دود چراغ محفل: نصف صدی کے قصے


سن 1971 میں جاوید احمد (غامدی) صاحب نے اتوار کے روز صبح کے وقت گلبرگ کی ایک مسجد میں درس قرآن دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ مسجد گلبرگ کی مین مارکیٹ کے پاس بی بلاک میں جناب غلام احمد پرویز صاحب کی رہائش گاہ سے تھوڑے فاصلے پر واقع تھی۔ مسجد کے امام مولوی شاہ محمد انیس صاحب تھے۔ وہ جماعت اسلامی کے اچھرہ میں قائم کیے گئے سکول نیا مدرسہ میں عربی کے استاد بھی تھے۔ دیسی لہجے میں قرآن حکیم کی بہت عمدہ تلاوت کرتے تھے۔

ان سے ربط ضبط بڑھا تو ایک دن مولوی صاحب نے ساٹھ کی دہائی کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ چونکہ وہ گلبرگ کے علاقے کی مسجد میں امام تھے اس لیے وہاں رہائش پذیر اعلیٰ افسروں کے ساتھ بھی ان کا ملنا جلنا تھا۔ سی آئی ڈی کے ایک ڈی آئی جی صاحب ان کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ وہ مولوی صاحب کو گھر پر بھی مدعو کر لیتے تھے۔ ایک ملاقات میں مولانا کوثر نیازی صاحب کا،جو ان دنوں جماعت اسلامی میں تھے، ذکر آ گیا تو ڈی آئی جی صاحب نے کچھ اس قسم کا جملہ کہا، وہ اپنا ہی آدمی ہے۔ یہ سن کر مولوی شاہ محمد صاحب کافی پریشان ہوئے۔ وہ سوچنے لگے کہ آیا یہ زبان کی لغزش تھی یا وہ ان کے ذریعے جماعت والوں تک پیغام پہچانا چاہتے تھے۔ غور و خوض کے بعد مولوی شاہ محمد صاحب اس نتیجے پر پہنچے کہ اس لیول کے بندے سے زبان کی لغزش نہیں ہو سکتی، ضرور دوسری ہی صورت ہے۔ اگلے روز مولوی صاحب نے اچھرہ کے مرکزی دفتر میں جماعت کی اعلیٰ قیادت کو اس ملاقات کی روداد سنا دی۔ جماعت اسلامی کا یہ مستقل رویہ ہے کہ وہ کسی رکن جماعت کے متعلق غیر رکن کی شکایت کو کبھی قابل اعتنا نہیں گردانتے۔ چنانچہ یہ خبر سن کر جماعت والوں نے حسب عادت مولانا کوثر نیازی کے متعلق چھان بین کرنے کے بجائے الٹا مولوی شاہ محمد صاحب کے متعلق تفتیش شروع کر دی۔ بہرحال اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ کوثر نیازی صاحب نے جماعت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا اور ان کا یہ استعفا سبھی اخبارات میں بری دھوم دھام سے شائع ہوا تھا۔ استعفے کے بعد جماعت کا ردعمل کچھ اس قسم کا تھا کہ ہمیں شکایات موصول ہو رہی تھیں اور ہم ایکشن لینے ہی والے تھے کہ انھوں نے پہلے استعفا داغ دیا۔

کوثر نیازی صاحب کے ذکر سے ایک اور صاحب یاد آ گیے ہیں جن کا نام تھا پیرزادہ افتخار احمد قدوسی۔ جماعت کے گلبرگ حلقہ کے امیر تھے۔ ایرفورس میں ملازمت کرتے تھے لیکن پچاس کی دہائی میں جماعت کی رکنیت کی وجہ نوکری سے مستعفی ہو گئے۔ انگریزی اچھی خاصی روانی سے بول لیتے تھے۔ مال روڈ پر کمرشل بلڈنگ میں واقع دکان برکت علی ساڑھی ہاوس والوں کے ہاں ملازمت کرتے تھے۔

 قدوسی صاحب کی طبیعت میں کسی قدر غیر سنجیدگی کا عنصر تھا۔ کوئی نام پوچھتا تو پی آئی اے قدوسی بتاتے۔ ماڈل ٹاون میں ان کی ہمارے ہاں کافی آمد و رفت شروع ہو گئی۔ اکثر صبح فجر کی نماز کے کچھ دیر بعد تشریف لے آتے۔ آتے ہی انگریزی میں گفتگو شروع کرتے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے کہ میں یہ بلڈی زبان بولنے پر معذرت چاہتا ہوں۔ بزرگ ہونے کے باوجود میری ان کے ساتھ کچھ چہل بازی چلتی رہتی تھی جس کو وہ خود ہی شہ دیتے تھے۔ ایک دن میں نے ان کے سامنے اقبال کا یہ مصرع کچھ اس طرح پڑھا: لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگ ریزی، تو کہنے لگے برخوردار لڑکیوں کا انگ نہیں ہوتا۔

کوثر نیازی صاحب کو جماعت اسلامی میں لانے والے قدوسی صاحب ہی تھے اور ابتدائی کئی برسوں تک ان کے ایک طرح سے گارڈین بھی رہے تھے۔ جب کوثر نیازی صاحب پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر بن گئے تو ایک روز لاہور میں سڑک پر جاتے ہوئے انھیں قدوسی صاحب نظر آ گئے تو گاڑی میں انھیں ساتھ بٹھا لیا۔ انھی دنوں کوثر نیازی صاحب کا جواں سال بیٹا، جو گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا، ایک حادثے میں جاں بحق ہو گیا تھا۔ قدوسی صاحب تعزیت کرنے کوثر نیازی صاحب کے ہاں گئے تو جماعت اسلامی والے قدوسی صاحب پر بہت خفا ہوئے تھے۔

گلبرگ کی اسی مسجد میں ملنے والے ایک اور صاحب یاد آ رہے ہیں جن کا نام عنایت اللہ خان تھا۔ اس وقت وہ واپڈا میں چیف انجنئیر تھے اور بعد میں ممبر واپڈا کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے۔ مسجد کے گیٹ کے بالکل سامنے ان کی رہائش تھی۔ وہ بھی جاوید صاحب کے درس قرآن میں شریک ہوتے تھے۔ ان دنوں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سبب بہت سے لوگوں پر مایوسی اور بددلی کا غلبہ تھا۔ ان سے بات ہوتی تو بس یہی کہتے، کچھ دیر کی بات ہے انڈیا نے ادھر بھی آ جانا ہے۔ میں نے تو گھر کے باہر نام کی جو تختی لگی ہوئی ہے اس کی الٹی طرف کرپا رام لکھوا لیا ہے۔ جب وہ آئیں گے تو میں نے بس اس تختی کو الٹ دینا ہے۔ میں ان سے کہا کرتا تھا، آپ نے عنایت اللہ کا ترجمہ بہت اچھا کیا ہے۔

سن 1972 ہی میں اور ایک صاحب سے جو ایم ایس خان کہلاتے تھے، ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ بے ریش لیکن مونچھیں بڑی گھنی تھیں۔ (برسوں بعد وہی صاحب داڑھی رکھ کر اور سر پر پگڑی پہن کر انجنئیر محمد سلیم اللہ خان کے نام سے معروف ہوئے اور جمعیت علمائے پاکستان کے ایک دھڑے کے سربراہ بن گئے تھے۔) وہ سنی پارٹی بنانے کے لیے بہت سرگرم تھے۔ میں نے ان سے سنی کی تعریف دریافت کی تو ان کا جواب تھا: جو شیعہ نہیں وہ سنی ہے۔

 ایک دفعہ جماعت اسلامی لاہور کے امیر رانا اللہ داد صاحب کے گھر پر ہونے والے جاوید صاحب کے درس قرآن میں خان صاحب شریک ہوئے۔ اس درس میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما عبدالحمید کھوکھر بھی موجود تھے۔ درس کے بعد جب لوگ چلے گئے تو کھوکھر صاحب اور خان صاحب کے مابین کافی طویل گفتگو ہوئی جس میں کھوکھر صاحب نے بہت دھیمے انداز میں ان کے سنی جماعت کے تصور کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے تھے۔ کھوکھر صاحب کے انداز گفتگو سے میں کافی متاثر ہوا تھا۔ اب سیاق و سباق ٹھیک طرح سے یاد نہیں لیکن خان صاحب نے شاید بعض سیاست دانوں کو سیکولر اور مذہب دشمن کہا تو کھوکھر صاحب نے جواب دیا، یہاں کسی کو مذہب مخالف کہنا اتنا آسان نہیں ہے۔ کھوکھر صاحب کا کہنا تھا کہ انھوں نے جیل میں کئی نمازیں سردار اکبر بگٹی کی امامت میں پڑھی ہوئی ہیں۔

ان سب باتوں کے علی الرغم ایم ایس خان صاحب کا سنی جماعت بنانے کا جذبہ سرد نہ پڑا۔ 1972 کے اواخر یا 1973 کے شروع میں جب ملک میں آئین سازی پر بحث مباحثہ زوروں پر تھا انھوں نے لارنس روڈ پر، گنگا رام ہسپتال کے پیچھے جو رہائشی علاقہ ہے، ایک کوٹھی میں ہونے والی میٹنگ میں جاوید صاحب اور مجھے مدعو کیا۔ ان کے اصرار پر ہمیں جانا پڑا۔ وہاں سات آٹھ بڑی عمر کے لوگ موجود تھے، جن میں نوائے وقت میں نور بصیرت کے عنوان سے کالم لکھنے والے میاں عبد الرشید بھی تھے۔ میاں صاحب گلہ کر رہے تھے کہ انھوں نے کئی اخبارات کو خطوط لکھے تھے جو کسی نے بھی شائع نہیں کیے۔ ان خطوط کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان میں شیعوں کو وہی حقوق دیے جائیں جو ایران میں سنیوں کو حاصل ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستان میں کوئی اخبار اس قسم کے مطالبے کو شائع کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ کچھ گفتگو کے بعد طے پایا کہ اگلے اجلاس میں میاں صاحب پارٹی منشور کے لیے کچھ نکات لکھ کر لائیں گے تاکہ ان پر گفتگو ہو سکے۔ اگلا اجلاس ہوا تو سب کو اس بات پر بڑی حیرت ہوئی کہ میاں صاحب پاکستان سنی پارٹی کا دستور ایک پمفلٹ کی صورت میں چھپوا کر لے آئے تھے جس پر کنوینر کے طور پر ان کا اپنا نام درج تھا۔ اب یہ تو یاد نہیں کہ سنی پارٹی سے ایم ایس خان صاحب کا کیا تعلق رہا تھا لیکن سمن آباد میں میاں صاحب کے گھر کے باہر جو کافی بڑا بورڈ لگا ہوتا تھا اس پر کنوینر پاکستان سنی پارٹی بھی درج ہوتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments