روہیلوں کی پیاس اور محب فقیر کی جھات


صحراۓ ہند کا شمالی بھاگ جس کو عرف عام میں روہی چولستان کہا جاتا ہے, جب ازل کی خشک سالی ہو اور مئی جون کے مہینوں میں سوریا بادشاہ غصے میں آکے قہر برسا رہا ہو, جب ٹوبے خشک ہو چکے ہوں تب انسان تو انسان, گاۓ بھیڑ بکریوں حتیٰ کہ اونٹوں کے ہونٹوں پر بھی پپڑیاں جم جاتی ہیں۔ ایسے میں روہیلے (چولستان کے واسی) اپنے گوپے چھوڑتے نہیں, وہ نہری علاقوں کی جانب نقل مکانی کی بجاۓ محب فقیر کو یاد کرتے ہیں۔ کیونکہ روہیلے آج بھی یہی کہتے ہیں کہ محب فقیر پانی لیکر ضرور آ رہا ہو گا اور ان کے سوکھے گلے تر کرے گا۔
روہیلوں کی فوک مِتھ کے مطابق محب فقیر خشک سالی کے موسم میں پانی کا مٹکا سر پہ اٹھا اچانک نمودار ہوتا ہے اور پیاسوں کو پانی ضرور پلاتا ہے, محب فقیر عام طور پر کڑکتی دوپہر میں اڑتی ریت کے مرغولوں سے اچانک نمودار ہوتا ہے یا پھر آدھی رات کو آتا ہے اور سوۓ ہوؤں کے منہ میں تھوڑا تھوڑا پانی ٹپکا کر واپس اونچے ٹیلوں کے عقب میں غائب ہو جاتا ہے۔
محب فقیر کوئی ماضی قدیم کا دیو مالائی کردار نہیں بلکہ بیسویں صدی کی پہلی تین دہائیوں کا جیتا جاگتا کردار ہے, ایک تھوڑا فربہ چھ فٹ قد کا درمیانی عمر کا آدمی سر پہ بڑا سا پانی کا مٹکا اٹھاۓ, پیٹ کے ساتھ مٹی کی چھوٹی چھوٹی لوٹیاں باندھے گرمی کے موسم میں روہی کے گوٹھوں میں پھرتا رہتا اور پیاسوں کو پانی پلایا کرتا تھا, خاص طور پر جہاں بھی لوگوں کا مجمع لگا ہوتا چاہے میلے ٹھیلے ہوں, عید کے اجتماع یا کشتی, کبڈی, نلی گِسنی کی ملھنڑ (میچ) ہو تو محب فقیر پانی کا مٹکا سر پہ اٹھاۓ اچانک پہنچ جاتا تھا اور لوٹیاں بھر بھر کے پیاسوں کو پانی پلاتا تھا۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا کہ بعض واہیات قسم کے لوگ پانی پینے کے بعد لوٹی زمین پر پھینک کر توڑ دیتے, اس پر بھی محب فقیر غصہ نہ کرتا بلکہ دوسری لوٹی نکال کے بھرتا اور کہتا ˝میرے بچے لو اور پانی پیو”۔
غرض محب فقیر کی پوری زنگی چولستان واسیوں کو پانی پلاتے گزر گئی, کسی کو نہیں معلوم کہ محب فقیر کہاں سے آتا تھا اور کہاں چلا جاتا, کہاں پہ رہتا تھا, کسی نے کبھی محب فقیر روٹی مانگتے نہیں دیکھا تھا۔ ان دنوں کی یادیں تازہ کرکے عمر رسیدہ روہیلے بتاتے ہیں کہ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے روہی میں چرواہے بھیڑ بکریاں چراتے ہوۓ پانی کی چھاگل ساتھ نہیں رکھتے تھے کیونکہ انہیں یقین ہوتا کہ محب فقیر روہی میں موجود ہے اور جب پیاس لگے تو محب فقیر پانی پلانے ضرور آۓ گا۔ محب فقیر کا چھوٹا سا مزار ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں ہے اور آج بھی ان کی درگاہ پر پانی کے مٹکے رکھے ہیں, جو بھی زائرین وہاں جاتے ہیں پیاس بجھانے کیلئے مٹکے کا پانی ضرور پیتے ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ان مٹکوں میں کون پانی بھرتا ہے تاہم مقامی لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ رات کو جب سب سو جاتے ہیں تو محب فقیر قبر سے نکل کر مٹکوں میں پانی بھرتا ہے۔ بعض ایسی کہانیاں بھی مقامی سطح پر نائٹ کرمنلز کے حوالے سے مشہور ہیں کہ فلاں شخص رات کے تیسرے پہر فلانی بستی سے گاۓ چوری کرکے جارہا تھا تو اچانک کیا دیکھا کہ محب فقیر درگاہ کے مٹکوں میں پانی بھر رہا ہے۔ وہ شخص اچانک اس طرح محب فقیر کو سامنے پا کے ڈر گیا, تاہم محب فقیر  نے ہاتھ میں پکڑی لوٹی آگے کر کے شفقت بھرے لہجے میں کہا ˝میرے بچے لو پانی پی پی لو تمھیں پیاس لگی ہو گی”۔ کہتے ہیں اس شخص نے شرم سے پانی پانی ہو کر چوری کی گاۓ چھوڑ دی اور بھاگ کھڑا ہوا۔ اسی طرح ایک اور کہانی بھی مقامی سطح پر کافی مشہور ہے کہ کوئی نوجوان عورت آدھی رات کو درائی بھگتا کے (ڈیٹ لگا کے) واپس گھر جاری تھی, درگاہ کے قریب پہنچی تو دیکھا کہ محب فقیر مٹکوں میں پانی بھر رہا ہے, لڑکی پہ نظر پڑتے ہی محب فقیر نے لوٹی آگے کرکے کہا ˝میڈی دھی پانڑی پیتی ونج”  (بیٹی پانی پی لو)۔
آج اسی روہی چولستان میں کئی ہفتوں سے پیاس کی تباہ کاریاں جاری ہیں, ٹوبے خشک ہو چکے, ہر طرف گاۓ, بھیڑ بکریوں, اونٹوں کے ڈھانچے بکھرے پڑے ہیں۔ روہیلے اپنے گوپوں سے باہر نکل کر ایڑیاں اٹھا اٹھا کے ریت کے مرغولوں کو تکتے ہیں, ہو سکتا ہے ریت کی دھند میں سے محب فقیر سر پہ مٹکا اٹھا نکلے اور ان کی پیاس کا دارُو بنے۔ یہ الگ بات کہ ان کو محب فقیر تو نظر نہیں آتا تاہم پچاس ڈگری سینٹی گریڈ کی کڑکتی دھوپ میں اچانک ٹریکٹر کی آواز سنائی دیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ریت کے مرغولے سے ایک ٹینکر برآمد ہوتا ہے, مڈگارڈ پہ سفید دوپٹے سے سر منہ ڈھانپے ایک ادھیڑ عمر خاتون بیٹھی ہے جو روہیلوں کی پیاس بجھانے کا سبب بن رہی ہے۔
یہ خاتون سرائیکی تریمت (عورت) تحریک کی رہبر ادی عابدہ بتول ہے جو محب فقیر کے نقش قدم پہ چلتے ہوۓ اپنے دو کمسن بھانجوں کے ساتھ کراچی سے روہی پہنچی ہے, جو روانہ احمد پور شرقیہ سے پانی کا ٹینکر لیکر اعجاز الرحمٰن اور عبدالخالق اِچھا کے ہمراہ نکلتی ہے اور ایک دن ٹوبھا انگت را, تو دوسرے دن ٹوبھا ڈاہراں, تیسرے دن کوٹ ڈروار تو اگلے روز قلعہ بجنوٹ پہنچتی ہے۔ ٹینکر کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی گاڑی بھی چل رہی ہوتی ہے جس میں پانی کی بوتلیں بھری ہوتی ہیں۔ ٹینکر گوٹھ واسیوں اور ان کے مویشیوں کیلئے جبکہ صاف پانی کی بوتلیں صرف اور صرف سکول کے بچوں اور بچیوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ نہ ٹی وی کیمرے نہ ڈی ایس این جی گاڑیاں اور نہ ہی لائیو کوریج, دراصل یہ خاتون مٹی کا قرض چکانے روہی چولستان پہنچی ہے کیونکہ ان کی جڑیں محراب والا کی دھرتی میں پیوست ہیں۔
ہمارے قابل احترام دوست نذیر لغاری آجکل فکر مندی سے لبریز ایک پیغام روزانہ کی بنیاد پر فیس بک پہ پوسٹ کرتے ہیں مگر ان کو یقین دلاتا ہوں کہ ویڈیوز کے اندر میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مہان سرائیکی شاعر سفیر لشاری اور محب فقیر روہی میں ہر ہر جگہ پہ ادی عابدہ بتول کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں, بھلا ان کی موجودگی میں اس عظیم خاتون کو کوئی گزند کیونکر پہنچا سکتا ہے۔
پیاسوں تک پانی پہنچانا تو ابابیلوں کی روایت ہے, بلکہ پیاسوں کی پیاس بجھانا تو حسینیت کا شیوہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روہی چولستان میں جب بھی کال پڑتا ہے تو کڑکتی دھوپ میں ریت مرغولوں کے اندر سے نکل کر محب فقیر روہیلوں تک پہنچ جاتا ہے, کبھی مرد کے روپ میں تو کبھی عورت کے روپ میں, کیونکہ محب فقیر اپنے فرض میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ یہ مناظر دیکھ کے روہیلوں کی باتیں سچ لگنے لگتی ہیں کہ اپنے گوپے چھوڑ کے مت جاؤ, پچاس ڈگری سینٹی گریڈ کی دھوپ میں جب پیاس سے نڈھال ہو کر گوپے سے باہر نکلو گے اور ایڑیاں اٹھا کے دیکھو گے تو محب فقیر سر پہ پانی کا مٹکا رکھے ریت کے مرغولوں سے نکل کر آ رہا ہو گا!

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments