چولستان۔ انسانیت کا نوحہ


گزشتہ ہفتے برادر اصغر ملک عمر فاروق بھچر سے ملنے ملتان جانے کا اتفاق ہوا، صائم اور ثوبان بھی ساتھ تھے۔ رات لگ بھگ ساڑھے نو بجے ڈائیوو ٹرمینل ملتان سے جیسے ہی باہر نکلے تو گرم ہوا کے تھپیڑوں نے استقبال کیا۔ ایک تو ملتان میں نووارد تھے اوپر سے بس کے ائر کنڈیشنڈ ماحول سے باہر نکلے تو ہوا کسی تندور سے آتی محسوس ہوئی یکلخت دونوں بچے بے اختیار پکار اٹھے، بابا اتنی گرمی میں چاچو لوگ یہاں کیسے رہتے ہیں؟

وہ تو ملتان شہر میں اپنے چاچو کو ملنے ان کے گھر آئے تھے۔ جہاں زندگی کی ہر سہولت ان کی منتظر تھی۔ ان کو کیا معلوم تھا کہ اسی ملتان شہر کے قریب گرمی کے ان دنوں میں صحرائے چولستان کے باسی پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔

نئے دور کے ان بچوں کو کیا معلوم کہ چولستان کی پیاس اور گرمی کس عذاب کا نام ہے؟

ان کو کیا معلوم کہ صحرا میں زندگی کیا کیا تماشے لگاتی ہے؟ وہ کیا جانیں کہ چولستان واسی اب بھی پتھر کے دور میں زندہ ہیں۔

یہ معصوم بچے جو صبح شام میڈیا کی سکرینوں پر سوٹڈ بوٹڈ سیاستدانوں کو خوشحالی لانے کے دعوے کرتے دیکھتے ہیں۔ ان کے ایکڑز پر پھیلے محلات اور اقتدار کے ایوان دیکھتے ہیں۔ ماڈل بنے اینکرز کو گھسے پٹے سیاسی پروگرام کرتے ہوئے اپنے ہی الفاظ دوسروں کے منہ میں ڈالتے دیکھتے ہیں۔ یہ جو آئے روز ٹی وی سکرینوں پر مختلف جماعتوں کے سیاستدانوں کو باہم دست و گریباں ہوتے دیکھتے ہیں۔ یہ جو بڑے بڑے جغادری لیڈروں کو بزعم خود انسانوں کے سمندر سے خطابات کرتے دیکھتے ہیں۔

یہ جو ہر لیڈرز کو بائیس کروڑ عوام کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرتے دیکھتے ہیں۔ یہ جو ہر لمحہ ٹکرز کی صورت میں چلنے والے معزز ججز کے ریمارکس دیکھتے ہیں۔ یہ جو کلف لگی وردیوں میں ملبوس فوجی جرنیل دیکھتے ہیں۔ ان کو میں کیسے سمجھاؤں کہ آگ اگلتے چولستان میں ان دنوں زندگی کیسے خراج مانگ رہی ہے؟ ان کو کیا معلوم کہ اس پاک دھرتی پر اب بھی ایسی دنیا آباد ہے کہ جہاں انسان اور جانور کی زندگی میں چنداں فرق نہیں ہے۔

یہ معصوم بچے اپنے بابا سے ملتان کی گرمی کا سوال تو کر سکتے ہیں مگر لاہور کی آنٹی مریم اور میانوالی کے انکل عمران سے سوال کی جرات نہیں کہ آنٹی اور انکل آپ روزانہ اپنے سیاسی جلسوں پر کروڑوں روپے اڑا رہے ہو۔ صرف ایک دن کے جلسوں کا خرچہ چولستان واسیوں کے صحرائی ٹوبوں میں پانی ڈالنے کے لئے استعمال کرلو۔

یہ جو روزانہ انسانوں کا سمندر اکٹھا کرتے ہو صرف ایک دن کے لئے اس کا رخ چولستان کی طرف پھیر کر چولستان واسیوں کے لئے پانی اور خوراک کا بندوبست کردو۔

یہ معصوم بچے میڈیا کے کارپردازوں کا گریبان پکڑ کر کیسے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ سیاسی جلسوں کی بورنگ تقاریر دکھانے کے بجائے چولستان واسیوں کی حالت زار دیکھا سکیں، وہ ایک پروگرام ریٹنگ کے بجائے انسانیت کے نام کرسکیں۔

یہ معصوم بچے دین کے ٹھیکیداروں کو کیسے مجبور کر سکتے ہیں کہ ایک جھولی مسجد مدرسے کے چندے کے بجائے صحراء واسیوں کے لئے بھی پھیلا دیں۔

چولستان میں زندگی بھیانک ہو گئی ہے مگر ہمیں اپنی راج نیتی کے مسائل کے حل سے چھٹکارا نہیں۔ کسی کو اقتدار چھن جانے کا غم تو کسی کو مکمل اختیار نہ ملنے کا روگ، کوئی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی فکر میں غلطاں تو کوئی سیاسی بساط الٹتے دیکھنے کا منتظر

اتنا ظلم کہ مرکزی دھارے کی کوئی ایک جماعت بھی مصیبت زدہ چولستانی بھائیوں کے دکھ میں شریک نہیں

کہاں ہیں درجنوں مسلم لیگیں، کہاں گئی پاکستان تحریک انصاف، کہاں ہے روٹی کپڑا اور مکان کی علمبردار پاکستان پیپلز پارٹی، کہاں ہے مہاجروں کی آواز متحدہ قومی موومنٹ و دیگر جماعتیں

چولستان واسیوں کی اشک شوئی کے لئے پاکستان سپیڈ کے دعوے دار جناب شہباز شریف کے کان پر جوں رینگی نہ ہی پاکستان کو عظیم ملک بنانے کے دعوے دار جناب عمران خان کی زباں پر ان کا ذکر آ سکا۔

وہاں پر وہی ناکافی وسائل رکھنے والی چھوٹی جماعتیں پہنچیں جن کا وہاں پہنچنا اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے۔ تحریک اللہ اکبر (سابقہ جماعت الدعوہ) ، جمعیت اہل حدیث اور دعوت اسلامی کے مٹھی بھر لوگ چولستان واسیوں کی بحالی کے لئے اپنی سی کاوشیں کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی واحد قابل ذکر مرکزی دھارے کی جماعت ہے جس کا شعبہ خدمت خلق ہمیشہ کی طرح مستعدی سے چولستان کے المیہ کی شدت کو کم کرنے کے لئے کوشاں ہے

شاید موجودہ حکومت بھی اپنی پیشرو حکومتوں کی طرح حرکت میں آنے کے لئے ایک عظیم انسانی المیے کے ظہور پذیر ہونے کی منتظر ہے مگر۔ کب تک۔ آخر کب تک ہم یونہی انسانی المیوں کو جنم دے کر انسانیت کو تار تار کرتے رہیں گے۔ آخر کب تک ہم خود اپنی نا اہلیوں کا نوحہ پڑتے رہیں گے۔

چولستان میں آباد انسانی اور حیوانی آبادی کے لئے پانی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ باران رحمت ہے جو رب کعبہ کی منشاء کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ اپنی رحمتوں کے نزول کو روک کر بھی حضرت انسان کو آزمانے اور پرکھنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ صحراء کو نخلستان میں بدلنے کا ہنر اللہ نے انسان کو بخشا ہے دنیا کے اندر اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں جب حضرت انسان نے صحرا ء کو جنت میں بدل دیا۔ اس وقت امتحان ہمارا ہے حکومت وقت کا ہے، مقتدر حلقوں کا ہے وہ عزم کر لیں تو اس تخریب سے تعمیر ممکن بنا سکتے ہیں ورنہ خالق کائنات سے بعید نہیں کہ وہ اس قوم کو ایک بہتر قوم سے بدل ڈالیں

اور پھر
تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments