پنجاب کی گمشدہ بیٹیاں: ایسی گمشدہ لڑکی کی تلاش جس کی شناخت کے لیے کوئی تصویر بھی نہیں

شاہد اسلم - صحافی


فائل فوٹو
’بار بار پولیس مجھے ہی آکر پوچھتی ہے کہ بتاؤ بیٹی کہاں چھپائی ہے، دل کرتا ہے خود کو آگ لگا لوں۔ دو سال ہونے کو ہیں لیکن میری جوان بیٹی کا کچھ پتا نہیں کہ اسے قتل کردیا گیا ہے یا وہ ابھی بھی زندہ ہے۔ اسے زمین کھا گئی ہے یا آسماں نگل گیا۔اپنی بیٹی کی تلاش میں میرا گھر بک گیا، تمام جانور بک گئے اب کچھ نہیں بچا لیکن پھر بھی میری بیٹی کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔‘

محمد رمضان جب صحن میں رکھی ہوئی ایک چارپائی پہ بیٹھ کر اپنی 17سالہ بیٹی ثوبیہ بتول کے اغوا کے متعلق بتا رہے تھے تب جذبات پہ قابو رکھنا ان کے لیے مشکل ہو رہا تھا جس کی وجہ سے بار بار ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے تھے۔

بی بی سی کی ٹٰیم نے اگست 2020 میں لاپتہ ہونے والی محمد رمضان کی جواں سال بیٹی کی تلاش کے سلسلے میں جاری کوششوں اور کیس کی تفتیش کے متعلق معلوم کرنے کے لیے سرگودھا کا رخ کیا۔ محمد رمضان سرگودھا شہر سے تقریبا 25 کلومیٹر دور شاہ پور- ساہیوال روڈ پہ واقع ایک چھوٹے سے گاؤں حسین شاہ میں رہتے ہیں جس کی آبادی چند ہزار افراد پر مشتمل ہے۔

محمد رمضان چھوٹی موٹی مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے چار بچے ہیں جن میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جن میں سب سے بڑی ثوبیہ بتول تھی۔

محمد رمضان کی آنکھوں میں مسلسل انتظار کے بعد اب اپنی بیٹی کے کبھی واپس نہ آنے کے خدشات بھی محسوس کیے جا سکتے تھے۔

’اگر میری بیٹی کو مار دیا گیا ہے تو کم از کم اس کی لاش ہی ڈھونڈ دیں تاکہ سکون تو آ جائے اور اگر کہیں شادی کر کے رہ رہی ہے تو بھی بتا دیں ہم چپ کر جائیں گے۔‘

وہ پولیس کے رویے اور تفتیش سے بھی شدید نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ ’میں ایک غریب آدمی ہوں اس لیے پولیس میری بات نہیں سنتی اور میری بیٹی کو بازیاب کروانے میں ناکام ہے۔‘

ثوبیہ بتول کی والدہ غلام بی بی کی حالت بھی مختلف نہیں۔ بیٹی کے اغوا کے بعد سے غلام بی بی کی صحت بھی مسلسل گر رہی ہے اور اس جدائی کے غم نے ان کی آنکھوں کو بھی خشک کردیا ہے، وہ نہ ہنستی ہیں اور نہ ہی روتی ہیں جیسے منجمند سی ہو گئی ہوں۔

ثوبیہ بتول کے اغوا کے متعلق بی بی سی کو تفصیلات بتاتے ہوئے غلام بی بی نے کہا کہ ’جب سے میری جواں سال بیٹی اغوا ہوئی ہے میری آنکھوں کی نیند چلی گئی ہے، ہر وقت بس اس کے متعلق ہی سوچتی رہتی ہوں کہ پتا نہیں کس حال میں ہو گی میری بیٹی، زندہ بھی ہے یا نہیں؟‘

ماں کی انکھوں میں اپنی جوان بیٹی کے انتظار کی امید اب بھی قائم ہے۔ غلام بی بی نے بتایا کہ انپیں آج بھی اس یقین پہ ہے کسی روز ان کی بیٹی گھر لوٹ آئے گی۔’

’بیٹی کی جب یاد آتی ہے تو روتی ہوں۔ ہر وقت سوچتی رہتی ہوں کہ یہاں بیٹھ کے وہ روٹی بناتی تھی، کھانا کھاتی تھی، گھر کا کام کاج کرتی تھی اور گھر کے سارے کام خود کرتی تھی مجھے کام کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیتی تھی۔‘

انھوں نے مزید بتایا، ‘میں نہیں کہہ سکتی کی بیٹی زندہ بھی ہے یا نہیں۔ میں فالج کی مریض ہوں مجھے اس بیٹی کا غم کھا گیا ہے۔ خدا کے واسطے، ہم ہاتھ جوڑتے ہیں، پاؤں پڑتے ہیں کہ ہماری بیٹی کو بازیاب کروا دیں۔‘

غلام بی بی کو جہاں تقریبا 23 ماہ سے غائب اپنی جواں سال بیٹی کا غم کھائے جارہا ہے وہیں وہ پولیس کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں اور انھیں شکوہ ہے کہ پولیس نے ان کی بیٹی کی بازیابی میں پوری محنت سے کام نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ اب تک بازیاب نہیں ہو سکی۔

غلام بی بی کا موقف ہے کہ اس کی وجہ ملزمان کا با اثر ہونا اور ان کا غریب ہونا ہے۔ تاہم اس اہم مقدمے کی تفتیش کی نگرانی کرنے والے ڈی پی او سرگودھا ڈاکٹر رضوان خان ان الزامات کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں ’ان تمام باتوں میں سچائی نہیں کیونکہ پولیس پچھلے تقریبا دو سال سے اس کیس کو ٹریس کرنے میں اپنی پوری محنت اور لگن سے کوشش میں مصروف ہے۔‘

ڈی پی او سرگودھا کے مطابق اس مقدمے میں شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے مشکلات ضرور آئی ہیں لیکن وہ بہت جلد اس کیس کو حل کر لیں گے۔

ثوبیہ بتول کب اور کیسے غائب ہوئی؟

محمد رمضان نے بتایا کہ اس کی بیٹی کی منگنی کچھ عرصہ قبل اس کی والدہ کے چچا کے بیٹے سے کھاریاں میں طے ہوچکی تھی۔ تاہم غائب ہونے سے کچھ عرصہ قبل ثوبیہ بتول کی اپنے گاؤں حسین شاہ کے رہائشی محمد عمیر سے دوستی ہوئی۔

عمیر جو اب اس کیس کا مرکزی ملزم بھی ہے ساہیوال میں موبائل فونز کی دکان چلاتا تھا۔ اس نے بات چیت کے لیے ثوبیہ بتول کو بھی ایک فون دے دیا جس پر ان کی بات ہوتی رہتی تھی۔

ملزم عمیر کے خاندان نے جہاں مویشی رکھے ہوئے تھے اس کے بالکل ساتھ ہی ثوبیہ کا گھر بھی تھا جس کی چاردیواری زیادہ اونچی نہ ہونے سے وہ کبھی کبھار ایک دوسرے سے فون کے بغیر بھی بات چیت کر لیتے تھے جس کا ثوبیہ کی چھوٹی بہنوں کو بھی علم تھا۔

اغوا سے چند روز قبل ثوبیہ کے بھائی کو اس کے زیر استعمال موبائل فون کا پتا چل گیا جس کے بعد اس نے یہ بات اپنے والدین کو بتائی جس پر ثوبیہ کی کافی سرزنش ہوئی۔

محمد رمضان کے مطابق 21 اگست 2020 کو دونوں میاں بیوی کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر گئے ہوئے تھے تو ثوبیہ اپنی بہنوں کے ساتھ گھر پہ تھی لیکن جب دوپہر کے وقت وہ واپس آئے تو بچوں نے بتایا کہ ثوبیہ گھر پہ نہیں اور نہ ہی ادھر ادھر سے پتا کرنے پہ کہیں سے مل رہی ہے البتہ ثوبیہ بتول کے زیر استعمال فون گھر میں ہی پڑا ہوا ملا۔

ثوبیہ کی والدہ

غلام بی بی کا کہنا ہے جب سے جواں سال بیٹی اغوا ہوئی ہے ان کی آنکھوں کی نیند چلی گئی ہے

محمد رمضان اور اس کی بیوی نے گلی، محلے اور آس پاس کی سبھی جگہوں پہ اپنی جواں سال بیٹی کو تلاش کیا، تمام رشتہ دار و عزیز و اقارب سے ثوبیہ بتول کے بارے میں دریافت کیا لیکن انھیں اپنی بیٹی کا کوئی سراغ نہ ملا۔ محمد رمضان نے ملزم عمیر اور اس کے گھر والوں سے بھی رابطہ کیا لیکن انھوں نے بھی ثوبیہ کے متعلق صاف انکار کردیا ہے کہ وہ ان کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی اسے غائب کرنے میں ان کا کوئی ہاتھ ہے۔

محمد رمضان نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم عمیر کے والد نے ایک پنچائت میں بتایا کہ عمیر کا ایک لڑکی سے رابطہ تھا لیکن اس کا تعلق ساہیوال سے تھا جس کے بعد ہی اس نے ہر طرف سے تھک ہار کر وقوعہ کے چار روز بعد یعنی 25 اگست کو تھانہ شاہ پو صدر میں اپنی بیٹی کے اغوا اور قتل کے شبہ میں درخواست دی تھی۔

تفتیش کے آغاز پر ہی پولیس پر مبینہ سست روی اور غیر سنجیدگی کے الزامات

محمد رمضان کے مطابق پولیس کی مبینہ سست روی کی وجہ سے اس درخواست پہ مقدمہ درج کرنے میں مزید دو روز گزر گئے اور یوں 27 اگست 2020 کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 365-B یعنی اغوا کے تحت یہ مقدمہ درج کرلیا گیا جہاں سے اس کیس کی تفتیش اور متاثرہ خاندان کی اب تک نہ ختم ہونے والی آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق ثوبیہ بتول اغوا کے روز گھر سے نکل کر شاہ پورا- ساہیوال روڈ پہ پہنچی جہاں اس نے ایک اعجاز میکن نامی شخص سے موٹر سائیکل پہ لفٹ لی اور شاہ پور بس سٹاپ پہ اتر گئی۔

مغوی ثوبیہ بتول نے اعجاز میکن کے فون سے ہی ملزم عمیر کو کال جس کے بعد سے آج تک اس کا کوئی پتا نہی کہ وہ کہاں گئی، اسے وہاں سے کون لے گیا اور کیا وہ زندہ بھی ہے یا اسے قتل کردیا گیا ہے۔

محمد رمضان کے دعوے کے مطابق پولیس نے شروع دن سے ہی اس کیس کی پیروی میں سست روی اختیار کی جس کی وجہ سے اس کی بیٹی تاحال بازیاب نہیں ہوسکی۔

ان کے مطابق پولیس نے مقدمہ درج ہونے کے بعد بھی اس کیس میں نامزد ملزم محمد عمیر کا گرفتار کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا۔

اس کیس کی ابتدائی تفتیش میں پولیس اغوا کے اس اہم مقدمے کی تفتیش سب سے پہلے ایک اے ایس آئی عبد العزیز کے سپرد کی گئی جس کے تبادلے کے بعد کیس کی تفتیش سب انسپکٹر ظفر عباس کے حوالے کر دی گئی۔

اسی طرح جب سب انسپکٹر ظفر عباس کا بھی تبادلہ ہو گیا تو تفتیش انسپکٹر محمد اسلم کو سونپی گئی۔ اس کیس کے موجودہ تفتیشی ڈی ایس پی صدر سرکل سرگودھا ثنا ﷲ ہیں جبکہ اس سارے معاملے کی تفتیش کی نگرانی ڈی پی او سرگودھا ڈاکٹر رضوان خان کر رہے ہیں۔

محمد رمضان کے مطابق اس کی بیٹی ثوبیہ کے زیر استعمال فون کا کال ڈیٹا ریکارڈ یعنی سی ڈی آر اس نے اپنے ایک عزیز ریٹائرڈ پولیس اہلکار کے ذریعے پیسے خرچ کر کے 23 اگست کو پولیس کو نکلوا کر دی تھی جس سے ملزم عمیر اور اس کی بیٹی کا رابطہ ثابت ہوتا تھا۔

پولیس ریکارڈ بھی اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ کیس کے مرکزی ملزم محمد عمیر کی باقاعدہ گرفتاری اغوا کا مقدمہ درج ہونے کے تقریبا سات ماہ بعد ہی ممکن ہو سکی جس کی وجہ ملزم کا عدالتوں سے ضمانت قبل از گرفتاری کروانا بنی۔

محمد رمضان کا دعویٰ ہے کہ ملزم عمیر کو پولیس نے پہلی مرتبہ 13 اکتوبر کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ ڈی پی او کے سامنے پیش ہوا لیکن 20 اکتوبر کو اسے بے گناہ کرکے چھوڑ دیا گیا تھا۔

گرفتاری کے بعد چار فروری 2021 کو ملزم عمیرکا جسمانی ریمانڈ لیا گیا اور دوران تفتیش ملزم نے انکشاف کیا کہ مغوی ثوبیہ بتول اس کے ہمسائے میں رہتی تھی اور دونوں کی دوستی تھی اور وقوعہ سے کچھ ماہ قبل اس نے ثوبیہ کو ایک فون تحفے کے طور پر دیا تھا۔ ملزم عمیر نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وقوعہ کے روز ثوبیہ بتول نے اسے کسی دوسرے نمبر سے فون کیا تھا۔

دوسری طرف 14 نومبر 2020 کو اس کیس کے تفتیشی افسر نے مغوی ثوبیہ بتول اور مرکزی ملزم کے موبائل فونز قبضے میں لے کر پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی بھجوا دیے تاکہ ان سے ڈیٹا دستیاب کروایا جا سکے۔ پی ایف ایس اے نے رپورٹ میں بتایا کہ زیادہ تر کالز، میسیجز اور رابطوں کے نمبرز ڈیلیٹ کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح پولیس نے ملزم اور مغوی کے زیر استعمال سمز اور فونز کا کال ڈیٹا ریکارڈ بھی نکلوایا۔

بی بی سی کو موصول ایک پولیس رپورٹ کے مطابق سی ڈی آر سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ مغوی ثوبیہ بتول نے وقوعہ کے روز 1:30 بجے دوپہر کو ملزم اعجاز حسین کے نمبر سے ملزم محمد عمیر کے فون پہ کال کی تھی۔ سی ڈی آر سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ عین اسی وقت ملزم عمیر کو ملزم اعجاز میکن کا بھی فون آیا۔

پولیس ٹیم اس مقدمے کی اہم کڑی اعجاز میکن کے پاس پہنچی اور اسے حراست میں لے لیا ۔

دوران تفتیش ملزم اعجاز میکن نے بھی وقوعہ کے روز پیش آئے واقعات کا اعتراف کیا جس پر اسے باقاعدہ گرفتار کر کے عدالت ریمانڈ کے لیے لے جایا گیا لیکن وہاں مدعی پارٹی نے ہی عدالت میں یہ لکھ کر دے دیا کہ اعجاز میکن ان کا ملزم ہی نہیں جس کی بنیاد پر اسے چھوڑ دیا گیا۔

پولیس تفتیش جوں جوں آگے بڑھتی رہی اس کیس سے مبینہ طور پر منسلک دوسرے کردار بھی سامنے آتے گئے۔ تحقیقات کے دوران پولیس ٹیم گوجرانوالہ جا پہنچی جہاں گوجرانوالہ چھاؤنی میں تعینات پاکستانی فوج کے ایک جوان سرفراز احمد کو اس کیس میں شک کی بنیاد پر گرفتار کر لیا کیونکہ اس کا ملزم عمیر سے رابطہ تھا۔

دونوں ملزمان 15 فروری تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس حراست میں رہے لیکن ثوبیہ بتول کی بازیابی کے متعلق کوئی بھی سراغ نہ مل سکا جس کے بعد ملزمان جیل بھیج دیے گئے۔

پولیس نے تفتیش مکمل کرتے ہوئے دونوں ملزمان محمد عمیر اور سرفراز احمد کو اس کیس میں قصوروار ٹھہرایا اور اس کیس کا چالان تین اپریل 2021 کو مقامی عدالت میں جمع کروا دیا۔

ثوبیہ کے والد

پولیس نے درج ذیل باتوں کی روشنی میں دونوں کو قصوروار ٹھہرایا

ملزم محمد عمیر اور ثوبیہ بتول کا فون کے ذریعے رابطہ تھا اور دونوں کے درمیان 257 کالز کا ریکارڈ موجود ہے۔

سی ڈی آر کے مطابق مغوی ثوبیہ بتول نے وقوعہ کے روز آخری کال اعجاز حسین میکن کے فون سے اس نمبر پہ کی جو ملزم محمد عمیر کے زیر استعمال تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس نے دو چشم دید گواہ بھی پیش کیے جن کے بیانات کے مطابق انھوں نے خود ملزم عمیر کو دو دیگر ملزمان کے ساتھ ثوبیہ بتول کو اغوا کرتے دیکھا تھا۔

اسی طرح محمد افضل اور محمد شہزاد نامی کردار بھی سامنے آئے جنھوں نے پولیس کو بتایا کہ انھوں نے ملزم عمیر کو ثوبیہ بتول کو اغوا کرتے دیکھا تھا۔ پولیس چالان کے مطابق ملزم سرفراز احمد جس دن یہ وقوعہ پیش آیا اس روز چھٹی پہ گاؤں آیا ہوا تھا اور سی ڈی آر سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ وہ مرکزی ملزم عمیر کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا۔

دوران تفتیش، مدعی کی درخواست پر مرکزی ملزم کے والد محمد قاسم کو بھی شامل تفتیش کیا گیا تاہم پولیس نے اسے بےگناہ قرار دیتے ہوئے رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی۔ عبدالرحیم اور محمد شفیق جو مرکزی ملزم محمد عمیر کے ساتھ قریبی رابطے میں تھے ان سے بھی پوچھ گچھ کی گئی لیکن کچھ ہاتھ نہ لگا۔

پولیس تفتیش پنجاب کے شہروں سے دوسرے صوبوں تک

جب مرکزی ملزم کی گرفتاری اور اس سے پوچھ گچھ کے بعد بھی پولیس کو ثوبیہ بتول کے متعلق کوئی سراغ نہ ملا تو پولیس نے اس کیس کی تفتیش کے دائرے کو بڑھا دیا۔

ٹریول میپ نکلوایا گیا جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مغوی ثوبیہ بتول جائے وقوعہ والے روز گھر سے نکل کر شاہ پور صدر مین روڈ کی طرف گئی تھی۔ کیس کی تفتیش کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ گھر سے نکلنے سے پہلے مغوی ثوبیہ بتول نے موبائل کا سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا تھا۔

مغویہ ثوبیہ بتول کے گھر کے آس پاس رہنے والی کئی خواتین کو بھی شامل تفتیش کیا گیا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔ پولیس نے ثوبیہ بتول کی ہمسائیوں کی سی ڈی آرز کا بھی جائزہ لیا لیکن مغویہ کے متعلق کوئی معلومات نہ مل سکی۔

اسی طرح ثوبیہ کے اغوا کے متعلق ایک اشتہار جاری کیا گیا جو تمام صوبوں کے آئی جیز کو بھجوایا گیا اور معلومات دینے والے کے لیے انعامات کا اعلان بھی کروایا گیا تاکہ مغویہ کا کوئی سراغ مل سکے۔

بی بی سی کو موصول پولیس رپورٹ کے مطابق جہاں ثوبیہ کی تلاش کے لیے ملک بھر کے ہسپتالوں، دارالامان اور مردہ خانوں کے ریکارڈ کی چھان بین کی گئی وہیں سرگودھا، خوشاب، ساہیوال، کھاریاں، فیصل آباد، گوجرانوالہ، جیک آباد، جھنگ، منڈی بہاؤالدین،سبی، کشمور، ڈیرہ مراد جمالی، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، لعل شہباز قلندر، مینگورہ اور بہاولپور کے اضلاع میں سرچ آپریشن کیے گئے لیکن کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔

تفتیش کے دوران ملزمان سمیت 14 دیگرلوگوں کے 23 فون نمبرز کی سی ڈی آرز نکلوا کر ان کا بھی جائزہ لیا گیا لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اسی طرح پولیس نے 60 دیگر مشکوک نمبروں کی سی ڈی آرز کا جائزہ بھی لیا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔ سی ڈی آر سے یہ بات بھی پتا چلی کہ خوشاب میں واقع گاؤں رنگ پور کھاڈی کی رہائشی مغوی ثوبیہ بتول کی حقیقی خالہ رضیہ بی بی سے بھی اکثر بات چیت ہوتی تھی اس لیے پولیس ٹیم نے وہاں بھی سرچ کیا لیکن کچھ ہاتھ نہیں لگا۔

اسی طرح پولیس کی تفتیشی ٹیم نے ڈسٹرکٹ جیل شاہ پور کا بھی دورہ کیا جہاں قید مرکزی ملزم محمد عمیر سے ملنے والے تمام ملاقاتیوں کا ریکارڈ اکٹھا کیا جس کے بعد ان کے فون ریکارڈ ز کا جائزہ لیا گیا لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔

ڈی پی او ڈاکٹر رضوان

ڈی پی او ڈاکٹر رضوان کے مطابق 365-B سیکشن کا غلط استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے اتنا شاید 420 کا بھی نہیں ہوتا

پولیس تفتیش میں نیا موڑ، کیس اب سپریم کورٹ میں

سرگودھا پولیس کی تاریخ کے اس منفرد اور اہم نوعیت کے کیس میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب مرکزی ملزم محمد عمیر نے اپنی ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے ملک کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ رجوع کیا۔

23 نومبر2021 کو یہ کیس سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہو گیا جس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے آئی جی پنجاب کو اس کیس میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے مغوی کو بازیاب کروانے کے لیے کوششیں تیز کرنے کی ہدایت کی۔

سپریم کورٹ کے حکم پر ریجنل پولیس آفیسر(آر پی او) سرگودھا ڈویژن نے ثوبیہ بتول کی بازیابی کے لیے ڈی پی او سرگودھا کی قیادت میں ایک سپیشل ٹیم تشکیل دی۔ پولیس ٹیم نے مدعی محمد رمضان سے 24 نومبر کو دوبارہ ملاقات کی لیکن کوئی نئی معلومات نہ مل سکیں۔

سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آئی جی پنجاب نے آر پی او سرگودھا کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دی تاکہ ثوبیہ بتول کو بازیاب کروایا جاسکے۔

آئی جی پنجاب نے متعلقہ حکام کو حکم دیا کہ انہیں اس کیس کی پیش رفت رپورٹ ہر ہفتے جمع کروائی جائے، ایف آئی اے اور آئی بی کی معاونت سے مغوی کے زیر استعمال موبائل فون سے ڈلیٹ کیے گئے ڈیٹا ریکور کروانے کا بھی کہا گیا۔

ایف آئی اے اور آئی بی کی معاونت سے مغوی کے زیر استعمال تیسرے موبائل فون کی جیو فینسنگ کی گئی، سی ڈی آر کا دوبارہ مکمل جائزہ لیا گیا لیکن کچھ نیا ہاتھ نہ لگ سکا۔

پولیس ٹیموں نے شاہ پور اور بنگلہ شاہ حسین میں کامبنگ آپریشن کیا گیا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔ سپیشل ٹیم نے بس کمپنیوں کے ملازمین، رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیوروں سمیت مزید 30 لوگوں سے پوچھ گچھ کی لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔ اس کے علاوہ سپیشل ٹیم نے مرکزی ملزم سمیت 19 دیگر ملزمان اور مغویہ اور ملزم کے قریبی رشتہ داروں سے بھی پوچھ گچھ کی لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔

یہی نہیں بلکہ اسلام آباد اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں سے 21 اگست 2020 کے بعد سے ثوبیہ بتول کی عمر کی نامعلوم خواتین کی لاشوں کے ڈی این اے کے نمونے بھی منگوائے گئے اور انھیں مغویہ کے والد اور والدہ کے ڈی این اے سے ملایا گیا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔

بغیر شناخت و چہرے کے مغوی کو بازیاب کروانے میں پولیس کو درپیش مشکلات

اس کارروائی کے دوران مغوی ثوبیہ بتول کا سکیچ بھی بنوایا گیا کیونکہ اس کی تازہ کوئی تصویر دستیاب نہیں تھی۔

سپریم کورٹ میں اس کیس کی جاری سماعت نے جب پولیس کو مزید متحرک کیا تو ثوبیہ کا تو سراغ نہیں مل سکا مگر ایسی سینکڑوں مغوی بچیوں کو سرگودھا پولیس نے بازیاب کروا لیا جو کئی سال سے لاپتا تھیں۔

صرف سرگودھا سے گذشتہ پانچ سالوں کے دوران 400 کے قریب لڑکیاں اغوا ہوئیں جن میں سے بیشتر کو اس کیس کی تفتیش کے دوران بازیاب کروایا گیا ہے۔

ایسے ہی ایک آپریشن کے دوران 16 جنوری 2022 کو پولیس ٹیم نے ٹبہ گاما، کالر کوٹ، بھکر میں سرچ آپریشن کے دوران جھنگ کی یاسمین کو بازیاب کروایا۔ یاسمین کے چہرے کی شباہت بہت زیادہ ثوبیہ بتول سے ملتی تھی اس لیے محمد رمضان اور غلام بی بی کو یاسمین سے ملوایا گیا لیکن انھوں نے بتایا کہ یاسمین ان کی بیٹی ثوبیہ نہیں ہے۔

مرکزی ملزم عمیر کا مغوی ثوبیہ سے تعلق ثابت ہوتا ہے

بی بی سی بات کرتے ہوئے اس کیس کی نگرانی کرنے والے ڈی پی او سرگودھا ڈاکٹر رضوان خان کا کہنا تھا کہ ثوبیہ بتول کے کیس میں مدعی نے جب درخواست دی تو پھر خود ہی وقت مانگا کہ وہ خود اسے ڈھونڈ رہے ہیں اس لیے وقوعہ کے ایک ہفتے بعد اس کیس کی ایف آئی آر درج ہوئی۔

اس سوال کے جواب میں کہ اغوا کے کیس میں متاثرہ خاندان کی طرف سے درخواست دینے کے بعد بھی ایف آئی آر کے اندراج میں مزید تین دن لگنے سے تفتیش کا آغاز ہی سست روی کا شکار ہوگیا اس پہ ڈی پی او ڈاکٹر رضوان خان کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی درخواست موصول ہوئی پولیس پرچہ دینے کو تیار تھی لیکن متاثرہ فیملی نے ہی روکا کہ ہمیں ابھی اسے خود سے تلاش کر نے دیں۔‘

ڈی پی او کے مطابق ایف آئی آر کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب درخواست آتی ہے تو اس کے بعد پھر ایف آئی آر کے لیے درخواست گزار کے دستخط لینے ہوتے ہیں اور وہ تبھی درج ہوگی جب متاثرہ فریق کی مرضی ہو گی۔

ثوبیہ کے والدین

ثوبیہ کے والدین

’ہماری تفتیش میں ملزم عمیر کا مغوی سے تعلق ثابت ہوتا ہے۔ ملزم عمیر ثوبیہ بتول کے غائب ہونے سے چند دن پہلے تک اس سے موبائل فون کے ذریعے رابطہ میں تھا اور سی ڈی آر سے بھی یہ اس بات کا پتہ چلا ہے کہ دونوں کے درمیان 257 کالیں موجود ہیں۔‘

ڈی پی او کے مطابق ثوبیہ بتول کے اغوا اور پھر اسے کہیں لے جانے یا رکھنے کے متعلق اب تک مستند تصدیق نہیں ہوپائی کہ یہ ملزم نے ہی کیا ہے۔

ڈاکٹر رضوان خان نے بتایا کہ ایف آئی اے، دیگر اضلاع اور صوبوں کی پولیس، سی ٹی ڈیز، آئی بی، آئی ایس آئی، ایدھی ہومز، دارالامان، نادرا، قحبہ خانے، پناہ گاہیں، ریسکیو سروس، ہسپتال، مردہ خانے، ایئرپورٹس، بندرگاہیں، زمینی بارڈرز، جیلیں، پاسپورٹس، محکمہ ہیلتھ، سی پی ایل سی چیف کراچی ، روشنی ہیلپ لائن کراچی، بچہ فائنڈر این جی او غرض ہر جگہ ثوبیہ کو تلاش کیا گیا ہے اور وہ خود بھی اس مقصد کے لیے کراچی، اسلام آباد کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی گئے ہیں لیکن تاحال مغوی کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

ڈی پی او کے مطابق قبریں کھودنے والوں سے بھی معلومات اکھٹیں کی گئیں ہیں لیکن ثوبیہ بتول کے متعلق کچھ نہیں ملا۔ اسی طرح انھوں نے مزید بتایا کہ کئی مشکوک جگہوں بشمول مدعی اور ملزم پارٹیوں کے گھروں اور ڈیروں پر کھدائی بھی کئی گئی ہے لیکن کچھ نہیں ملا۔

ڈی پی او سرگودھا ڈاکٹر رضوان خان کے مطابق ملزم محمد عمیر، سرفراز احمد، اعجاز حسین، محمد قاسم اور محمد حسین کے علاوہ مغوی کے والد محمد رمضان، والدہ غلام بی بی اور دیگر رشتہ داروں کے پولی گرافک ٹیسٹ بھی کروائے گئے ہیں جن کی رپورٹس تو آچکی ہیں لیکن کیس زیر تفتیش ہونے کی وجہ سے وہ ابھی ان پہ بات نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے کیس کی جاری تفتیش پہ اثر پڑ سکتا ہے۔

ڈی پی او نے مزید بتایا کہ 25 جنوری 2022 کو مدعی کی درخواست پر ملزم محمد عمیر اور دیگر ملزمان کے خلاف قتل کی دفعات کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

ڈی پی او سرگودھا ڈاکٹر رضوان کے مطابق پولیس کو ایک نامعلوم کالر کی طرف سے اطلاع دی گئی کی ثوبیہ بتول کو ملک محمد حیات فقیر، علی عباس شاہ، خداداد نیچ، ملک رفعت ٹوانہ وغیرہ نے اغوا کیا ہوا ہے اور وہ ان کے قبضے میں ہے لیکن جب پولیس نے تمام ملزمان کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی تو کوئی سراغ نہ ملا۔

ملزم کی گرفتاری میں اتنی دیر کیوں لگی، اس سوال کے جواب میں ڈی پی او کا کہنا تھا کہ ’ابتدا میں ملزم پارٹی اور متاثرہ فریق دونوں کے آپس میں اس کیس کو لے کر مذاکرات ہوتے رہے اس کے بعد ملزم عمیر نے سیشن کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری کروالی جب وہ پولیس نے خارج کروائی تو اس نے ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی جسے پولیس کی ان تھک محنت سے خارج کروایا تو اس نے لاہور کے تھانے انارکلی میں اپنی گرفتاری دے دی جس کے بعد اسے تفتیش کے لیے سرگودھا لایا گیا۔ ‘

ڈی پی او کے مطابق ’پولیس نے اس کیس کی تفتیش مکمل کر کے چالان متعلقہ عدالت میں جمع کروایا جس میں ملزم عمیر کو گنہگار لکھا گیا لیکن لڑکی پھر بھی برآمد نہ ہوسکی جس کی وجہ سے کیس مزید التوا میں چلا گیا کیونکہ اصل مقصد تو لڑکی کی بازیابی ہی تھی۔ ‘

’ہمارے پاس چونکہ ثوبیہ بتول کی کوئی تصویر موجود نہیں تھی اور نہ ہی اس کا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے اس لیے اس کی پہچان کو لے کر اس کیس کی تفتیش میں کافی مسئلہ پیش آیا۔ ہم نے ثوبیہ بتول کا خاکہ بنوایا گیا جسے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز پہ چلوایا گیا لیکن اس کے باوجود بھی تاحال اس لڑکی کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں چلی گئی ہے۔‘

ڈی پی او سرگودھا کے مطابق وہ خود جگہ جگہ گئے ہیں، کراچی سمیت دیگر جگہوں پہ گئے ہیں، ایف آئی اے سے بات کی ہے حتیٰ کہ افغانستان بھی رابطہ کیا لیکن تاحال کامیابی نہیں مل سکی۔

365-B کا غلط استعمال 420 سے زیادہ

ڈی پی او سرگودھا ڈاکٹر رضوان خان جو اس سے قبل اہم نوعیت کے کیسیز بشمول راؤ انوار، قندیل بلوچ قتل کیس کے تفتیشی رہ چکے ہیں لڑکیوں کا گھر سے چوری چھپے بھاگ جانا ایک سماجی مسئلہ ہے لیکن اس کا حل پولیس سے کروایا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر رضوان کے مطابق 365-B سیکشن کا غلط استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے اتنا شاید 420 کا بھی نہیں ہوتا۔ لڑکیاں مرضی سے چلی جاتی ہیں لیکن بعد میں پولیس میں کیس اغوا کا درج کروا دیا جاتا ہے لیکن جب پولیس انہیں بازیاب کروا لیتی ہے تب عدالتوں میں متاثرہ فریق بیان دے دیتے ہیں کہ وہ تو مرضی سے گئیں تھیں۔

ڈاکٹر رضوان خان نے بی بی سی کو بتایا کہ سرگودھا یا سنٹرل پنجاب کے بیشتر دہی علاقوں میں لڑکیوں کا شادی کی غرض سے اس طرح گھر سے کسی کے ساتھ چلے جانا عام ہے۔

ان کے بقول ‘صرف ہمارے پاس سرگودھا میں ہی 370 ایسے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں ہماری کامیابی یہ رہی کہ ہم نے 296 کیسز کا سراغ لگا لیا جن میں زیادہ تر کیسز میں لڑکیاں اپنی مرضی سے گھر سے گئیں اور اپنی مرضی سے جاکر شادی کرلی۔‘

ڈی پی او کے مطابق جب انھوں نے ایسی لڑکیوں کو بازیاب کروایا تو لڑکیاں اپنا نکاح نامہ دے دیتی ہیں اور عدالت کے سامنے سی آر پی سی کے سیکشن 164 کے تحت بیان دے دیتی ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے گئیں تھیں اور اب اپنی مرضی سے شادی کر کے اپنے خاوند کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’296 بازیاب لڑکیوں کے کیسیز میں سے ہمارے پاس صرف 76 کیسز ایسے آئے جن میں ملزمان کو چالان کرنا پڑا کیونکہ یا تو لڑکیوں نے گھر والوں کے کہنے پہ اپنے بیانات تبدیل کرلیے تھے یا پھر وہ واقعی اغوا ہوئیں تھیں۔‘

ڈی پی او سرگودھا کے مطابق وہ تمام کوششیں جو پولیس کر سکتی ہے وہ ہم کررہے ہیں۔

’جب فصلیں تیار ہو کر بکتی ہیں تو ایسا واقعات تسلسل سے رپورٹ ہوتے ہیں یہ ایک نیچرل فنومنا ہے۔ تعلیم، آگاہی کی کمی ہے۔‘

ڈی پی او کے مطابق موبائل کا موجود ہونا اور وہاں لڑکیوں پہ مناسب نگرانی نہ رکھنے کی وجہ سے لڑکیوں کا گھر سے ایسے چلے جانا ور شادی کر لینا پنجاب میں ہے جس کی آگاہی کے لیے مسلسل کام ہو رہا ہے تاکہ ثوبیہ بتول کے کیس کی طرح بازیابی میں مشکلات کم ہوں۔

ڈاکٹر رضوان خان ثوبیہ بتول کو اب تک بازیاب نہ کروانے کو پولیس کی ناکامی بھی نہیں سمجھتے۔ ان کے بقول’ثوبیہ کی بازیابی میں کامیابی یا ناکامی کی بنیاد پر آپ پولیس کی ناکامی یا کامیابی نہیں کہہ سکتے بلکہ اس سلسلے میں کی گئی کوششوں اور کاوشوں کی بنیاد پر پرکھیں تو ہم ناکام نہیں ہوئے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ 376 کیسز میں سے 294 کیسز میں لڑکیوں کو بازیاب کروانے سے صاف ظاہر ہے کہ پولیس اچھا کام کر رہی ہے۔

اغوا

صوبۂ پنجاب سے پچھلے پانچ میں چالیس ہزار سے زیادہ لڑکیاں غائب ہوگئیں

شناختی کارڈ جاری کرنے کی عمر تک ب فارم کیوں نہیں

پولیس تفتیش میں آئی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے ڈی پی او کہتے ہیں کہ ’ثوبیہ بتول کا شناختی کارڈ نہیں، لڑکی کے گھر والوں نے اس کی کوئی تصویر ہم سے شیئر نہیں کی، لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے تعاون کم کیا گیا ہے۔ ‘

’’اس کیس کے اندر مشکوک چیزیں کافی ساری ہیں جس طرح کیس رپورٹ ہوا اور لڑکی کے غائب ہونے کے متعلق بہت کم معلومات مہیا ہونا بھی شکوک و شبہات کا جنم دیتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ آج کے جدید دور میں بھی ہمیں مغوی لڑکی کی تصویر مہیا نہیں کی گئی۔ آج اس دور میں یہ ماننا خاصا مشکل ہے کہ کوئی ایسا شخص ہو جس کی کوئی تصویر موجود نہ ہو۔ ‘

’ہم اس کیس کی ہر زاویے سے تفتیش کر رہے ہیں۔ کامیاب تفتیش کے لیے طریقہ کار اور سمت درست ہونی چاہیے جو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کیس میں ہماری ہے تو کامیابی بھی ضرور ملے گی لیکن وقت کتنا لگے گا اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے’۔

ڈاکٹر رضوان خان کے مطابق عمران فاروق قتل کیس میں بھی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود تھی لیکن فائنل رپورٹ یا چالان منظر عام پر آنے میں ساڑھے آٹھ سال لگ گئے تھے۔ ’اتنے سال لگنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ پولیس کی تفتیش ناکام ہوگئی تھی بلکہ وہ ایک کامیاب تفتیش تھی۔‘

ڈی پی او سرگودھا کے مطابق ایسے کیسز میں جہاں شواہد کم ہوں یا مٹ چکے ہوں، لڑکی کی تصویر کوئی نہ ہو، شناختی کارڈ نہ بنا ہو،پہچان کا ذریعہ کوئی نہ ہو اور اس کے زیر استعمال فون اس کے گھر سے ہی بازیاب ہو تو ایسے کیسیز میں لڑکی کو ڈھونڈنے میں بے شمار مشکلات ہوتی ہیں۔

ان تمام چیلینجز اور مشکلات کے باوجود کیس صحیح سمت میں چل رہا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ ہم اس کیس کو حل کرنے میں کامیاب ضرورہوں گے۔

یہ کیس نومبر 2021 میں سپریم کورٹ چلا گیا جس کے بعد پولیس نے اپنی کوششوں کی میں تیزی لائی اس سوال کے جواب میں ڈی پی او کا کہنا تھا کہ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ ہم کیس سپریم کورٹ میں جانے سے پہلے تفتیش کرکے مرکزی ملزم کو گرفتار کرچکے تھے۔

’سپریم کورٹ میں تو معاملہ ملزم کی ضمانت کی وجہ سے پہنچا۔ پولیس تو اپنا کام ٹھیک طریقے سے کر رہی تھی کیونکہ اس کیس میں مغوی کا چہرہ توسامنے ہے کوئی نہیں ہم تو ایک طرح سے ایک سائے کو ڈھونڈھ رہے ہیں لیکن پھر سپریم کورٹ میں معاملہ جانے کے بعد اس کیس کی اہمیت بڑھ گئی کیونکہ وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے۔‘

ڈاکٹر رضوان خان مزید کہتے ہیں کہ ’جب سپریم کورٹ کسی بات کا نوٹس لیتی ہے تو اس معاملے پہ توجہ کئی گناہ بڑھ جاتی ہے لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ پولیس اس معاملے میں غیر سنجیدہ تھی۔ ‘

کیا یہ کوئی انسانی سمگلنگ کا کیس ہے، اس سوال کے جواب میں ڈی پی او کا کہنا تھا کہ ’انسانی سمگلنگ کے کیسیز یہاں رپورٹ نہیں ہوتے لیکن پھر بھی دوران تفتیش ہم نے تمام قحبہ خانوں کو سرچ کیا تو کئی لڑکیاں بازیاب ہوئیں، انہیں عدالتوں میں پیش کیا لیکن زیادہ تر لڑکیاں دارالامان سمیت کسی اور جگہ جانے کو تیار نہیں تھیں۔ لیکن ہم نے کئی لڑکیوں کو منا کر دارالامان بھجوایا ہے۔ ‘

ڈی پی او سرگودھا ڈاکٹر رضوان کے مطابق ’ابھی تک کی تفتیش میں انسانی سمگلنگ کا کوئی پہلو اس کیس میں سامنے نہیں آیا۔ ان 294 بازیاب لڑکیوں کی کیسز میں بھی ایسا ایک بھی شواہد یا سراغ نہیں ملا کہ اس میں انسانی سمگلنگ کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ ہم نے کوئی ایک کیس بھی ایف آئی اے کو نہیں بھجوایا’۔

ڈی پی او سرگودھا کے مطابق ’یہ ان کیسز میں سے ہے جو ابھی تک پوشیدہ ہیں لیکن جس طریقے سے تفتیش آگے بڑھ رہی ہے مجھے پورا یقین ہے کہ ہم اس بہت جلد اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ ‘

کیا ثوبیہ بتول کے غائب ہونے میں اس کے اپنے گھر والوں یا رشتہ داروں کا ہاتھ ہے اس سوال کے جواب میں ڈی پی او کا کہنا تھا کہ ’یہ کیس ایک بند گلی میں پھنس گیا تھا جسے نکالنے کے لیے ہم نے تفتیش تبدیل کی ہے اور اب ایک ڈی ایس پی کی سربراہی میں ایک نئی ٹیم ان تمام پہلوؤں کو دیکھ رہی ہے۔’

‘جہاں تک انسانی سوچ جاسکتی ہے اس کیس کو حل کرنے کرنے کے لیے وہاں تک ہی سوچا جارہا ہے۔ اس کو زمین کے اندر سے کھودنے سے لے کر تمام محرکات تک جایا جارہا ہے’۔

ڈی پی او کے مطابق یہ کہنا کہ کیا یہ غیرت کے نام پہ قتل وغیرہ کا کیس ہوسکتا ہے ابھی قبل از وقت ہوگا کیونکہ تفتیش جاری ہے اور بہت جلد ان تمام سوالوں کے جوابات مل جائیں گے۔

لڑکیوں کے گھر سے بھاگنے کے بڑھتے واقعات کی وجوہات کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈی پی او کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ شعور کا ہے, آگاہی کا ہے۔

ان کے بقول ’اگر ایسے کیسیز کا بغور جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ بہت سی لڑکیاں معاشی حالت کی وجہ سے غریب گھروں سے نکل کر جارہی ہیں کیونکہ معاشی حالت کی وجہ سے والد یا والدہ یا پھر دونوں کا ہی کام میں زیادہ مصروف رہتے ہیں اور بچوں کو مناسب وقت نہ دینا، ان پہ توجہ نہ دینا، تعلیم کی کمی ہونا اور میڈیا اور معاشرے کی طرف سے آگاہی کا نہ پہنچنا بھی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔ ‘

کیس کے بند تالے کو سراغوں کی چابی کا انتظار

کیا ثوبیہ بتول کیس کا ملزم اتنا ہی چالاک اور شاطر ہے جس نے پوری پولیس فورس اور دیگر اداروں کو چکرا کر رکھ دیا ہے اور کوئی سراغ ہی نہیں چھوڑا یا معاملہ کچھ اور ہے اس پہ بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رضوان خان نے کہا کہ’جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے تو اپنے نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے جن کو دوران تفتیش پولیس فالو کرتی ہے اور مجرمان کا تعاقب کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوتی ہے لیکن اس کیس میں بدقسمتی سے ایسے نشانات تھے نہیں یا انہیں جان بوجھ کر مٹا دیا گیا ہے۔ اس کیس میں درخواست آنے سے لے کر اب تک بہت سے شکوک و شبہات پیدا کیے گئے جن کی وجہ سے پولیس کو تفتیش میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا’۔

سرگودھا پولیس کے لیے ثوبیہ بتول کیس کو حل کرنا کتنا بڑا چیلینج ہے، اس سوال کے جواب میں ڈی پی او کا کہنا تھا کہ اس کیس کا حل ہونا دیگر کیسز کی طرح ہی اہم ہے اور پولیس دن رات ایک کر رہی ہے بچی کو ڈھونڈنے میں اور مجھے یقین ہے بہت جلد اس کیس کے بند تالے کو سراغوں کی کوئی نہ کوئی چابی ضرور لگے گی جس سے یہ سارا کیس خود بخود حل ہوجائے گا۔

کیا اس کیس میں پولیس کا خبری نیٹ ورک بھی ناکام ہوچکا ہے، اس سوال کے جواب میں ڈکٹر رضوان کا کہنا تھا کہ پولیس کے خبری نیٹ ورک کو پوری طرح متحرک کیا گیا تھا لیکن کامیابی اس لیے نہیں مل سکی ابھی تک کیونکہ کوئی چہرہ تو سامنے ہے نہیں ہم تو ایک سائے کو ڈھونڈ رہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ نادرا کو شناختی کارڈ کی عمر پوری ہونے تک تمام بچوں کے فارم B جاری کردینا چاہیے جس سے بندے کو ڈھونڈنے میں مدد مل سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments