اکتوبر میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کی دوکانوں اور گھروں کو انتقام کی وحشت کے ساتھ جلایا گیا تھا۔ اپنی جان بچانے کی خاطر کئی سکھوں نے اپنے بال اور داڑھیاں بھی صاف کروا دی تھیں۔ وہ ہاتھ میں سکھوں سے مخصوص ”کڑا“ بھی نہیں پہنتے تھے۔میرے ہاتھ میں ”منت“ کا کڑا ہے۔چہرے پر فرنچ کٹ سے ملتی داڑھی بھی۔میرے کڑے اور داڑھی کو دیکھ کر کئی سکھ گھبرا جاتے۔ مجھے فکر مند ہوکر ”احتیاط“ کا مشورہ دیتے۔ نجانے مگر کیا بات تھی کہ دلی کے عام شہری خواہ وہ ہندوہوں یا مسلمان مجھے دیکھتے ہی ”پاکستان“ سے آیا مسافر تصور کرتے۔

روانی میں لکھتے ہوئے اب خیال یہ آیا ہے کہ میں بچپن اور جوانی کی یادوں میں کھوگیا ہوں۔ توجہ جبکہ عثمان بزدار صاحب پر مرکوز رکھنا تھی۔ان کی جانب لوٹتے ہوئے فوری خیال یہ بھی آیا ہے کہ ہمارے سرائیکی وسیب کے مہربان دوست ”تخت لہور“ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ سے وابستہ تصور کرتے ہیں۔ وہ وسیب کے ملتان جیسے تاریخی شہر کو غارت گری کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔ بزدار صاحب نے بطور وزیر اعلیٰ مگر شاہی قلعہ لاہورکے مرکزی دروازے کے سامنے واقع ایک گوشے میں اسی غارت گر تصور ہوتے مہاراجہ کا مجسمہ نصب کروایا تھا۔ اسے دیکھنے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا کیونکہ لاہور اب کبھی کبھار ہی جانا ہوتا ہے۔ اس مجسمے کی لیکن جو تصاویر دیکھی ہیں ان میں مہاراجہ گھوڑے پر کسی دلاور فاتح کی طرح سوار تھا۔بعدازاں خبریں یہ بھی آئیں کہ ”نامعلوم افراد“ کے گروہ اکثر اس مجسمے کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میری خواہش تھی کہ عثمان بزدار صاحب نے سرائیکی وسیب کا نمائندہ ہوتے ہوئے بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کو جو ”عزت“ بخشی اس پر سنجیدگی سے کچھ لکھا جائے۔ اس کے مجسمے کی بزدار صاحب کی نگرانی میں تنصیب ”تخت لہور“ اور سرائیکی وسیب کے مابین برسوں سے دلوں میں پلتی بدگمانیوں کو بھلانے کی دلیرانہ کاوش بھی شمار ہوسکتی تھی۔ نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ کو گورے نسل پرستوں کی غلامی سے آزاد کروانے کے بعد ایسے ہی اقدامات لئے تھے۔ عثمان بزدار کے دل میں موجود نیلسن منڈیلا کو لیکن ہمارے کسی لکھاری نے سراہا ہی نہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ منگل کی شام سپریم کورٹ کے سنائے ”تاریخی“ فیصلے کے بعد وہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر لوٹ پائیں گے یا نہیں۔ عمران خان صاحب مذکورہ تناظر میں اگرچہ ”پگڑی“ گجرات کے چودھری پرویز الٰہی کے سرپر رکھ چکے ہیں۔دیکھتے ہیں حمزہ شہباز سے ”تخت لہور“ کو وہ کیسے آزاد کروائیں گے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments