پنجاب کا تعلیمی نظام، نئی حکومت کا امتحان


موجودہ ترقی یافتہ دور میں نظام تعلیم کی اہمیت سے کوئی بھی ذی ہوش فرد انکار نہیں کر سکتا۔ سائنسی، معاشی اور معاشرتی ترقی کی دوڑ میں تعلیم ہی کسی معاشرے کی بقا کی ضامن ہے۔ سوئی سے لے کر خلائی شٹل تک کی تیاری میں گو ہنر مند اور ذہین افراد اپنا حصہ ڈالتے ہیں لیکن اس کے پیچھے سب سے اہم ہاتھ، اس قوم کے نظام تعلیم اور تعلیمی ڈھانچے کا ہے۔ دیکھا جائے تو تمام ترقی یافتہ اقوام کے عروج کا بنیادی سبب نظام تعلیم کی کامیابی میں ہی مضمر ہے۔

اگر تعلیمی ڈھانچہ انتہائی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو اور نونہالان وطن کو معاشرے کا ایک مفید شہری بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہو تو لامحالہ قوم اوج ثریا تک پہنچنے میں دیر نہیں لگاتی۔ لیکن وائے بد قسمتی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی نظام کے ساتھ ابتدائے آزادی سے ہی سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو بھی حکمران اقتدار میں آتا ہے، وہ سب سے پہلے تعلیمی پالیسی کے ساتھ کھلواڑ شروع کر دیتا ہے۔

پرویز مشرف کے دور سے ہی تعلیمی نظام کو سیکولر بنیادوں پر استوار کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں اور ہر آنے والی حکومت نے شد و مد سے اس تخریبی فعل کو یوں سر انجام دیا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ سخت موسم کا نزلہ ہمیشہ تعلیمی اداروں کو بند کرنے اور بچوں کو گھر بٹھانے پر ہی گر رہا ہے، آج تک کسی نے نہیں سوچا کہ جن غریب کے بچوں کو گرم یا سرد موسم کی وجہ سے گھر بٹھایا جا رہا ہے، ان کو گھر میں کوئی ایسی سہولت میسر ہے جو سکول میں نہیں ہوتی۔

سردی ہو یا گرمی بجلی اور پانی ایک ایسی سہولت ہے جس کا ہر سکول میں ہونا لازمی ہے، جہاں تک میرے مشاہدے میں ہے کہ صوبہ پنجاب میں کوئی بھی ایسا سکول نہیں ہے جہاں بجلی اور پانی کی سہولت مہیا نہ کی جا رہی ہو، لیکن اگر موسم شدید سرد ہے تو ایک ماہ کے لئے ہر کمرہ جماعت میں ایک ایک ہیٹر لگا کر کمرے کو گرم رکھا جا سکتا ہے، اسی طرح شدید گرم موسم میں بھی سولر پلیٹوں کی مدد سے انتہائی کم خرچ پر بچوں کو روم کولر (ڈی سی یا اے سی کرنٹ کی مدد سے ) کی سہولت با آسانی فراہم کی جا سکتی ہے۔

لیکن نادان حکمران کی تعلیم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے سکولوں میں تعطیلات کا رواج زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سابقہ عشرے میں بچوں کو سکول میں حاضر رکھنے کے لئے معلم پر بہت زیادہ سختی کی جاتی ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ والدین کو قانون سازی کے ذریعے مجبور کیا جاتا کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں۔ اس سلسلے میں میں ہمیشہ ایک مثال دیتا ہوں کہ غیر ملکی آقاؤں کی کرونا لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کروانے کے لئے تو سڑکوں پر مرغا بنا دیا جاتا ہے تا کہ ہماری کرونا فنڈ امداد نہ رک جائے اور والدین کو کوئی بھی ادارہ مجبور نہیں کرتا کہ اپنے بچوں کو نزدیکی سکول بھیجیں۔

اگر بات کی جائے محکمہ تعلیم کی تو میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ نصاب سازی اور امتحانات کے محکموں کے علاوہ، کھیل اور غیر نصابی سر گرمیاں منعقد کروانے والے اکثر سرکاری تعلیمی محکمے کے افسران سارا دن کرسیاں توڑنے اور اونگھنے کے علاوہ کوئی کام سر انجام نہیں دے رہے۔ موجودہ تعلیمی سال ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، ایلیمنٹری جماعتوں کی کتابیں ابھی تک بازار میں دستیاب نہیں ہیں، کجا یہ کہ موسم گرما کی طویل تعطیلات شروع ہو نے والی ہیں۔

پنجاب ایگزامینیشن کمیشن تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے، ڈی ٹی ایز کے خاتمے کے بعد تعلیمی جائزے کے لئے میٹرک پاس مانیٹرنگ افسر تعینات کیے گئے کیونکہ ہمارے ہاں کسی بھی نظام کو سدھارنے کے لئے سابقہ فوجیوں کی منتظمانہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ایک عادت ثانیہ بن چکی ہے، تعلیم نظام کو غیر تربیت یافتہ افراد کے ہاتھ میں سینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ تعلیم کو سستا کرنے کی بجائے اس کی اہمیت کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو بے قیمت کر دیا گیا ہے۔

والدین اپنی اولاد کو اب کسی بھی ادارے میں بھیجنے کی بجائے ہنر مند بنانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جس کا لا محالہ یہ نقصان ہو گا کہ ہمارے ملک میں سائنسدان، ڈاکٹر اور انجینئر کی بجائے ورکشاپ کے چھوٹے، فیکٹریوں کے مزدور اور دفاتر کے کلرک زیادہ پیدا ہوں گے۔ موجودہ دور میں غریب اور سفید پوش طبقے کے والدین کی سب سے پہلی سوچ یہی ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ میٹرک کر کے محکمہ پولیس میں یا فوج میں سپاہی بھرتی ہو جائے یا کسی محکمے میں کلرک لگ جائے، لیکن ہماری یہی سوچ رہی تو ایک وقت آئے گا جب ہمارے ملک میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لئے افراد درآمد کیے جائیں گے، جیسا کہ اب بھی ماہر معیشت دان ہمیں کسی ترقی یافتہ ممالک سے ہی بلانے پڑتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی بچے کی سال بھر کی کار کردگی کا جائزہ صرف سالانہ امتحان سے ہی ممکن ہے، اگر امتحان داخلی کی بجائے خارجی بنیادوں پر ہو تو میرٹ اور انصاف کا قتل نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر طالب علم کی تخلیقی اور تعمیری صلاحیتیں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں لیکن سابقہ پنجاب حکومت نے آتے ہی سب سے پہلا وار تعلیم پر کیا کہ جماعت پنجم اور ہشتم کے امتحانات یکسر ختم کر دیے گئے اور مختلف مقامی سکولوں کے بچوں اور اساتذہ کے درمیان مقابلہ و مسابقت کی فضا کا خاتمہ کر دیا گیا۔

جس کی وجہ سے نہ صرف اساتذہ کو اپنی من مانیاں کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کر دیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قومی اور نجی سکولوں کے درمیان جو مقابلہ کی فضا تھی، وہ ختم ہو گئی۔ ایلیمنٹری و پرائمری اساتذہ تو کرونا کی تعطیلات سے لطف اندوز ہوتے رہے اور نظام تعلیم پر ایک ظلم یوں کیا گیا کہ وہ تمام بچے جو سال بھر گھر بیٹھے رہے تھے ان کو اگلی جماعت کی کتابیں پکڑا کر پروموٹ کر دیا گیا، سونے پر سہاگہ یہ کہ اس سال پنجاب ایگزامینشن کمیشن نے اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے اپریل کے آخری ہفتے یہ اعلان کر دیا کہ تمام سکول ان کی ویب سائٹس سے امتحانی پرچہ جات تیار کریں اور اپنے سکول کے بچوں سے داخلی طور پر خود ہی زبانی اور تحریر امتحان لیں، وہ پرچہ جات کتنی مشکل اور ذلالت کے بعد ڈاؤن لوڈ ہوئے، یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن یہی پرچہ جات نجی کمپنیاں ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے میں فروخت کرتی تھیں، پنجاب ایگزامینیشن کی کرم فرمائیوں کی بدولت ہر پرائمری سکول کو چار سے پانچ ہزار روپے این ایس بی فنڈ ( نان سیلری بجٹ ) سے خرچ کر کے خریدنے پڑے اور ساتھ ٹیکس کی مد میں بھی ایک بھاری رقم ادا کرنی پڑ رہی رہی ہے، جس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ 2005 ء میں محکمہ تعلیم پنجاب کا قائم ہونے والا یہ لے پالک، ذیلی ادارہ اب فنا کے قریب تھا، کمیشن مافیا اور خواب خرگوش کے مزے لیتے اور ٹھنڈے کمروں میں پورے دو سال آرام کرتے افسران کو ہوش اس وقت آیا جب نواز لیگ اقتدار میں آئی اور ان کو لگا کہ ہو سکتا ہے اس ادارے کو محکم تعلیم میں دوبارہ ضم کر دیا جائے۔

یاد رہے کہ 2020 ء میں جماعت پنجم اور ہشتم کا آخری امتحان لیا گیا، جس میں صرف جماعت ہشتم کے گیارہ لاکھ کے قریب طلباء شامل امتحان ہوئے، جب کہ اس سال کامیابی کا تناسب 89 فیصد رہا تھا۔ اس کے بعد تو پنجاب حکومت نے میٹرک کے امتحان کے خاتمے کا عندیہ بھی دے دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرائمری اور ایلیمنٹری جماعت کے خارجی امتحانات کا کیا فائدہ ہے؟ ماہرین تعلیم کی تحقیق کے مطابق خارجی امتحانات سے نہ صرف کسی طالب علم کی تمام صلاحیتوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے ساتھ اساتذہ اور تعلیمی ادارے کی کارکردگی کا بھی بخوبی علم ہو جاتا ہے۔

میری ناقص رائے کے مطابق اس امتحان کی بدولت تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے درمیان نہ صرف مقابلے اور مسابقت کی فضا پیدا ہوتی ہے بلکہ طلباء کی محنت بھی اکارت نہیں جاتی۔ جب سے بچوں کو امتحانی نمبروں کے ٹوکرے بھر کر دینے اور فیل نہ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے، بچوں کی لگن، محنت اور توجہ میں بہت کمی آئی ہے۔ طلباء کے ذہن میں یہ بات سما گئی ہے کہ فیل تو ہونا نہیں ہے محنت کرنے اور سکول جانے کا کیا فائدہ؟ میری موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور محکمہ تعلیم کے کرتا دھرتا افراد سے یہی گزارش ہے کہ خدا را! ہوش کے ناخن لیں اور قوم کی تعمیر میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں تاکہ روز قیامت آپ اللہ کے حضور سرخرو ہو سکیں۔

٭٭٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments