عمران خان کی زبردست واپسی منصوبے کا حصہ ہے


عمران خان پچیس سالہ پراجیکٹ ہے جو کہ کہتے ہیں جنرل حمید گل نے شروع کیا جس کی مارکیٹنگ ایسے مربوط طریقے سے کی گئی کہ عوام تو کجا بڑے بڑے دانشور دھوکہ کھا گئے۔ تو کیا یہ ساری مارکیٹنگ، اتنی محنت، اتنا لمبا سیاپا صرف پونے چار سالہ حکومت کے لئے تھا؟ بالکل بھی نہیں! حقیقت کیا ہے، آئیے جانتے ہیں۔

اب یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرتی ہے۔ بائیس سالہ پراجیکٹ کو کامیاب بنانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں ہانکا کیا اور تمام الیکٹیبلز اور اپنی وفادار جماعتوں کو پی ٹی آئی میں دھکیل دیا۔ جیسے تیسے حکومت بنوائی گئی اور پھر ہر ہر قدم پر اس حکومت کی سپورٹ کی گئی۔ بلکہ بقول چودھری پرویز الہی نیپیاں تک بدلی گئیں۔

پھر ایک دم ایسا کیا ہوا کہ بقول عمران خان اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو گئی؟ اور خان کی حکومت جو بظاہر انتہائی مضبوط دکھتی تھی ایک دم دھڑام سے آن گری؟ اصل میں جب ”انہوں“ نے دیکھا کہ خان مقبولیت کی آخری سیڑھی پر ہے، خواہ جتنی بھی کوشش کر لی جائے اگلا الیکشن جیتنا ناممکن ہے اور نواز شریف کی واپسی نوشتۂ دیوار ہے۔ نواز شریف جو کہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔

خیر، تو ان کو اپنی بائیس سالہ محنت ضائع اور پراجیکٹ ناکام ہوتا نظر آیا، تو یہیں سے سارے کھیل کا آغاز ہوا۔ اپنی جماعتوں اور الیکٹ ایبلز کو آنکھ کا اشارہ کیا گیا۔ اور پھر جو کچھ ہوا منصوبے کے عین مطابق تھا۔

دوسری طرف افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکہ کو ہماری ضرورت ختم ہو گئی۔ اس نے ہمیں استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا۔ تو جن کے سارے کھاتے کھابے امریکہ کی مرہون منت ہیں ان کے لیے بڑی مشکل پیدا ہو گئی تو امریکہ کو راہ راست پر لانے کے لئے ایک طرف اپنے پراجیکٹ کے ذریعے امریکی سازش کا بیانیہ پروان چڑھایا گیا، عوام میں امریکہ مخالف جذبات پیدا کیے گئے۔ اور دوسری طرف روس سے پینگیں بڑھا کر امریکہ کو پیغام دیا گیا کہ اگر تم ہمارے ساتھ بے رخی برتو گے تو ہم عوام کے دباؤ میں آ کر روس کی گود میں جا بیٹھیں گے۔ اس لئے ہمیں نوٹ دکھاؤ اور ہمارے لاڈ اٹھاؤ جیسا کہ پہلے اٹھاتے تھے۔

اپنے ”ایجنٹ“ کے ذریعے تیسرا بیانیہ یہ پروان چڑھایا گیا کہ فوج نیوٹرل ہو گئی ہے بلکہ اینٹی عمران خان ہو گئی ہے اور اس نے آئندہ سیاست سے توبہ کر لی ہے۔ اب جب دوبارہ عمران خان جیت کر آئے گا تو کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر بیٹھ کر آیا ہے۔ اسی عمران خان کی زبان سے فوج کی ریپوٹیشن بحال کروائی جائے گی اور اگر کوئی کمی بیشی ہوئی تو اس کو پورا کرنے کے لئے ہو سکتا ہے بھارت سے کوئی چھوٹا موٹا ایڈونچر بھی کر لیا جائے۔

نواز شریف کو جب 2017 میں اقامہ رکھنے پر نکالا گیا تو اس نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا اور پوچھا کہ مجھے کیوں نکالا تو اس کے اگلے دن وہ جیل میں تھا۔ اور وہاں سے سیدھا ملک بدر۔ مریم نے فوج مخالف بیانیہ اختیار کیا تو اس کو بھی قید کر دیا گیا۔ لیکن یہاں عمران خان ببانگ دہل فوج کو برا بھلا کہتا ہے۔ جانور کہتا ہے حتی کہ غدار، میر جعفر اور میر صادق کے القابات سے نوازتا ہے۔ لیکن اس کو میڈیا براہ راست نشر کرتا ہے وہ بھی پرائم ٹائم میں۔

نواز شریف جب فوج کا نام لیتا تھا تو اس کو بیپ لگا کر سینسر کر دیا جاتا تھا اور کیمرہ کٹ کر کے دوبارہ سٹوڈیو پہنچ جاتا تھا لیکن اب بغیر کسی سینسر کے گالیاں اور الزامات گھنٹوں لائیو چلتے ہیں۔ اور پھر بھی عمران خان کو وزیر اعظم لیول کی سیکورٹی اور وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ اگلے جلسے میں پہنچا دیا جاتا ہے

نواز شریف نے جب جرنیلوں کے نام لئے تو اس کا خطاب میڈیا پر دکھانے پر پابندی عائد کر دی گئی لیکن عمران خان روز فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا ہے لیکن کوئی پابندی نہیں لگتی، ایسا لگتا ہے راتوں رات میڈیا کو اتنی آزادی مل گئی ہے جتنی پچھلی سات دہائیوں میں کبھی نہیں ملی۔

ایک مہینے میں ایسا کیا ہوا کہ معیشت جو کہ بقول عمران خان راکٹ کی رفتار سے اوپر جا رہی تھی وہ چار ہفتوں میں پاتال میں جا گری یہاں تک کہ ملک دیوالیہ ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ ایک دم سارے معاشی ماہرین برسات کے مینڈکوں کی طرح باہر نکل آئے اور مل کر دیوالیہ دیوالیہ ٹرانے لگے۔ ایسا کیا ہوا کہ معیشت کا ہرا بھرا جنگل کچھ ہی دنوں میں لق و دق صحرا میں تبدیل ہو گیا۔

کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ جو ہر روز اتنے بڑے بڑے جلسے ہو رہے ہیں۔ ان پر خرچ کرنے کے لیے کروڑوں کہاں سے آتے ہیں؟ کس کے حکم پر ان جلسوں کی مارکیٹنگ کے انداز میں کوریج کی جاتی ہے؟ فارن فنڈنگ کیس ایک دفعہ پھر کیسے پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ عدلیہ کے ذریعے کیوں مستقبل میں تحریک عدم اعتماد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جاتا ہے؟

عوام کو عمران خان بتاتا ہے کہ میری حکومت امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ نے گرائی لیکن وجوہات بتانے سے انکار۔ آپ نے ایسا کیا کر دیا کہ راتوں رات امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ آپ کے خلاف ہو گئے۔ آپ نے امریکہ کو ایسی کیا زک پہنچائی کہ اس کو آپ کے خلاف سازش کرنی پڑی۔ اور اس سازش میں اسٹیبلشمنٹ، اپوزیشن اور آپ کی اتحادی جماعتیں سبھی دل و جان سے شامل ہو گئے۔

آخر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بائیس سالہ سرمایہ کاری اس گھوڑے پر صرف پونے چار سال کے لئے کی گئی تھی؟ یا یہ دوسرے میگا فیز کی تیاری ہے۔ حالات و واقعات بتاتے پیں کہ یہ دوسرے فیز کی تیاری ہے۔ اور عدلیہ کے فیصلے نے اس کو تقویت بخشی ہے۔ عمران خان پھر آئے گا اور اتنی قوت کے ساتھ کہ اٹھارہویں ترمیم ہٹانے اور صدارتی نظام لانے کے ادھورے پروجیکٹ کو اکیلا پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments